لیاری میں مافیا کا راج

عزیز سنگھور

روزنامہ آزادی، کوئٹہ

لیاری میں ڈرگ مافیا سے زیادہ طاقتور بلڈر مافیا ہے۔ جس کی آمدنی دوگنا اور سرکاری سرپرستی چارگنا ہے۔ جس نے لیاری کوگنجان جنگل میں تبدیل کردیا۔ لیاری کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔مکینوں کی ضروریات بڑھ رہی ہے جبکہ وسائل میں کمی آرہی ہے۔ لیاری میں سیوریج کا نظام درہم برہم، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، امن و امان کی صورتحال سمیت دیگر سماجی برائیاں بڑھ رہی ہیں۔ عمارتوں کی تعمیرات میں ناقص میٹریل کا استعمال عروج پر ہے۔ عمارتیں اپنی میعاد سے پہلے گر رہی ہیں۔ جس سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ ان سب اسباب کے ذمہ دار بلڈر مافیا، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ ہے۔
عمارتوں کی بڑھتی ہوئی تعمیرات دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ جس سے ڈیموگرافک تبدیلی آرہی ہے۔ لیاری میں ڈیموگرافک تبدیلی کی وجہ سے علاقے کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تعلقات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ نئے اور پرانے لوگوں میں سماجی دوریاں شروع ہوگئیں۔ جس سےسماجی رشتے کمزور پڑ رہے ہیں۔ لیاری کاسیاسی ڈھانچہ بھی کمزور پڑ رہا ہے۔ جس سے مثبت سیاست میں منفی رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ معاشرے میں سیاسی اور سماجی کمٹمینٹ آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے۔ ہر شخص اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے میں مصروف نظر آتا ہے۔ جس سے سماج سے انسان کی وفاداریوں کا فقدان پایا جارہا ہے۔ جو کسی بھی معاشرے کے لئے ایک بھیانک عمل ہے۔ پلاٹوں پر زبردستی قبضہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اصل مالک کو زور زبردستی اس کی جائیداد سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ بات نہ ماننے پر دھمکیاں دی جاتی ہے۔ اگر پھر بھی بات نہ بنی کو جان سے مارنے کی بھی رپورٹیں ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کے ذاتی املاک بھی غیر محفوظ ہیں۔
آبادی بڑھنے سے جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹریٹ کرائم رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ امن و امان کی صورتحال ابتر ہورہی ہے۔ لیاری کی پرامن فضا ایک بار پھر پرتشدد ہونے جارہی ہے۔ لوگوں میں ناچاقیاں بڑھ رہی ہیں۔ ذاتی دشمنیوں میں اضافہ ہورہاہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین کے مطابق لیاری میں گراؤنڈ پلس 2 اور کچھ علاقوں میں گراؤنڈ پلس 4 عمارت بنانے کی اجازت ہے۔ لیکن جہاں گراؤنڈ پلس 2 کی عمارت بنانے کی اجازت ہے وہاں گراؤنڈ پلس 4 اور جہاں گراؤنڈ پلس 4 کی جگہ وہاں گراؤنڈ پلس 6 یا 8 کی عمارتیں بن رہی ہیں۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میں عمارتیں تعمیر ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے لیاری کی 22 کروڑ آبادی 35 کروڑ سے تجاوز کرگئی۔ آبادی بڑھنے سے علاقے میں بنیادی سہولیات کی کمی ہورہی ہیں اور موجودہ وسائل کم پڑ رہی ہیں۔ جن میں گیس، پینے کا پانی، بجلی، سیوریج، تعلیم اور صحت شامل ہیں۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے علاقے میں گیس کا پریشر کم ہوگیا ہے۔ لوگوں کو کھانا پکانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موسم سرما میں لوگ کھانے پکانے کے لئے لکڑی کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔
موجودہ سیوریج کی لائنیں بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ناکافی ہے۔ جس سے سیوریج لائنیں پھٹ رہی ہیں۔ سیوریج کا گندہ پانی گلی اور محلوں میں جمع ہوجاتا ہے۔ اس وقت 90 فیصد علاقے میں سیوریج کا نظام درہم برہم ہے۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ گندہ پانی جمع ہونے سے علاقے میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سرکاری اسپتالوں میں ادویات اور اسٹاف کا فقدان ہے۔ لیاری جنرل اسپتال میں روزانہ ہزاروں مریض آتے ہیں۔ جہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لیاری کو موجودہ پانی کا جو کوٹہ ملتا ہے وہ روز بروز بڑھتی آبادی کے لئے ناکافی ہے۔ جس سے علاقے میں پینے کا پانی ناپید ہوچکا ہے۔ لیاری کا بیشتر علاقے پانی سے محروم ہیں۔ لوگ پانی خریدنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
بلڈنگ مافیا حکومتی سرپرستی کی وجہ سے انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ناقص میٹریل کا استعمال کرکے عمارتیں زمین بوس ہورہی ہیں۔ ملبے تلے رہائشی سسک سسک کر موت کو گلے لگاتے ہیں۔ فیملی کی فیملی لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ ماں جوان بیٹے کی لاش اور باپ جوان بیٹی کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کراچی شہر میں سب سے زیادہ عمارتیں لیاری میں ہی گرجاتی ہیں۔ویسے عمارتوں کی میعاد چالیس سے پچاس سال ہوتی ہیں۔ جبکہ اس وقت لیاری میں بننے والی عمارتیں پندرہ سے بیس سال میں اچانک زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ ناقص میٹریل کا استعمال کرکے بلڈرزنہ صرف لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ بلکہ ان کی زندگی بھر کی جمع پونچی کو ہڑپ کررہے ہیں۔عمارت گرنے سے بلڈرز کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ دوبارہ نئی عمارت میں نئے لوگوں کو بسایا جاتا ہے۔ ان مافیا سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ، گورنر سندھ سمیت دیگر متعلقہ وزرا جائے حادثہ کا دورہ کرنے کے لئے ان کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ دورہ صرف فوٹو سیشن کی حد تک ہوتا ہے۔ روایتی جملے بازی ہوتی ہے۔ انکوائری کمیٹی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مگر یہ سب اخباری بیانات کی حد تک ہوتی ہے۔ نہ کسی بلڈر کو سزا ہوتی ہے اور نہ ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کی گرفتاری ہوتی ہے۔ کیونکہ ان اموات کا ذمہ دار بلڈرز اور افسران ہوتے ہیں۔ ان کی ملی بھگت سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کرکے ناقص میٹریل کا استعمال ہوتا ہے۔ گراؤنڈ پلس 2 کی جگہ گراؤنڈ پلس 6 تک عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ ان سب ملی بھگت میں افسران ملوث ہیں۔ ان کا بھتہ وزیراعلیٰ سندھ ہاؤس تک جاتا ہے۔ کیونکہ بعض بلڈرز کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔جبکہ بعض افسران کی تعیناتی اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ ہر مہینہ کروڑوں روپے کماکر ان کو پہنچائیں۔ اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رشوت کے لحاظ سے پاکستان کسٹم اور دیگر وفاقی اداروں سے زیادہ منافع بخش ادارہ ہوچکا ہے۔ چیف کنٹرولر سے لیکر معمولی کلرک تک ارب پتی بن چکے ہیں۔ بعض افسران ملک سے باہر مفرور بھی ہیں۔
آگرہ تاج کالونی، بہار کالونی، سنگولین، کلری، چاکیواڑہ، دریا آباد، نوا آباد، کھڈا میمن، موسیٰ لین، بغدادی، لیمارکیٹ، غریب شاہ سمیت دیگر علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات جاری ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ان علاقوں میں آٹھ سو سے لیکر ایک ہزار عمارتیں غیر قانونی طورپر زیرتعمیر ہیں۔ ان غیر قانونی تعمیرات میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کے علاوہ پولیس ، مقامی سیاسی اور سماجی قیادت بھی ملوث ہیں۔
اس کالے دندھے میں کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی ) کے افسران بھی برابر کے شریک ہیں۔ جس کا جتنا ہاتھ لگا اس نے اس کالے دھندے میں اپنا منہ کالا کیا۔ لیاری کے سینکڑوں کی تعداد میں موجود رفاحی پلاٹس بلڈرز کو الاٹ کروائے گئے۔ جن میں بپلک ٹوائلٹس، کچرا کنڈی سمیت پانی پھرنے کے لئے پبلک نل کے پلاٹس شامل ہیں۔
لیاری میں پبلک نل کے مکمل قبضے کے بعد علاقے میں ایک سماجی اور سیاسی کلچر کا خاتمہ ہوگیا۔کسی زمانے میں جہاں خواتین اجتماعی طورپر جمع ہوتی تھی اپنے روزمرہ کی گفتگو کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری ضیاء آمریت کے حوالے سے بات چیت ہوتی تھی۔ کسی کا میاں جیل میں قید ہوتا تھا تو کسی کا بیٹا جیل میں قید ہوتا تھا۔ تو کسی کا بھائی مفرور ہوتا تھا۔ جہاں خواتین حکومتی نارواسلوک کے خلاف خیالات کا اظہار کرتی تھی۔ ان نلکوں پر بچوں کا اجتماعی نہلانا بھی اس کلچر کا حصہ تھا۔ آج ہمیشہ کے لئے اس کلچر کا خاتمہ ہوچکاہے۔ اس خاتمے کے ذمہ دار بلڈر مافیا اور متعلقہ حکام ہے۔
کراچی کی قدیم آبادی لیاری کی پسماندگی دور کرنے کے لئے بلڈر مافیا کا احتساب ضروری ہے۔ لیاری میں جاری غیرقانونی بلند عمارتوں کی تعمیرات کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ سارا معاملہ انتظامی اور سیاسی ہے۔ سیاستدانوں کو بلڈر مافیا کی سرپرستی سے دور رہنا چاہیے۔ لیاری میں ڈیموگرافک تبدیلی کی وجہ سے پرانی جماعتوں کی جگہ نئی جماعتیں ابھر کر سامنے آگئیں ہیں۔ جن میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ جس کی مثال گذشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدواروں نے بری طرح شکست دےدی۔
لیاری میں نئے آنے والے لوگوں کی سیاسی وابستگیاں پیپلز پارٹی سے نہیں ہیں بلکہ ان کی وابستیگیاں دیگر جماعتوں سے ہیں۔بلڈر مافیا کی سرگرمیوں کی وجہ سے لیاری میں رہائشی املاک یا اراضی مہنگی ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی فیملی ممبرز کی تعداد میں اضافہ ہونے کی وجہ سے وہ لیاری سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ لیاری میں قائم مہنگے اپارٹمنٹس خریدنے کی قوت نہیں رکھتے ۔ اور وہ کراچی کے پسماندہ گوٹھوں میں رہائش اختیارکررہے ہیں۔ جہاں کم پیسوں میں اپنا گھر بنارہے ہیں۔ ان علاقوں میں مواچھ گوٹھ، یوسف گوٹھ، رئیس گوٹھ، ماری پور، بدھنی گوٹھ ملیر، گڈاپ اور ہاکس بے کے گوٹھ شامل ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایک صوبائی ادارہ ہے۔ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ لیاری میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کو لگام دیں اور بلڈرز مافیا کی سرپرستی بندکردیں ورنہ لیاری سے پیپلز پارٹی کا جنازہ ہمیشہ کے لئے نکل جائے گا۔

لیاری میں مافیا کا راج