اوورسیز پاکستانی اب کیا بوجھ بن گئے ہیں؟؟؟؟

تحریر / عدیل وڑائچ
——————-

نواب دین نے جیسے تیسے رسول ٹیکنالوجی کالج سے سروئیر کا امتحان پاس کیا.
آج اس کا باپ چوہدری کا حقہ گرم کرتے کرتے اسے بتا بیٹھا یہ سننا تھا کہ چوہدری آگ بگولہ ہو گیا. نواب دین کے باپ کو خوب بے عزت کیا. یہ دن تو گذر گیا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ گھاؤ نواب دین کے دل میں گہرا ہوتا گیا.

اور ایک دن وہ حالات کو للکارنے کچھ پیچھے ہٹا کہ کچھ پیچھے ہٹ کے آگے زیادہ بہتر انداز میں بڑھا جا سکتا ہے.
اس نے اپنی جمع پُونجی داؤ پر لگائی اور ایجنٹ سے ویزہ لےکر سعودی عرب آ گیا.
اور یُوں الریاض سے اس کی نئی زندگی شروع ہوئی.
ابتداء میں اسے ایک پٹھان کہ ساتھ بلاکس اٹھا نے کا کام ملا جو الرياض کی تپتی دوپہروں میں اپنے آپ میں کسی امتحان بلکہ سزا سے کم نہ تھا.
مگر نواب دین جب جب ہارنے لگتا وہ اپنے باپ کی وہ بےعزتی یاد کرتا اور اگلے روز اپنے ہاتھ کہ چھالوں اور دل کہ گھاؤ پہ مرہم لگا کے اگلے روز کے جہنم کو جھیلنے کیلئے نکل پڑتا.

بالآخر قسمت نے یاوری کی اور 5 سال بعد اسے اسسٹنٹ سروئیر کی نوکری مل گئی ہے جگہ الریاض سے قریباً 500 کلومیٹر دور مشرق کی جانب تپتے ریت کہ سمندر میں تھی.
جہاں دور دور تک حضرت انسان کا وجود ناپید تھا وہاں تپتے صحرا میں نواب دین کی جوانی ڈھلنے لگی اور 10 سال بعد جب نواب دین کا باپ گزر چکا تھا ماں آخری سانسیں لے رہی تھی عین اس لمحے اس کا پاکستان آنا ہوا.

انہی دنوں میں گھریلُو حالات کے پیشِ نظر نواب دین کی شادی کر دی گئی اور اب نواب دین کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ باپ کا سوگ منائے ماں کی خدمت کرے یا نئی نویلی دلہن کے ساتھ وقت گزارے اس بھاگا بھاگی میں دس سال بعد چھٹی آیا تھا وہ ایک دن ختم ہوگئی اور نواب دین واپس اسی جہنم میں آ گیا.

دن گزرتے گئے اور نواب دین اب دو بچوں کا باپ بن چکا تھا.
اسی رسول کالج کہ پاس اس کا دس مرلے کا گھر تھا.
جہاں ماں تھی نہ باپ مگر اس کی بیوی جو سارا سارا سال نواب دین کی منتظر رہتی تھی اور دو بیٹیاں جو اب گیارہویں کلاس میں پڑھتی تھیں.
نواب دین کی ہر تکلیف ہر دکھ کی دوا بس ان دونوں بیٹیوں کی تعلیم میں تھی. ان کی ہر کامیابی اس کی اندر کہ کمی کو اور اس کے باپ کی اذیت کو کچھ مرہم گیری کرتی.

بڑی بیٹی ایف ایس سی کر چکی تو نواب دین نے اپنی ساری توانائی جھو.نک دی اور اس کی بیٹی کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا کیونکہ وُہ بُنیادی معیار پر پُورا اُترتی تھی اوراس کا جفاکش باپ ایک اوورسیز پاکستانی تھا. اپنی بیرونِ مُلک اقامت کو ثابت کرنے کیلئیےایک فارم بھیجنا پڑا اور نواب دین کی بیٹی کو سرگودھا میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا. اب اس کی بڑی بیٹی اپنی پڑھائی کہ آخری سال میں ہے.
یہ تھی مشرق وسطی میں موجود ہزاروں نواب دینوں کی کہانی جو وہ نہ کرسکے وہ اپنی اولادوں کو کرتے دیکھ کر اپنی ساری عمر کی تھکن اتار پاتے تھے.

معاملہ کچھ یوں تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو بطور کوٹہ یہ 76 سیٹیں میڈیکل کالجز میں دے رکھی تھیں جس سے بہت سے نواب دین اور ان کی اولادیں اپنے خواب بُنتے تھے.

مشرق وسطیٰ میں بسنے والے مزدور جو خود تو روکھی سوکھی کھا لیتے مگر اپنی اولاد کیاچھی تعلیم کہ لیے کوشاں رہتے مشرق وسطیٰ کہ ممالک میں کیونکہ پاکستانی کمیونٹی کے اسکول اور کالجز بہت کم تعداد میں ہیں اور جو ہیں بھی سوائے چند ایک کے اکثریت کا معیار تعلیم اوسط درجے کا ہے ،دوسرا پہلو یہ کہ اوورسیز کی اکثریت خود پردیس کاٹتی ہے اور بچے پاکستان میں رہتے ہیں.
اس کہ برعکس یورپ امریکہ اور براعظم آسٹریلیا کہ ممالک میں بسنے والے اوورسیز پاکستانیوں کا معیار زندگی اور تعلیم دونوں بہتر ہیں.
یوں یہ میڈیکل کالجز کی نشستیں گویا امید کی کرن ہوتی تھیں
مگر 2018 سے جب سے عمران خان صاحب کی حکومت آئی. انہوں نے ایک کیمیائی تبدیلی کی کہ بس وہی طلباء وطالبات میڈیکل کالجز میں اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہوں نے انٹرمیڈیٹ بیرون ملک سے کیا ہو.
یوں یورپ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے تو شاید اس شرط پہ پورا اتریں مگر پورے کا پورا مشرق وسطیٰ اس دوڑ سے باہر ہو گیا ہے.

محترم عمران خان صاحب یہی مزدور کل تک تو آپ کے ماتھے کا جھومر تھے اور ان کا بھیجا ہوا زرمبادلہ کا آپ کی تقریر میں ذکر ہوتا اور آپ نے قطر میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اب ان مزدوروں کا ان کے پیسوں کا ان کے حقوق کا محافظ بنوں گا. آج وہی مزدور جو آپ کا سب سے بڑا ووٹ بنک تھے آپ کی حکومت نے ان سے یہ حق چھین لیا ہے.
اس تحریر کے توسط آپ سے درخواست ہے کہ آپ فی الفور اس خبر پہ ایکشن لیں اور یہ نہ صرف یہ 76 سیٹیں پہلے والی حالت میں بحال کریں بلکہ فیسوں کو بھی اُسی سطح پر لائیں جو نارمل اور سب طلبہ کیلئے یکساں ہوں۔

اس کہ ساتھ ساتھ میں تمام سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ارباب اختیار کے سامنے اس معاملہ میں ہماری آواز بنیں.