لیاقت علی۔ بیٹی نادیہ کے نام آخری خط

ملک لیاقت علی۔ بیٹی نادیہ کے نام آخری خط
تحریر: سہیل دانش
ملک صاحب اس دنیا سے چلے گئے مگر کئی روز گزر جانے کے بعد بھی مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب تک انسان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش رہتی ہے وہ مر نہیں سکتا۔ آخری دنوں میں وہ نلکیوں میں لپٹے پڑے تھے۔ وہ کبھی کبھی آنکھ کھولتے، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ انکی آواز بڑی مدہم ہو گئی تھی۔ آخری دنوں میں وینٹیلیٹر ان کی سانس بحال رکھنے میں مددگار تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب موت کا فرشتہ آئے گا تو ملک صاحب اپنی مخصوص شوخی سے اس سے پوچھیں گے یا ر تم نے ابھی تک بتایا نہیں کہ میری اوپر ذیادہ ضرورت ہے یا نیچے۔ ان کی فیلنگ، ان کے چہرے سے جھلکتی تھی۔ ملک صاحب کو اللہ نے مسکراہٹ کی کرامت دے رکھی تھی۔ لوگوں کے کام آنے کی خوبی عنایت کر رکھی تھی۔ مہمان نوازی کی صفت سے نوازا ہو اتھا۔ یہی خوبی تھی کہ جسکے سبب ان کے وسیع حلقہ احباب، دوستوں اور ساتھیوں جس سے بات کرتا ہوں ان کی یاد ہر ایک کے ذہن اور دل میں ٹیس بن کر اٹھ رہی ہے اور چیخ بن کر نکل رہی ہے۔
مہمان نواز اتنے کہ ان کے کمرے میں تواضع کا لنگر چلتا رہتا۔ انتہای شائستہ اور نفیس ہونے کے با وجود وہ بڑے بولڈ اور سچ بات کہنے سے کبھی نہیں کتراتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم کسی کی دھونس، بدمعاشی، ذیادتی اور ناجائز بات کا راستہ نہ روک سکیں تو پھر یہ ہماری شرافت نہیں بلکہ ہماری بیماری، بزدلی، کمزوری اور منافقت ہوتی ہے۔وہ بڑے حلیم، سادہ اور عاجز انسان تھے۔ وہ خوبصورت اور نفیس سوٹ پہنتے، کلر میچنگ کی ٹائی لگاتے لیکن اندر سے قلندرانہ طبیعت کے مالک تھے۔ یہاں میں ان کا آخری خط نقل کر رہا ہوں جو انہوں نے ہسپتال سے اپنی چہیتی بیٹی نادیہ کے نام لکھا تاکہ اندازہ ہو کہ وہ کتنی محبت کرنے والے باپ تھے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہر گز رنے والا دن انہیں موت کے قریب لے جا رہا ہے۔
میری پیاری بیٹی۔۔۔
”تم نے میرے لئے جتنی دعائیں مانگی ہیں، وہ اس ذات باری تعالیٰ نے قبول کر لیں ہیں لیکن لگتا ہے میرا رزق اس دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔ اب میں رب کائنات کے حضور پیش ہونے کے لئے تیار ہوں کیونکہ موت بر حق ہے اور ہم سب کو لوٹ کر اس کے پاس جانا ہے۔ مجھے معلوم ہے تم میرے کمرے میں جاتی ہو،کبھی بالائی منزل پر جا کر ہر کمرے میں جھانکتی ہو، مجھے آواز دیتی ہو، میں تمہاری آواز سن رہا ہوں میری بیٹی۔تمہاری زندگی کا ہر لمحہ اورہر موڑ میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہاہے۔ اپنی گود میں تمہارے ننھے وجود کو تھام کر میں نہال ہو جاتا تھا۔ تھوڑی بڑی ہوئیں تو تم میری انگلی پکڑ کر باہر جانے کی ضد کرتیں تھیں۔ تم ایک تتلی کی طرح گھر میں یہاں سے وہاں تک دوڑتی بھاگتی رہتی تھی۔ پھر تم اسکول اور کالج کے سفید ڈریس میں پری کی مانند لگتی تھیں۔وہ بھی کیا دن تھے جب تم چھوٹی تھیں، تم گاڑی کی پچھلی نشست پر چاکلیٹ سے دست گریبان رہتیں تھیں۔ کبھی تم شرارت سے صنم کے بال کھینچ لیتی تھیں۔ تمہاری ہر ضد پوری کرنا میری خواہش بھی ہوتی اور خوشی بھی۔
بیٹی زندگی میں ہمیشہ صابر رہنا۔ قناعت تمہیں بہت سے مشکلات سے بچائے گی۔ ہم جب تک زندہ ہیں تو یہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے کھلا اور واضح پیغام ہے کہ ہم زندگی کے ہل سے اس کی کیاری میں اپنی پسند کے پھول اگانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔امید انسان کو زندہ رکھتی ہے لیکن اگر وہ مایوسی کے دلدل میں غوطے کھانے لگے تو پھر ٹائی ٹینک جیسے انسان بھی ساحل سے سینکڑوں میل دور خشکی پر ڈوب جاتی ہیں۔ بیٹی میں نے زندگی بھر لوگوں کے ہاتھ تھامنے کی کوشش کی۔ میں نے زندگی میں مشکل دور بھی گزارا اور سہل بھی۔ تلخ یادیں بھی ہیں اور خوشگوار بھی۔ یاد رکھنا اپنے سے کمزوروں کا ضرور خیال رکھنا۔ مجھے معلوم ہے تم چھوٹے بچوں سے بہت محبت کرتی ہو۔ کبھی کسی ضرورتمند بچے کو جوتے پہنا دینا۔ کبھی کپڑے، کبھی کھلونے اور کبھی کتابیں دے دینا۔ یہ تمہاری چھوٹی سے این جی او بن جائے گی۔ اس میں عدیل، فرحان، اور صنم کو بھی شامل کر لینا۔ اپنے وسائل کے مطابق اس کا سائز بڑھاتی جانا۔ تمہاری یہ ادا اللہ کو پسند آئی گی اور اس پر اللہ ہم سب کے گناہ معاف فرما دے گا۔
یقین کرو جب تم کسی پر اعتماد کروگی وہ تمہیں دھوکہ نہیں دے گا۔ خیال رکھنا تمہاری زبان سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور تمہارے ہاتھوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ یاد رکھنا زندگی کروٹ بدلتی رہتی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں عقل اور محبت دونوں سے نواز رکھا ہے۔ محنت کرتی رہنا،بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں سے محبت کرتی رہنا، ناکامی پر کبھی حوصلہ نہ ہارنا۔ نیک نیتی کی طاقت ہمیشہ انسان کو تحریک دلاتی ہے۔ تمہاری آواز میرے کانوں میں نہیں دل میں اترتی تھی۔ بچپن کی محرومیاں، بچپن کی ذیادتیاں، بچپن کی ماریں اور بچپن کی سمجھوتے، ہماری ذات میں خلا ء بن کر رہ جاتے ہیں لیکن میں نے تمہیں ہر محرومی سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ ہمیں یاد ہے جب تم بیمار ہو تی تھیں تو میری آنکھیں پھیل جاتی تھیں اور دکھ چہرے پر ٹھاٹھیں مارنے لگتا تھا۔ مجھے معلوم ہے جب تمہیں میری جدائی کی خبر ملے گی تو تمہاری آنکھیں جھلملائیں گی نہیں بر س پڑیں گی۔
ایک وعدہ تم نے لیا تھا، آخر میں آج ایک وعدہ میں تم سے لینا چاہتا ہوں۔ اپنی ماں کا خیال رکھنا، اپنے بھائیوں اور بہن پر محبت کے پھول نچھاور کرتی رہنا، جس طرح تم مجھ پر کرتی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح میں نے تمہیں کبھی مایوس نہیں کیا تم بھی مجھے مایوس نہیں کرو گی۔
میر ارب تم پر کشادگی کے تمام دروازے کھول دے گا۔
ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ۔ ہمیشہ کے لئیے خدا حافظ
تمہارا ابو جان