کبھی کسی چینل اور اخبارات کے اشتہارات روکنے کا حکم نہیں دیا

سینٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات کا اجلاس گزشتہ روزسینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت اطلاعات سے قومی اشتہارات کی پالیسی پر بریفنگ،سرکاری ٹی وی کےسپورٹس چینل کے کام کے طریقہ کار اور مستقبل میں نشریات و پروگرام میں بہتری کی منصوبہ بندی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی اشتہارات کی پالیسی پر وزارتِ اطلاعات کام کر رہی ہے ، تمام ا سٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگز کی جا رہی ہیں۔ڈرافٹ فائنل ہونے پر کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا،کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل اشتہارات پالیسی میں میڈیا ورکرز کے مفادات کو مزید محفوظ بنا رہے ہیں اور علاقائی میڈیا دفاتر کو مزید تحفظ دیا جائے گا۔ڈیجیٹل اشتہارات پالیسی متعارف کروائی جا رہی ہے۔ اشتہارات کی ایجنسیوں کے کردار کو قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے اور پی آئی ڈی کے ذریعے سرکاری اشتہارات کی ادائیگی یقینی بنائی جا رہی ہے، ڈیجیٹل میکنزم پر کام ہو رہا ہے۔ پالیسی میں اشتہارات کا بڑا حصہ

ہے۔ پرنٹ میڈیا کے لیے علیحدہ قواعدو ضوابط ہیں اشتہارات کے لیے 25فیصد علاقائی کوٹہ ہے۔ اے پی این ایس سے رجسٹر ایجنسیوں کو پی آئی ڈی اشتہارات دیتی ہیں۔کلاسیفائیڈ اشتہارات کی 100 فیصد ادائیگی پی آئی ڈی کرتا ہے. ڈسپلے اشتہارات کے بل کی 85 فیصد ادائیگی اخبارات، ٹی وی، ریڈیو کو پی آئی ڈی کرتی ہے جبکہ 15 فیصد ایجنسیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ٹی وی اشتہارات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ریٹس کو 4 کیٹیگری میں تقسیمِ کیا گیا ہے۔کیٹیگر ی ون کے اشتہارات کے ریٹس 1 لاکھ40 ہزار روپے، کیٹیگری 2 میں 1 لاکھ، کیٹیگری 3 میں 75 ہزار اور کیٹیگری 4 میں 50 ہزار روپے مقرر کیے گئے ہیں، انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ریجنل چینلز کو بھی پہلی کیٹیگری میں شامل کرنا چاہیے ان کے دیکھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک موثر میکنزم کی ضرورت ہے جو ان مسائل کا حل نکال سکے، فیصل جاوید کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اشتہارات کے ریٹ سرکاری اور پرائیوٹ چینلز پر یکساں ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری اشتہارات نان پرائم ٹائم میں نہیں چلتے۔ میڈیا پلان بنایا جائے۔ جامع پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ انٹرٹینمنٹ چینل پر سرکاری اشتہارات نہیں چلتے۔ سرکاری ٹی وی، ایف ایم ریڈیو پر سرکاری اشتہارات چلائے جائیں۔حکومت موثر مارکیٹنگ پلان لائے۔ میڈیا کی گروتھ رکی ہوئی ہے اور اس کو بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا وزارت کے پاس ایک ایسا تحقیق کا شعبہ ہونا چاہیے جو لوگوں سے پوچھے کے کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈی جی پی آئی او نے کہا پیمرا کے پاس ریٹنگ کا میکنزم موجود ہے جو مانیٹرنگ کرتا ہے، خوش بخت شجاعت نے کہا کہ انٹرٹینمنٹ کا معیار بہت گر چکا ہے

https://jang.com.pk/news/877898?_ga=2.156126847.53428819.1611806836-1522967042.1611806834