راجہ اورنگزیب صاحب کے آنسو….!

نیوزروم/امجد عثمانی

پاکستانی صحافیوں کے امام جناب نثار عثمانی اور جناب منہاج برنا سے فیض یاب،پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر جناب راجہ اورنگزیب کو دیکھ کر رشک آتا کہ اس “گرد آلود زمانے” میں بھی ایسے چمکتے دمکتے چہرے اور اجلے دامن والے اخبار نویس ہیں…..راجہ صاحب خوب صورت ،خوب سیرت،خوش گفتار اور خوش لباس آدمی تھے…
خود دار اور وضع دار اورنگزیب صاحب سے پہلی باقاعدہ ملاقات 2007کے وسط میں جناب نجم سیٹھی اور خالد چودھری کی زیر ادارت نئے اردو اخبار” آج کل “میں ہوئی…وہ چیف رپورٹر اور میں سٹی ایڈیٹر تھا…..اپنی طرز کے اس منفرد اخبار کے سٹی پیج کو جدت پسند ایڈیٹر جناب تنویر عباس نقوی “معشوق صفحہ” کہتے…یہ سب سرخ و سفید راجہ صاحب کی قیادت میں انرجیٹک رپورٹنگ اور فوٹو گرافر ٹیم کا کمال تھا کہ وہ لوگ چن چن کر ایسی خبریں اور تصویریں لاتے کہ صفحے کا حسن نکھر جاتا…..ہر شام دفتر پہنچتے ہی رپورٹنگ سیکشن سے راجہ صاحب کا فون آجاتا کہ آئیں چھوٹی سی میٹنگ کر لیں…..وہ چائے منگواتے اور اپنی دراز سے بہترین کوالٹی کے بسکٹ نکال کر سامنے رکھ دیتے…..چائے کے کپ پر ہم اگلے دن کا نیوز پلان بنا لیتے……ان کی ٹیبل پر خبروں کی ہارڈ کاپیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوتیں جن کا وہ ایک ایک لفظ خود پڑھتے اور جہاں ضرورت ہوتی اضافہ و ترمیم کرالیتے….
آدھی صدی پر محیط صحافتی کیرئیر کے حامل راجہ صاحب نے روزنامہ مساوات،امروز،دی مسلم ،بی بی سی،رائٹرز کے تجربے کی روشنی میں یہاں بہترین نتائج دیے…..وہ اتنے معتبر اور مستند اخبار نویس تھے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کے نامور صحافی مارک ٹیلی نوے کی دہائی میں انہیں ملنے ان کے گھر آئے….بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ آخری دم تک جنگ گروپ کے ہفت روزہ میگزین” اخبار جہاں “میں “لاہور نامہ “کے عنوان پر ابن شفیع کے قلمی نام سے ویکلی سیاسی ڈائری لکھتے رہے….
روزنامہ آج کل میں راجہ صاحب سے “اصلاح یافتہ” کئی دوست آج سنئیر رپورٹرز ہیں جبکہ سٹوڈیو سے فوٹو جرنلزم میں آنے والے نوجوان ملک شفیق نے راجہ صاحب اور سنئیر فوٹو گرافر عابد نواز کے زیر سایہ اے پی این ایس سمیت کئی ایوارڈ جیت کر تو کمال ہی کردیا…….
مذکورہ اخبار میں ہماری یہ” آفیشیل کوآرڈی نیشن “ادب و احترام والے رشتے” میں بدل گئی……..بارہ سالہ رفاقت میں ان کی محبت کا پلڑا بھاری رہا…….انہوں نے اپنی فراخدلی سے اس تعلق کو اٹوٹ انگ بنادیا….میں کئی حوالوں سے ان کا مقروض ہوں …..وہ اتنے شفیق تھے کہ میں ان کا رفیق بن گیا…..لاہور پریس کلب کے لائف ممبرز روم سے کیفے تک،مجھے ان کی ” مجلس “میں بیٹھنے کا بھرپور موقع ملا …. جناب عظیم قریشی،تنویر زیدی، راجہ حسن جلیل،رئوف ظفر،ہارون عباسی، شہباز انور خان،حامد ریاض ڈوگر، سید فرزند علی، عاصم حسین، ماجد حسین، پرویز الطاف، ناصراور ڈاکٹر عارف اس محفل کی رونق ہوتے….چائے کے دور چلتے ….بہت کم ہوتا کہ وہ کسی کو پیسے دینے دیتے…..وہ لاہور پریس کلب کے لائف ممبر تھے اور ادھر ان کا دسترخوان چلتا….وہ کلب ملازمین سے بھی بچوں کی طرح پیار کرتے اور چپکے سے ان کی خدمت بھی کردیتے…..ہماری انہی نشتسوں کے تناظر میں ہمارے “حساس “صحافی دوست میم سین بٹ کہتے کہ بزرگوں کی صحبت نے آپ کے بال بھی سفید کر دیے ہیں…راجہ صاحب کا عظیم قریشی سے یارانہ تھا….ایک دفعہ جب وہ امریکہ چلے گئے تو انہوں نے یہ وقت “ماہی بے آب “کی طرح گزارا…شہباز انور خان کو” مولوی صاحب” کہتے تو وہ مسکرا دیتے…ہارون عباسی اور شہباز انور خان سے ملکر وہ ایک ہفت روزہ بھی پلان کررہے تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی….جب جی چاہتا سید فرزند علی کے” ولیمے” کا اعلان کر دیتے اور وہ درویش سر جھکائے کسی ریستوران کی طرف چل دیتا…..دعوت سے یاد آیا کہ 2015میں اور عبداللہ عمرہ کر کے آئے تو راجہ صاحب نے ہمیں پرتکلف ضیافت دی….جب وہ خود حج سے واپس آئے تو مجھے گھر کی مبارکباد دینے آئے اور پھر مولانا مکی کے فرزند ارجمند جناب مولانا عبد الرئوف مکی اور ڈاکٹر سراج کیساتھ میرے ہاں” دعوت شیراز” میں شرکت کی اور دونوں مہمانوں کا سیر حاصل انٹرویو بھی کیا………2014میں لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی اور 2015میں فنانس سیکرٹری کی نشست کے لیے انہوں نے ایک ایک بندے سے میرے لیے ووٹ مانگا……دوسرے الیکشن میں پولنگ وقفے پر مجھے برادرم ذوالفقار مہتو ملے اور کہا ہارنا جیتنا تو بعد کی بات مگر فتح سے بڑی آنر یہ ہے کہ راجہ اورنگزیب، طاہر پرویز بٹ،اعجاز حفیظ خان اور اسرار بخاری ایسے اکابرین آپ کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں…..2016میں جناب معظم فخر جناح کے ایڈیٹر بنے تو میں ادھر چلا گیا…راجہ صاحب حج سے واپس آئے تو معظم صاحب نے انہیں بھی بلا لیا…..2017میں ہم دونوں جہان پاکستان چلے گئے مگر وہ آخری دم تک اس ادارے سے وابستہ رہے…..جناح کے ایڈیٹر جناب امجد اقبال بھی ان کا بے حد ادب کرتے…..حج سے یاد آیا کہ حرمین شریفین روانگی سے پہلے میں انہیں مرشد مولانا عبدالحفیظ مکی رح کی سبزہ زار والی خانقاہ لے گیا….میں نے کہا حضرت! راجہ صاحب ہمارے صحافتی مرشد ہیں اور حج پر جا رہے ہیں…..انہوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم مکہ میں راجہ صاحب کے لیے چشم براہ ہونگے…..اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ میں اور راجہ صاحب ثریا عظیم ہسپتال میں مکی صاحب کی عیادت کے لیے گئے…وہاں مفتی شاہد صاحب بھی تھے….حج سے واپسی پر راجہ صاحب اکثر مکی صاحب کی مہمان نوازی کا ذکر کرتے پرنم ہوجاتے کہ مجھے انہوں اتنا پروٹوکول دیا کہ خانقاہ میں صرف میرے لئے کرسی لگوائی اور دیر تک باتیں کیں….کیا ہی اللہ والے ہیں….مدینہ منورہ میں لاہور کے صحافیوں کے میزبان جناب ڈاکٹر احمد علی سراج گواہی دیتے ہیں کہ راجہ صاحب اتنے رقیق القلب تھے کہ حرم مسجد نبوی میں بیٹھے بات بات پر ان کی آنکھیں چھلک پڑتیں….نیک لوگ نرم دل ہوتے اور بہت جلد پگھل جاتے ہیں….روشن خیال راجہ صاحب کو علمائے کرام سے “اللہ واسطے کا پیار” تھا….میرے ساتھ مولانا سمیع الحق کی کتاب کے انگریزی ایڈیشن کی تقریب رونمائی میں شریک ہوئے….جناب مخدوم عاصم کی موجودگی میں مولانا نے ہمیں اپنے دستخطوں سے کتاب بھی عنایت فرمائی…..ایک دفعہ میرے ساتھ مولانا طاہر اشرفی کا انٹرویو کرنے ان کے گھر گئے….حافظ صاحب نے ہمیں سری پائے کا” بھاری ناشتہ” کرایا………..صاف دل والے راجہ صاحب کا ظاہر باطن ایک تھا….وہ ریاکار نہیں تھے……ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے….اچانک کہتے کہ میں پانچ منٹ میں آیا…..پہلے پہلے مجھے عجیب لگتا کہ راجہ صاحب یہ کیا کرتے ہیں….بیٹھے بیٹھے کہاں چل دیتے ہیں؟؟؟؟عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ نماز پڑھنے جاتے ہیں تو ان کی اس ادا پر بھی رشک آیا…..
اب ان کی زندگی کے کچھ ذاتی گوشے پھر صحافتی خدمات کی بات کرینگے….پنجابی کے بڑے شاعر ادیب اور صحافی جناب شفقت تنویر مرزا راجہ صاحب کے بہنوئی اور معروف انگریزی جرنلسٹ جناب مسعود اللہ خان ہم زلف ہیں…..ان کے صاحبزادے فاروق،عثمان،فیضان اور عبداللہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں….وہ شفقت صاحب کی اکلوتی صاحبزادی کو اپنی بیٹی سمجھتے…چھوٹے بیٹے عبداللہ نے ایم بی اے کیا تو مجھے خبر اور تصویر چھاپنے کے لیے کہا….میں اور حافظ ظہیر اعوان نے عبداللہ کا ولیمہ بھی اٹینڈ کیا……. مجھے راجہ صاحب کے ساتھ ایک مرتبہ شفقت صاحب کے گھر حاضری کا بھی اتفاق ہوا…انہوں نے اپنی ہمشیرہ اور بھانجی سے میرا عزت کے ساتھ تعارف کرایا….شفقت صاحب کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے تو راجہ صاحب کہنے لگے کسی بزرگ کو دعا کا کہیں….میں نے مکہ میں مدرس حرم کعبہ مولانا مکی حجازی صاحب کوفون کیا…..انہوں دعا کیساتھ ساتھ بتایا کہ سورہ نجم کی ۤ آیت 57 …لیس لہا من دون اللہ کاشفہ ،1001 مرتبہ پڑھنے کے بعد پانی پر دم کرکے 11دن پلائیں… یہ کینسر کے لئے مجرب آیت مبارکہ ہے….راجہ صاحب نے بتایا اس عمل سے شفقت صاحب کی صحت میں بہتری آئی مگر موت کا تو ایک دن مقرر ہے…..
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے صحافی کالونی میں راجہ صاحب کے پلاٹ پر “حکم امتناعی” کے نام پر قبضے کی کوشش کی گئی….میں اور حافظ ظہیر اس کیس میں بھی ان کے گواہ بنے جبکہ اپنی نگرانی میں پلاٹ کی چار دیواری کراکر لینڈ مافیا کو “شٹ اپ کال” دی….بڑے لوگوں کی صحبت انسان کو بڑا بنا دیتی ہے….اورنگزیب صاحب جناب حسین نقی اور جناب آئی اے رحمان کا بہت احترام کرتے…..صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو ان سے رہنمائی لیتے…..جناب نثار عثمانی کے ذکر پر تو اور مودب ہوجاتے….فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بات ہوتی تو وہ بات بات پر عثمانی صاحب کے حوالے دیتے….وہ بڑے فخر سے بتایا کرتے کہ کیسے وزیر اعظم بھٹو نے نثار عثمانی کو خود فون کرکے مذاکرات کے لیے بلایا…. ملک گیر صحافتی یونین کے شاندار ماضی اور شرمناک حال کا تقابل کرتے ان کی آواز رندھ جاتی اور آنکھییں بھیگ جاتیں… میں نے کئی بار ان کے چہرے پر آنسوئوں کی لکیر دیکھی .. وہ پی ایف یوجے اور پی یوجے میں” اپنی اپنی یونین” کے نام سے چار چار’ پانچ پانچ دھڑوں پر بہت کڑھتے رہتے …….کراچی کے نامور صحافی جناب احفاظ الرحمان کی کتاب “آزادی صحافت…سب سے بڑی جنگ” میں راجہ صاحب کے دو باب شامل ہیں….وہ ” 1947کی صحافی تحریک” کے زیر عنوان لکھتے ہیں” بلاشبہ صحافیوں کی صفوں میں ایسےخود غرض اور شرپسندعناصر ہمیشہ رہے ہیں جنہوں نے صحافیوں کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی…اپنے رتبے اور عہدے کے لیے وہ ہر دور میں سرگرم رہے”….وہ مزید لکھتے ہیں”پاکستان میں آزادی اظہار آج بھی ایک چیلنج کی صورت میں اہل صحافت اوردانشوروں کے سامنے موجود ہے….حکمرانوں اور اہل اقتدار کی طرف سے آج بھی سچ لکھنے اور کہنے پر کسی نہ کسی انداز میں پابندی موجود ہے…گویا اظہار رائے کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی،ابھی جاری ہے”……ان دو اقتباسات سے بھی ان کا درد دل سمجھا جا سکتا ہے….

2016میں حج پر جانے سے پہلے انہوں نے لاہور میں ایک زبردست دستخطی مہم چلائی اور یونین کے اتحاد کے لیے جناب رحیم اللہ یوسفزئی اور جناب ضیا الدین کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو تجاویز بھی پیش کیں..وہ پر امید تھے کہ” پشاور اجتماع” پی ایف یو جے دھڑوں کو متحد کرنے کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا مگر واپسی پر یونین میں مزید انتشار کا سن کر رنجیدہ ہوگئے…..وہ آہ بھرتے اور کہتے کہ ہم نے منہاج برنا اور نثار عثمانی کے گلستان کا کیا حال کر دیا ہے…..افسوسناک امر ہے کہ آج بھی ہمارے دوست اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد پر بضد ہیں اور ہر دھڑا اپنے آپ کو یونین کہہ کر لفظ یونین کی توہین کر رہا ہے…..
29جنوری 2019 کی سہ پہر، میں ایک دوست کیساتھ گنگا رام ہسپتال کے قریب سے گذر رہا تھا کہ سنئیر کالم نگار جناب اعجاز حفیظ خان کا فون آیا بری خبر ہے کہ راجہ اورنگزیب انتقال کر گئے….دل غم میں ڈوب گیا کہ ابھی تو ان سے دل کی بہت سی باتیں باقی تھیں…. 75سال کی عمر میں بھی قلم کے یہ باوقار مزدور رزق حلال کے لیے صبح باوضو گھر سے نکلے….دفتر میں نماز کا سوچ رہے تھے کہ طبیعت بگڑی…. ہسپتال پہنچے اور وہاں سے اللہ کے حضور پیش ہوگئے…راجہ صاحب کسی نہ اندازمیں،کسی نہ کسی وقت یاد آجاتے ہیں…..میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین دفعہ سورہ اخلاص پڑھ کر ان کے نام کر دیتا ہوں…….آپ بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیجیے…..!!!!