ایک سابق بیورکریٹ کی حسرت ِ ناکام

معزز قارئین! آج آپ کو ایک داستان سنا رہا ہوں۔ بغیر کسی لگی لپٹی کے اور بالکل سچی داستان۔ یہ داستان کسی ہماشما کی نہیں‘ پاکپتن کے ایک معتبر خانوادے کے اس فرد کی داستان ہے جس نے ایک نیک نام بیوروکریٹ کی حیثیت سے دفتر خارجہ میں اہم ذمہ داریاں نبھائیں اور مختلف ممالک میں سفیر پاکستان کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ یہ ہیں غلام فرید فرخ جو پرائمری سے لاء کی تعلیم تک میرے سکول اور کالج فیلو رہے۔ چنانچہ ان سے اور انکے خاندان سے میری دیرینہ یاداللہ ہے اور اس ناطے سے میں انکی شرافت‘ متانت‘ دیانتداری اور خاندانی سلجھائو و رکھ رکھائو کی گواہی دے سکتا ہوں۔ فرید فرخ صاحب آج کل اسلام آباد میں اپنے بچوں کے ساتھ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کے کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے کی بنیاد پر انکے بے لوث اور پرخلوص حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انکی داستان اسی حوالے سے شروع ہوتی ہے جس کا اختتام آپ سے یہ فیصلہ کرنے کا متقاضی ہوگا کہ آیا ہمارے معاشرے کو فی الواقع کرپشن کے ناسور سے پاک کرنا ممکن ہے اور اس کیلئے وزیراعظم اور انکی حکومت اپنے کرپشن فری پاکستان کے ایجنڈے کے تحت مؤثر اقدامات اٹھا بھی رہی ہے یا کرپشن سے نجات کا نعرہ محض فیشن کے طور پر اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے لگایا جارہا ہے۔

فرید فرخ صاحب نے اپنے ممدوح عمران خان کے سیاسی ایجنڈے بالخصوص کنسٹرکشن سیکٹر کے فروغ کیلئے انکے اعلان کردہ پراجیکٹس میں عملی حصہ لینے کا بیڑہ اٹھایا اور پاکپتن شہر کے اندر موجود اپنی وراثتی اراضی پر رہائشی فلیٹس تعمیر کرنے کی ٹھانی۔ یہیں سے انکی یا اس وطن عزیز کی بدقسمتی کی داستان شروع ہوتی ہے۔ فرخ صاحب اپنے بیٹے کے ہمراہ اسلام آباد سے پاکپتن آگئے اور اپنے مجوزہ منصوبے کی منظوری کیلئے بلدیہ پاکپتن کے متعلقہ سٹاف سے رابطہ کیا جس کے مشورے سے انہوں نے ایک آرکیٹکچر سے فلیٹس کا ڈیزائن اور نقشہ تیار کراکے بلدیہ کے متعلقہ سیکشن کے حوالے کر دیا۔ یہ آرکیٹکچر گزشتہ گیارہ بارہ سال سے بلدیہ پاکپتن کیلئے کام کررہا تھا اس لئے بلدیہ کی جانب سے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں تھی مگر بلدیہ کے متعلقہ عملہ نے انہیں چکر پر چکر لگوانا شروع کر دیئے اور اشاروں کنایوں میں نذرانے کی فرمائشیں ہونے لگیں۔

فرید فرخ صاحب چونکہ اپنے ممدوح عمران خان کا کرپشن فری سوسائٹی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا دیکھنا چاہتے تھے اور انہوں نے خود بھی پاکدامنی کے ساتھ اپنے سرکاری مناصب سنبھالے اور نبھائے ہوئے تھے اس لئے وہ نقشے کی منظوری کے عوض نذرانہ پیش کرنے سے صاف انکاری ہو گئے۔ اس پر بلدیہ کے متعلقہ سٹاف کی جانب سے یہ اعتراض لگا کہ نقشے کی منظوری سے معذرت کرلی گئی کہ پہلے اس اراضی کی رہائشی اراضی کے طور پر منظوری لی جائے۔ یہ درحقیقت متعلقہ سٹاف کی جانب سے بالواسطہ پیغام تھا کہ نذرانے کے بغیر اپنے پراجیکٹ کی منظوری لے کر دکھائو۔ باوجود اسکے کہ انکی اراضی پہلے ہی پاکپتن کی شہری حدود میں واقع تھی جس کو رہائشی اراضی میں تبدیل کرانے کیلئے کسی این او سی کی ضرورت نہیں تھی‘ فرخ صاحب نے ہمت نہ ہاری اور متعلقہ سٹاف کو رہائشی اراضی کیلئے پراسس شروع کرنے کا کہا۔ اس بار متعلقہ سٹاف نے پھر یہ کہہ کر ’’نذرانے‘‘ کیلئے ڈول ڈالا کہ اس اراضی کی رہائشی اراضی کے طور پر منتقلی کیلئے انہیں خطیر رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانا پڑیگی۔ انہوں نے قومی خزانے کو فائدہ پہنچانے کی نیک نیتی کے تحت اس پر بھی آمادگی ظاہر کردی جس پر بلدیہ پاکپتن کے متعلقہ افسر نے انہیں نذرانے کیلئے آمادہ نہ پا کر انکے پیش کردہ ڈیزائن اور نقشے پر یہ اعتراض لگا دیا کہ یہ کسی ’’کوالیفائیڈ آرکیٹکچر‘‘ سے تیار نہیں کرایا گیا‘ یہ اعتراض اس لئے بھی مضحکہ خیز تھا کہ متعلقہ آرکیٹکچر کی خدمات بلدیہ حکام کی رضامندی کے ساتھ ہی حاصل کی گئی تھیں۔ جب انہوں نے بلدیہ کے اعتراض پر احتجاج کیا تو انہیں ٹکہ سا جواب ملا کہ اب بلدیہ کے قواعد و ضوابط تبدیل ہو گئے ہیں اور اب صرف کوالیفائیڈ آرکیٹکچر کا تیار کردہ نقشہ ہی منظور ہوگا۔

تقریباً ڈیڑھ سال کی اس بے کار ایکسرسائز کے بعد فرخ صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو انہوں نے دادرسی کیلئے وزیراعظم کے آن لائن سٹیزن پورٹل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے انکی داستان ایک دوسرے المیے میں داخل ہو جاتی ہے۔ انہیں تو پورا گمان تھا کہ ایک سچے‘ کھرے اور دیانتدار وزیراعظم کے قائم کردہ اس شکایات سیل کے ذریعے افسر شاہی کیخلاف عام شہریوں کی فوری دادرسی ہوگی مگر سٹیزن پورٹل سے رجوع کرنے کا ان کا فیصلہ ان کیلئے پہلے سے بھی زیادہ مایوس کن ثابت ہوا کہ انکی درخواست اس سسٹم میں گھومتے گھماتے بلدیہ پاکپتن کے اسی افسر کے پاس واپس آگئی جس نے نقشے کی منظوری کی انکی درخواست مسترد کی ہوئی تھی۔ انہیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ کسی شہری کی دادرسی کی درخواست براہ راست وزیراعظم تک پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور یہ متعلقہ صوبے کے چیف سیکرٹری سے محکمہ محکمہ چکر لگاتی مختلف روایتی ریمارکس کے ساتھ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘ کی عملی تصویر بن کر داخل دفتر ہو جاتی ہے۔ سٹیزن پورٹل سے انہیں یہی حتمی جواب ملا کہ انکی درخواست متعلقہ آفس کے ریکارڈ کے مطابق قابل پذیرائی نہیں ہے۔ فرید فرخ صاحب نے سٹیزن پورٹل کے اس جواب پر سخت ریمارکس دیکر اور سارے حقائق دوبارہ بیان کرکے دوبارہ پوٹل میں ڈال دیئے اور دو سال کی اس لاحاصل مشقت کے بعد رہائشی فلیٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ ترک کرکے مایوسی کے عالم میں اپنے بیٹے کے ہمراہ اسلام آباد واپس جا چکے ہیں۔ وہ سسٹم سے تو مکمل مایوس ہیں مگر وزیراعظم عمران خان کی صداقت و دیانت پر انہیں اب بھی مکمل اعتماد ہے۔ میری تو دعا ہے کہ خدا ان کا یہ بھرم کبھی ٹوٹنے نہ دے مگر انکے ساتھ جو کچھ بیتا ہے وہ در حقیقت حکومتی گورننس کی کمزوری کا شاخسانہ ہے۔ اگر کوئی حکمران اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی گورننس مضبوط بنالے تو سرکاری مشینری میں بھلا کسی کی مجال ہو سکتی ہے کہ وہ من مانیاں کرتا پھرے اور وزیراعظم کا کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کا ایجنڈا ہی ناکام بنانے پر تلا نظر آئے۔ ان میں ایسی جرأت تب ہی پیدا ہوتی ہے جب انہیں اوپر والوں کے معاملات بھی اپنے جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ اسی لئے تو رشوت کے پیسے نیچے سے اوپر تک جانے کا تصور پختہ ہوتا ہے۔ مجھے بہرحال اپنے دیرینہ دوست کی سادگی و معصومیت اور وزیراعظم پر انکے اٹوٹ اعتماد پر ناز ہے۔ میں ان کیلئے دعا ہی کر سکتا ہوں اور یہ چند سطور ہی لکھ سکتا ہوں جو شاید انکے ممدوح تک پہنچ پائیں اور انکی دل آزاری کا ازالہ ہو جائے۔ کسی محکمہ کے آن لائن شکایت سیل کے حوالے سے میرا ذاتی تجربہ بھی ایسا ہی نتیجہ اخذ کر چکا ہے۔ دو ہفتے پہلے میں نے سبزہ زار سکیم لاہور میں اپنے گھر کے باہر ابلنے والی واسا کی سیوریج لائن کی درستی کیلئے اس محکمہ کے آن لائن شکایت سیل پر درخواست داخل کی جس کی ایک ہفتے تک کوئی شنوائی ہی نہ ہوئی چنانچہ میں نے دوبارہ درخواست گزار دی جس پر مجھے جواب ملا کہ آپ کی شکایت متعلقہ ایس ڈی او کو بھجوا دی گئی ہے۔ اسکے کوئی ایک گھنٹے بعد مجھے واسا ایس ڈی او آفس سے بذریعہ ایس ایم ایس جواب موصول ہوا کہ آپکی شکایت کا ازالہ کر دیا گیا ہے حالانکہ واسا کے متعلقہ عملے نے سیوریج لائن کی درستی تو کجا‘ جائے وقوعہ پر جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی۔ شہری مسائل سے متعلق ایسے کام پہلے تو منت سماجت یا معمولی سے اثرورسوخ سے ہوجاتے تھے‘ اب اس سے بھی گئے کہ دفاتر میں جائیں تو متعلقہ افسران کا یہی گھڑاگھڑایا جواب آتا ہے کہ آن لائن شکایات سیل میں درخواست ڈال دیں۔ وماعلینا الالبلاغ۔

چلتے چلتے ایک تذکرہ ہمارے سینئر کالم نگار اور ملک کے معروف سکالر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کے مجھے بھجوائے گئے ایک مراسلہ کا جس میں انہوں نے زبدۃ الحکماء حکیم محمد سعید کی ایک ’’آرزو‘‘ کا تذکرہ کیا ہے اور اسے ’’بیٹھک‘‘ میں سجانے کی فرمائش کی ہے۔ حکیم سعید نے اپنی اس آرزو کا اظہار ڈاکٹر ظہور احمد اظہر سے ایک ملاقات کے دوران کیا تھا جو اب تک ڈاکٹر صاحب کے سینے میں محفوظ رہی ہے۔ اب وہ کافی علیل ہیں تو میرے کالم کے ذریعے حکیم سعید صاحب کی آرزو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ آرزو یہ ہے کہ ایک ایسی یادگار لائبریری قائم کی جائے جس میں پاکستان ہی نہیں‘ پورے برصغیر کے اچھے اہل علم و دانش کے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط جمع کرکے محفوظ کئے جائیں۔ اللہ کرے کہ حکیم سعید صاحب کی یہ آرزو ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی زندگی میں پوری ہو جائے ورنہ یہ آرزوئے ناتمام ہی بنی رہے گی۔ میں اسکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی اچھی صحت کیلئے بھی دعاگو ہوں۔

٭…٭…٭

https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/karachi/2021-01-22/page-4/detail-9