افغان اسٹیک ہولڈر پر مشتمل عبوری انتظامیہ کی تجویز پر افغان عوام کی اکثریت کی حمایت سے ہلچل

افغان پارلیمنٹ میں عبوری حکومت کی گونج ؟ ,,,,,, قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
———–

افغان اسٹیک ہولڈر پر مشتمل عبوری انتظامیہ کی تجویز پر افغان عوام کی اکثریت کی حمایت سے ہلچل
——–

افغان پارلیمنٹ میں عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے گرما گرم بحث نے سیاسی ہلچل پیدا کردی ۔ کابل انتظامیہ متعدد بار عبوری حکومت کے قیام کی تجویز مسترد کرچکی ہے، تاہم بعض اراکین نے ایسے عبوری نظام کو قبول کرنے پر رضامندی بھی ظاہر کی، جس میں پارلیمان و اراکین اسمبلی کی شرکت کو قبول کرنے میں قد غن نہ ہو۔ صدر اشرف غنی نے کسی بھی قسم کی عبوری حکومت کے تصور و قیام کے امکانات کو سختی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا خاکہ بیرونی ہے، اس لئے اسے افغانستان میں قابل اطلاق نہیں بنایا جاسکتا۔ اشرف غنی ’عبوری حکومت‘ کے نظام کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، ان کا جواز ہے کہ یہ عبوری نظام افغانستان میں ناکام ہے۔ واضح رہے کہ اشرف غنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے خلاف چند ممالک کا مشترکہ منصوبہ ہے، جس کا مقصد انہیں اقتدار سے الگ کرنا ہے۔ بعض افغان پارلیمنٹ کے اراکین بھی اسی قسم کے مبینہ الزامات لگاتے نظر آتے ہیں ، اس حوالے سے اراکین افغان پارلیمنٹ کی آرا ء بھی منقسم نظر آرہی ہے۔
افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاچکا ہے کہ امریکا و نیٹو کی مہم ناکام ہوچکی ہے، دوحہ میں افغان طالبان و امریکا کے درمیان افغان مفاہمتی عمل کے معاہدے پر دستخط اس اَمر کی دلیل ہے کہ اتنے عرصے میں افغانستان پر برپا کی جانے والی جنگ میں افغان طالبان کو شکست نہیں دی جاسکی۔ وقتاََ و فوقتاََ امریکی و نیٹو حکام بھی تسلیم کرتے رہے ہیں، لیکن قیام امن کے لئے مفاہمتی معاہدے کے باوجود درست سمت کا اختیار نہ کرنا، ماسوائے بربادی و تباہی کے کچھ نہیں دے پارہا۔ چار دہائیوں میں لاکھوں افغانی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تو دوسری جانب پاکستان کو بھی امریکی جنگ سے ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان پہنچا۔ افغانستان میں امریکا کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کابل انتظامیہ و غیر ملکی افواج کی ناکامی میں سب سے اہم نکتہ باہمی رابطے، اعتماد اور تعاون کی شدید کمی کو تسلیم کیا گیا۔ واضح رہے کہ نیٹو کے سابق سیکرٹری جنرل جاپ ڈی ہوپ شیفر نے کابل انتظامیہ کی کارکردگی پر سکٹ تنقید کرتے ہوئے اسے افغان طالبان سے بھی بڑا مسئلہ قرار دیا تھا، انہوں نے واضح طور پر کابل انتظامیہ کو بدعنوان، نااہل بھی قرار دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کابل انتظامیہ جو کہ امریکی حکومت کی حاشیہ بردار ہے، سیکرٹری جنرل کے بیان پر چراغ پا ہوئی اور وزرات خارکہ کے ترجمان نے کہا کہ صرف افغان ابنتظامیہ بدعنوان نہیں بلکہ ”تعمیر نو“ کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی کرپشن میں مبتلا ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو یہی وہ دو اہم معاملات ہیں، جن کے باعث افغانستان میں بدعنوانی و کرپشن امن کو موقع نہیں دے رہی۔ تعمیر نو کی سرگرمیوں کے لئے مختص فنڈ کرپشن و بد عنوانی پر صرف ہو رہے ہیں، آج بھی عوام خستہ خال و پورا ملک تباہی و بربادی کا شکار ہے۔
یہ صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ امریکا، عراق جنگ میں ہوتا رہا، عراق میں اتحادی حکومت و عراقی انتظامیہ ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی و کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے رہے۔عراق آج تک بے امنی و بے یقینی کا شکار ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ غیر ملکیوں کی باقی ماندہ افواج و جنگجو تنظیمیں عراق کی جان چھوڑ دیں۔ افغانستان کے لئے امریکا کی نئی انتظامیہ کو ان معاملات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے کھربوں ڈالرز کے ضیاع کا حساب کابل انتظامیہ و افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج و اداروں سے لیں جنہوں نے تعمیر نو کے نام پر افغان عوام کا مفاد داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ مئی2021 میں افغان طالبان سے مفاہمتی معاہدے کے مطابق امریکا کی باقی ماندہ ڈھائی ہزار اور نیٹو کی 7500ہزار فوجیوں کو افغانستان کی سرزمین چھوڑنی ہوگی، لیکن ملک گیر تشدد کی مہم میں اُن عناصر کے مفادات کو دیکھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی و جنگ سے فائدہ کس فریق کو زیادہ ہے۔ غالباََ یہی وجوہ نظر آتی ہے کہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر میر رحمان رحمانی نے کہا، ” یہ منصوبہ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور طالبان نے عبوری حکومت یا مجوزہ امن قائم کرنے کے لئے تیار کیا تھا، وہ ہم تک پہنچا ہے۔ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ اس میں موجودہ نظام اور قومی اسمبلی کے ساتھ رہنے کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس میں بہت سارے مسائل درپیش ہیں جن پر بحث کی ضرورت ہے۔” تاہم قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کے قیام کا معاملہ بیرونی مداخلت کا راستہ ہموار کرنے کے مترداف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان کو عوامی حمایت، مذہبی جواز اور ملکی فیصلہ سازی پر یقین ہے تو انہیں بین الافغان مذاکرات کی اساس پر جنگ بندی کو قبول کرلینا چاہیے۔
افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام کوئی نیا و انوکھا منصوبہ نہیں کہ پہلی بار ایسا ہوگا۔ خیال رہے کہ افغان عبوری اتھارٹی کا پہلا قیام 22 دسمبر2001 سے لے کر 13جولائی2002 تک عمل لایا جاچکا تھا۔ امریکا نے افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار سے ہٹانے کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی نام نہاد مہم شروع کی۔ اقوام متحدہ نے جرمنی کے شہر بون میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد اپنی سرپرستی میں کیا، جس میں افغان طالبان مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی تشکیل نو اور عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق رائے پیدا ہوا۔عبوری حکومت کے ڈھانچے میں انتظامیہ، سپریم کورٹ اور خصوصی آزاد کمیشن (لویا جرگہ) شامل تھا۔ عبوری حکومت کے لئے اُس وقت شاہ ظاہر شاہ کی حمایت کا چرچا رہا۔2002 میں ظاہر شاہ روم سے کابل بھی پہنچے، لیکن ایک معاہدے کے باعث حامد کرزئی کے حق میں دستبردار ہوئے۔ کانفرنس میں دو شخصیات ازبک عبدالستار سیرت (روم گروپ) اور پشتون حامد کرزئی کے نام پر غور کیا گیا۔ اس وقت شمالی اتحاد، (متحدہ اسلامی محاذ) جسے سائیپرس گروپ بھی کہا جاتا تھا، ان کے ساتھ ایران سے قریب ترین تعلقات رکھنے والے شاہ محمد ظاہر شاہ، جو روم جلا وطن ہونے کی وجہ سے، روم گروپ کی سربراستی کی وجہ سے معروف تھے، شمالی اتحاد کے، صدر برہان الدین ربانی (1992-1996) صدارتی محل میں تھے اور افغانستان کے مستقبل کے لئے بات چیت کو ملک کے اندر ہی کرنے کے حامی تھے۔بون کانفرنس میں افغانستان کے عبوری ڈھانچے میں ڈاکٹرعبدالستار سیرت (روم گروپ) پر حامد کرزئی کو اس لئے فوقیت دی گئی کیونکہ افغانستان میں پشتون کیمونٹی کی اکثریت کے باعث ازبک رہنما پر اعتماد کم کیا گیا اور بالآکر بون کانفرنس میں حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
دوحہ میں امریکا کے ساتھ افغان طالبان نے ایک مفاہمتی یادداشت کو اصولی بنیادوں پر تسلیم کرکے معاہدے کے مطابق عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں کرائیں گئی۔ تاہم کابل انتظامیہ نے امریکا کا حاشیہ بردار ہونے کے باعث رکاؤٹیں پیدا کیں، تاہم معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے میں 5000 افغان طالبان کے اسیر اور غیر ملکی فوجیوں سمیت انتظامیہ کے ہزار سے زاید قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہوا۔ کابل انتظامیہ نے آخری لمحوں میں افغان طالبان کے اہم رہنماؤں کی رہائی کو آسڑیلیاو فرانس کی رضا مندی سے مشروط کردیا، تاہم قطر نے اس معاملے کو بردباری سے حل کرکے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کردی و بالاآخر دوحہ میں تعارفی نشست منعقد ہوئی، تاہم کابل انتظامیہ و افغان طالبان نے درمیان مذاکرات کے نکات پر اختلافات نے ڈیڈ لاک پیدا کردیا، جو ہنوز جاری ہے، کیونکہ افغان طالبان اپنے دس ہزار اسیروں کی رہائی، بلیک لسٹ سے معاہدے کے مطابق رہنماؤں کے نام نکالنے، سفری پابندیوں کے خاتمے کے نکات پر عمل پیرا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔تاہم کابل انتظامیہ نے جہاں افغانستان کے لئے ایک ایسا نظام جسے افغان عوام متفقہ تسلیم کریں، عبوری حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا، ایران نے بھی فرقہ وارنہ بنیادوں پر افغان طالبان کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی اور واضح طور پر کہا گیا کہ ایران، افغانستان میں افغان طالبان کو مکمل اقتدار دینے کے حمایت نہیں کرے گا۔ٹرمپ کی رخصتی کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کئے جانے کے عندیہ پر دنیا بھر میں غلط فہمی پھیل گئی کہ امریکا و افغان طالبان کے درمیان معاہدہ ختم ہونے جا رہا ہے، لیکن افغان طالبان نے واضح پیغام دیا کہ امریکا اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔ افغان طالبان نے افغانستان میں جاری تشدد کے تمام واقعات کی ذمے داری قبول نہیں کی بلکہ کئی ایسے واقعات ہوئے، جس کی افغان طالبان نے مذمت بھی کی۔
بین الافغان مذاکرات میں ایجنڈے کی فہرست پر مکمل اتفاق ممکن نہیں ہوپارہا ، اس مرحلے پر 05 جنوری کو عبوری حکومت کا مطالبہ سامنے آیا کہ افغان اسٹیک ہولڈر اپنے کامل اختیارات کے ساتھ افغان طالبان سے مذاکرات کریں اور کسی فرد واحد کی خواہشات کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے،عبوری حکومت میں صرف افغان نمائندے شریک ہوکر افغانستان میں تشدد کے خاتمے، جنگ بندی،افغانستان کے نظام کا مستقبل اور مستحکم امن کے لئے راستے کا تعین کرسکتے ہیں۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن حافظ منصور نے کہا، ایک عبوری حکومت بات چیت کا ایک ناقابل تردید موضوع ہے، کیونکہ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں اور(افغان) طالبان موجودہ حکومت کے ساتھ کسی ایک پر راضی ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت کے ایک اور مذاکرات کار امین احمدی کا کہنا تھا کہ عالمی برادری نے عبوری حکومت کی حمایت کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم دنیا کے مطالبے پر کوئی بات نہیں کرسکتے۔”دریں اثنا، ایک طاقتور علاقائی رہنما، عطا محمد نور کا کہنا ہے کہ ”ہمیں ” عبوری حکومت کے نظریہ ”کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے بلکہ قومی اتحاد کی خاطر اس میں مزید ترقی کرنا چاہئے۔” دوسری جانب افغان طالبان، اشرف غنی کو صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں کہ ان کی موجودگی امن مذاکرات کو سبوتاژ کررہی ہے۔ بادی ئ النظر دیکھا جائے تو فریقین کے مطالبات میں افغان بُزکشی کا شکار ہو رہے ہیں، بین افغان مذاکرات کے لئے فریقین کو اُن معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرلینا چاہے جس کے بعد مرکزی مطالبات کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ افغان عوام کو اپنے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے، لہذا تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل عبوری انتظامیہ کے قیام کا فیصلہ، گر کرلیا جائے تو امن کی مسدود راہیں جلد استبداد کی غلامی سے آزاد ہونے میں وقت نہیں