پی۔ٹی۔وی کا مایوس ملازم:

(تحریر:شریف ثمر)
سب ہی نئے آنے والے
چیئرمین پی۔ٹی۔وی پہ اندھا دھند آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اب حاضر سروس اور ریٹائرڈملازمین کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔

ہماری عادتوں کا حصہ بن گیا ہے کہ نئے آنے والے چیئرمین ہوں یا ایم۔ڈی ہم اندھا دھند آس امید پہ لگ جاتے ہیں کہ اب نئے آنے والے ہمارے سارے مسائل حل کر دینگے۔
پھر یکے بعد دیگرے جب کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کچھ نہیں ہو پاتا تو پھر ان کے جانے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور ہر طرف مایوسیاں پھیل جاتی ہیں۔ اور اک نئے ایم۔ڈی اور تازے چیئرمین کا انتظار شروع کرنے لگ جاتے ہیں کہ شائد کوئی اور مسیحا بن کر آئے گا اور مسائل حل کرےگا۔

اصل صورت حال کا ادراک کیجئے۔ پی۔ٹی۔وی کے ساتھ کھیل کھلواڑ اس حکومت کے آنے سے پہلے کا شروع ہے۔ اور اب اس میں دوام آگیا ہے۔
باربار اور تبدیلی در تبدیلی اور اسلام آباد میں ہائر مینجمنٹ کو ٹھیک طرح سے ٹکنے نہ دینا، اور نئے لوگوں کا اہم عہدوں پر بٹھا کر اکھاڑ پچھاڑ کرنا اور دیگر مراکز/سینٹرز کو نت نئے اور غیر ضروری افعال میں الجھا کر ادارے اور اس کے ملازمین کی فلاح کو تماشہ بنا کے رکھ دینا اور بے چین کئے رکھنا کہ پتہ نہیں کل ان کے ساتھ کیا ہوجائےاور مروجہ رولز ریگولیشن سے ہٹ کر نئے نئے آرڈر اور سرکلر نکالنا، اور پہلے سے موجود اور مرتب شدہ ڈیٹا/معلومات کو چھوڑ کر سب کچھ نئے سرے سے مرتب کرانا اور بلا ضرورت ڈیڈ لائن دینا اور رولز سے ہٹ کر اپنے ہی ماتحت دفاتر اور ڈیپارٹمنٹس کو حراساں کئے رکھنا اور جب جی چاہے ان کی اٹھا پٹخ اور اورتبادلے کرتے رہنا اور مجاز اتھارٹی کو مس گائیڈ کرتے رہنا ، اور جب key پوسٹوں والے آفیسرز/آفیشل کو کچھ شد بد آگئی تو سمجھو کہ اسکو بیک جنبش قلم تبدیل کر دیا جائے گا۔
یہ تبدیلیاں ہی د ر اصل بنیادی کاموں کے پس پشت ہوجانے کی اصل وجوہات ہیں۔
نئے آنے والے کو باریکیاں سمجھنے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اور جب وہ سمجھ جاتا ہے تو اس پرانے مہر ے کو بھی نئے مہرے سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
اب اکثر نئے آنے والے کو اپنی تفویض کردہ حقیقی پاور /پاور آف ڈیلیگیشن کا پتہ نہیں ہوتا اور اندھا دھند سرکلر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں ۔
پھر بےچینیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
باہر سے لائے گئے لوگ اندر کا درد نہیں جانتے۔ اور اندر کے لوگوں کو ٹھیک طرح سے کام نہیں کرنے دیتے اور اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ہر کام چاہتے ہیں۔
پھر مجبورا” سیٹ کے تحفظ اور نوکری بچانے کےلئے یہ بھی انہیں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔
نیچے جھگڑا برس برس سے چلتا رہتا ہے اور اوپر والوں کی تبدیلی ہمیشہ ملازمین اور ادارے کے استحصال کا باعث بنتی ہے۔
ہر چئیرمین کو مفاد پرست مشیران کی طرف سے بادیءالنظر میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام آپ کر سکتے ہیں۔ اور پھر ایم ڈی صاحب کے مشیران رولز بتا کر فرما رہے ہوتے ہیں کہ فلاں فلاں پاور صرف ایم۔ڈی ہی ایکسرسائز کرسکتا ہے، کوئی دوسرا نہیں۔
یہاں رفٹ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ادارے و ملازمین کے فلاح کے کام پس پشت ڈال دیئے حاتے ہیں۔ یہ بے چارے ہر وقت آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ اگلی B.O.D میٹنگ فلاح کے لئے فل ایجنڈا سے بھرپور ہوگی۔ مگر ہوتا کچھ بھی نہیں۔
اس پاور کے استعمال exetcise کے اصل مسئلے کی وجہ سے کچھ ہو نہیں پاتا۔
اور ایم۔ڈی و چیئرمین کے درمیان سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے۔
چئیرمین جو کچھ کرانا چاہتا ہے ایم۔ڈی کو من عن ہر بات مانی جانے کا یقین لئے اقدامات کا آغاز ہوتا ہے تو دوسری جانب ادارے کے حقیقی CEO یعنی اصل سربراہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی کئے جانے والےکام کےلئے ایم ڈی صاحب سے پہلے سے مشاورت نہیں کی گئی ہو تو یقینا” یہاں رفٹ پیدا ہو گا۔ اور پھر سب کام رک جاتے ہیں۔
اب دوڑ شروع ہوجاتی ہے کہ ان میں ہم آہنگی نہیں لہذا کسی ایک کو ہٹ جانا چاہئیے۔
اور کسی ایک کے ہٹ جانے کا مطلب آپ سب کئی برس کی جاری پریکٹس سے اچھی طرح جان گئے ہیں کہ ہیڈ آفس اسلام آباد کی مینجمنٹ کی پوری چین تبدیل کر دی جاتی ہیں ۔ اور یوں ہونے والے کام پھر سے نقطۂ آغاز پہ چلے جاتے ہیں۔اور ہم سب مایوسی کے ساتھ اک نئی آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

کاش اس پریکٹس سے ادارہ باہر نکل آئے۔
اللہ سے اب رحم کی اپیل کریں ۔ ان پہ بھروسہ کرنا اور کی باتوں میں آنا محض طفل تسلیاں ہی ہے۔
احقر: