ٹاک شوز میں تو عام تھا لیکن اب سرکاری اجلا س بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں

یاسمین طہٰ
————-

مرادعلی شاہ کی گرفتاری کی خبریں کئی عرصہ سے گردش کررہی ہین،حالیہ نیب مقدمات کے بعد اس خبر کو تقویت مل رہی ہے اور انکی باڈی لینگویج بھی اس خبر کو سپورٹ کررہی ہے۔ 16 جنوری کے اجلاس میں علی زیدی اور مرادعلی شاہ کی گفتگو سن کر یہ اندازاہوا کہ سیاست دانوں نے اب شعلہ بیانی کی حدود پار کرکے بد تہذ یبی کو اپنا شعار بنا لیا ہے،جس کا مظاہرہ چینلز کے ٹاک شوز میں تو عام تھا لیکن اب سرکاری اجلا س بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ اور علی زیدی اور مراد علی شاہ کے درمیان گھمسان کا رن میڈیا کی زینت بنا تو معلوم ہوا کہ ہمارے سیاستدان تمام اخلاقی حدود کو پار کرچکے ہیں۔اس حوالے سے وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا ہے کہ کراچی کو تباہ و برباد کرنے میں پیپلز پارٹی نے بڑا کردار ادا کیا ہے، میں نے اجلاس میں وزیراعلی سندھ سے سادہ سوال کیا لیکن مراد علی شاہ نے کہا میں آ پ کو جوابدہ نہیں ہوں،جس پر میں نے اجلاس میں یہ بات ضرور کی کہ آپ لوگ منافق ہیں۔ اجلاس میں سوال میرا حق تھا۔علی زیدی یہ بتانا بھول گئے کہ وہ اجلاس کے بعد فائل پٹخ کر کمرے سے باہر آگئے تھے، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ آئین پاکستان کے مطابق وہ وزیراعظم کو جواب دہ ہیں نہ ہی وفاق کے کسی اور عہدیدار کو وہ صرف سندھ کے عوام کی نمائندہ سندھ اسمبلی کو جواب دہ ہیں۔لیکن اجلاس کے دوران ان کا رویہ بھی مناسب نہ تھا۔کراچی کو فراہمی آب کے بڑے منصوبے کے فور سے اگلے تین سال میں بھی پانی ملنا ممکن نہیں ہوگا، کے فور پراجیکٹ پر نومبر 2021 تک کام شروع ہونے کا امکان ہے۔اس طرح کراچی میں اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے کا پہلا مرحلہ سال 2023 تک التوا کاشکار ہوگیا ہے، وزارت پانی و بجلی نے منصوبے کی ٹائم لائن وزارت منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات کو ارسال کردی۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ ایکنک کی منظوری کے بعد ہی شروع کیا جاسکے گا، ایکنک کی منظوری کے تین ماہ بعد رواں سال اپریل تک کنسلٹنٹ اپائنٹ کئے جاسکیں گے، کنسلٹنٹ جولائی 2021 تک منصوبے کی ڈیزائن، پی سی ون اور بڈنگ ڈاکیومنٹ جمع کرائے گا۔جس کے بعد کے فور پراجیکٹ پر نومبر 2021 تک کام شروع ہونے کا امکان ہے،اس منصوبے میں تقریبا اٹھارہ برس کی تاخیر ہوچکی ہے، منصوبے کا سول ورک اگست 2018 سے تعطل کا شکار ہے۔وفاق میں پی ٹی آئی کے اتحادی ایم کیوایم نے ملیر کے حلقہ پی ایس 88 کے ضمنی الیکشن میں اپنا امیدوار دستبردار کرانے سے انکار کردیاہے اور ایم کیوایم نے پی ایس 88 ملیر کی نشست پر پی ٹی آئی کے مدمقابل الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے،متحدہ کا موقف ہے کہ ہمارا اتحاد مرکز میں ہے،واضح رہے کہ پی ایس 88 ملیر کی نشست پر ضمنی الیکشن کے لئے پولنگ 16 فروری کو ہوگی، اور اس نشست پر پیپلزپارٹی کے محمد یوسف، ایم کیوایم کے ساجد احمد اور پی ٹی آئی کے جان شیر جونیجو امیدوار ہیں، تاہم اس حلقے میں پی ٹی آئی ایم کیوایم کے علیحدہ امیدواروں سے پیپلزپارٹی کی پوزیشن مستحکم نظر آرہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر و رکن سندھ اسمبلی خرم شیرزمان نے چیئرمین اینٹی کرپشن سندھ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی جس میں سندھ میں کرپشن کیسز اور اینٹی کرپشن کی کارکردگی کے حوالے سے گفتگو کی بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خرم شیرزمان نے کہا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کے خلاف بھی عدم اعتمادآسکتا ہے۔ہم نے چیئرمین اینٹی کرپشن سندھ سے پوچھا ہے کہ صوبے میں کرپشن کے خاتمے کے لیے اینٹی کرپشن کیا اقدامات اٹھا رہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں اس حوالے سے آپ نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سندھ میں تبدیلی کے لئے جب بھی وزیر اعظم عمران خان حکم کریں گے تحریک عدم اعتماد لائیں گے، سندھ میں کرپشن پر وزیر اعلیٰ سندھ کو استعفیٰ دینا چاہیے 9 نیب ریفرنسز وزیر اعلیٰ کے خلاف چل رہے ہیں،19 ارب گندم کرپشن کیس پر بھی مراد علی شاہ نیب کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پریس کلب جمہوریت کی جہدوجہد میں ملک بھر کی پریس کلبوں کے مقابلے میں ہمیشہ آگے رہا ہے اور ان کی اس ملک کی جمہوریت کے لئے قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ، وزیر اعلیٰ سندھ کی گرفتاری کی صورت میں ان کی تبدیلی کے محض باتیں ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہی رہیں گے