خواتین کو اسمبلیوں میں عزت تو ملتی ہے، مکمل حقوق نہیں

تانیہ بلوچ

کمالہ ہیرس امریکہ میں نئی تاریخ رقم کرنے والی پہلی خاتون اور غیر سفید فام نائب صدر ہیں۔ 55 سالہ نائب صدر کی ترقیوں کی سیڑھی کی جانب نظر دوڑائیں تو اس پورے سفر میں ان کی انتھک محنت صاف دکھائی دیتی ہے۔

کمالہ ہیرس نے وکیل سے لے کر سابق اٹارنی جنرل اور پھر ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون سینیٹر کے طور پر اپنی محنت سے اپنا نام منوایا۔ اس موقعے پر اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو بعض خواتین کافی نمایاں رہیں لیکن ان میں سے اکثر کا سیاسی کردار محدود رہا۔ سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہمیشہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر براجمان نظر آئیں اور ایک عام تاثر ہے کہ اشرافیہ اور امرا کے گھرانوں کی ان خواتین کو یہ منصب وراثت یا تحفے کے طور پر عطا کیا جاتا ہے۔

محترمہ فاطمہ جناح، بےنظیر بھٹو اور آج کے دور میں مریم نواز نے یقیناً بھرپور سیاسی کردار ادا کیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے پیچھے اگر ان کے خاندان کے مرد نہ ہوتے تو ان کا نمایاں ہونا آسان نہ ہوتا۔

اب آتے ہیں ہم بلوچستان کی جانب جہاں اسمبلیوں میں اشرافیہ، امرا اور قبائلی نظام بہت عام ہے۔ عمومی طور پر مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کا اسمبلیوں میں آمد کے بعد بھی سیاست میں کوئی خاص کردار نہیں ہوتا گو کہ بی این پی (مینگل) اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی حد تک خواتین کو اسمبلیوں میں بولنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ان پارٹیوں کے منعقد کیے گئے جلسے اور پارٹی اجلاسوں میں بھی وہ نظرآتی ہیں۔

البتہ جمعیت علمائے اسلام پورے پاکستان باالخصوص بلوچستان میں اس سلسلے میں قدامت پسندی کا شکار ہے یہاں تک کہ ان کی مجلس عاملہ اور شوریٰ کے اجلاس میں خواتین ایم پی ایز یا ایم این ایز کے بجائے ان کے گھر کے مرد حضرات حاضری دیتے ہیں اور عموماً ان مرد حضرات کا تعلق پارٹی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے

کیا مریم نواز مسلم لیگ ن کے لیے بہتر قائد ثابت ہوں گی؟

مخصوص نشستوں پر موجود بے اختیار خواتین سیاستدان؟

بےنظیر بھٹو کی موت کے 12 سال بعد پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے؟

جب خواتین کو اسمبلی میں بیٹھنے پر شرم آئی
اس سلسلے میں جب جمعیت علمائے اسلام (ف) کا موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کی پارٹی ایک مذہبی پارٹی ہے لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ خواتین کو مجمعوں سے دور رکھا جائے۔

وراثتی اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حاصل کی گئی کرسیوں کی فہرست تیار کی جائے تو یہ ایک طویل فہرست ہو گی جس کے نمبرز سینیٹ کے ایوان میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

بلوچستان کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ حصہ رہا ہے اور یہ ایک عام خیال ہے کہ بلوچستان کا اچھا چہرہ دکھانے کے لیے بہت سی خواتین منظرعام پر لائی گئیں مگر ان کی کارکردگی پورے بلوچستان میں تو کیا خود ان کے اپنے علاقوں میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکی۔

زینت شاہوانی کا تعلق اپوزیشن جماعت بی این پی (مینگل) سے ہے صوبائی اسمبلی کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ وکالت کے شعبے سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ زینت شاہوانی کا کہنا ہے کہ جب ایک گھر کا نظام خاتون کے بغیر نامکمل ہے تو اسمبلیاں کیسے چلیں گی؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے ہزار مخالفت کے باوجود وہ اس اقدام کو سراہتی ہیں کہ انہوں نے اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’حالانکہ ہماری جماعت خواتین کواہمیت دیتی ہے مگر پھر بھی ہمیں اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‘

یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مخصوص نشستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مخصوص طریقے سے ہی کام کرسکتی ہیں لیکن سیاسی جدوجہد کا حصہ بننے کے باوجود خواتین کو قانون سازی میں وہ حصہ نہیں ملتا جس کی وہ حقدار ہیں۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان کی خواتین ووٹروں کی تعداد میں ایک خاص اضافہ بھی دیکھا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین خصوصاً جن کا تعلق دیہات، گاﺅں، قصبوں سے اور بلوچستان میں بالخصوص شورش زدہ علاقوں سے پڑھی لکھی خواتین کی رسائی اسمبلیوں تک ممکن بنائیں تاکہ مستقبل قریب میں کمالہ ہیرس جیسی خواتین سامنے آسکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

راحیلہ درانی جیسی خاتون کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جنہوں نے ابتدا ہی سے بلوچستان میں سماجی مسائل کے حل میں دلچسپی لی اور سپیکر منتخب ہوئیں۔

بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 19-2018 کا بجٹ بھی ایک خاتون مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے پیش کیا لیکن یہ چند مثالیں کافی نہیں کیونکہ بلوچستان اسمبلی میں موجود خواتین کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اسمبلیوں میں عزت ضرور ملتی ہے مگر مکمل حقوق نہیں

https://www.independenturdu.com/node/58291