پیپلزپارٹی کے گڑھ ملیر کے نئے رکھوالے سے امیدیں

تحریر : راؤ محمد جمیل

شہر قائد کے ضلع ملیر کو نمایاں حثیت حاصل ہے سندھ کی حکمراں جماعت اس ضلع کو اپنا گڈھ سمجھتی ہے اُسے سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ یہاں کے باسی ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ہی اکثریت سے کامیابی دلا کر ایوانوں تک پہنچاتے ہیں ضلع ملیر ایک مضافاتی علاقہ ہے اور اسکی آغوش میں درجنوں گوٹھ ، دیہات اور بستیاں قائم ہیں یہاں کے مکینوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی کھیتی باڑی سے وابستہ ہے جبکہ محنت کش افراد اکثریت میں یہاں آباد ہیں ضلع ملیر کی عوام نے پی پی پی کے منتخب نمائندوں کوووٹ دیتے وقت کبھی نہیں سوچا کہ جس امیدوار کو وہ ووٹ دے رہے ہیں وہ وڈیرہ ہے چوہدری ہے محنت کش ہے یا اُس کا کردار کیا ہے اسکے باوجود ضلع ملیر سے ووٹ سمیٹنے والوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا جن مسائل کا سامنا 25 ، 30 سال پہلے تھا آج بھی عوام اسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں تعلیم اور صحت کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے تو سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں سیوریج کا نظام مفلوج ہے آج کے ترقی یافتہ دور میں ضلع ملیر کے متعدد علاقوں کے مکین بجلی ، پانی اور گیس سے بھی محروم ہیں ضلع ملیر کی مرکزی شاہراہ مہران ہائی وے پر سفر کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے اکثر منتخب MNA اور MPA ایسے ہیں جو آج انہیں منتخب کروانے والے عوام کے مسائل حل کرنے انکے دکھ درد میں شریک ہونا تو درکنار ان علاقوں میں ایک چکر لگانا بھی شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ ملیر کے محبت کرنے والے بے لوث غیرت مند اور سادہ طبعیت عوام کو وہ شائد آج بھی اپنا غلام سمجھتے ہیں تاہم ملیر کے حلقہ 238 : NA کے MNA سید رفیع الله آغا کے کردار کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی جو 5 سے 10 شادیوں میں روزانہ شریک ہوتے ہیں ہر شہری کا فون خود سنتے ہیں اپنے دفتر میں ہر آنے والے سے ناصرف ملاقات کرتے ہیں بلکہ انکی داد رسی بھی کرتے ہیں مہران ہائی وے کی تعمیر انکے دائره اختیار میں نہیں اسکے باوجود وہ اس اہم ایشو کو حل کرانے کیلئے کوشاں رہے جسکی تصدیق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گذشتہ دنوں اپنی پریس کانفرس میں کی اور مہران ہائی وے کی جلد تعمیر کا وعدہ بھی کیا ماضی میں ملیر سے مسلسل کئی بار منتخب ہونے والے MPA خواجہ محمد اعوان کو آج بھی عوام دل کی گہرائیوں سے یاد کرتے ہیں ضلع ملیر میں کئی مافیاز بھی موجود ہیں جن میں ریتی بجری چور اور لینڈ مافیا سرفہرست ہیں ماضی میں ملیر سٹی سے گھگھر پھاٹک تک نیشنل ہائی کے اطراف میں فروٹ کے باغات اور سبزیوں کی کاشت اہم روزگار تھا چند فٹ کھدائی کے بعد پانی دستیاب تھا لیکن ریتی بجری مافیا نے اس ضلع کی کھربوں روپے مالیت کی ہزاروں خاندانوں کی اراضی کو بنجر بنا دیا کیونکہ ریتی بجری چوری کے باعث طویل گہرائی میں بھی پانی دستیاب نہیں دوسری جانب بڑے پیمانے پر بااثر لینڈ مافیا نے سرکاری اور نجی اراضی کو اپنے باپ کا مال سمجھ کر قبضے کیے اور اپنے کارندوں کے ذریعے جعلی گوٹھ اور غیر قانونی رہائشی اسکیموں کے ذریعے ساده لوح شہریوں کو فروخت کیے آج بھی کسی ادارے ، گورنر سندھ اور وزیر اعلی سندھ سمیت ارباب اقتدار کی جرآت نہیں کہ ان مافیاز کو قانون کے کٹہرے میں لاسکے کیونکہ ان مافیاز کی ڈوریاں بہت دور تک جاتی ہیں اور یہاں کی بااثر شخصیات کی بطور MPA یا MNA کامیابی میں ان مافیاز اور انکے کارندوں کا کردار اور مالی سپورٹ بھی انتہائی اہم ہے انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ ان سادہ لوح ، محبت میں اندھے عوام کے بنیادی مسائل حل ہوگئے تو خوشحالی کے بعد شاید ان میں شعور آجائے اور یہ غلام آنکھیں بند کر کے نہ تو انہیں ووٹ دیں اور ناہی انکے ڈیروں ، او طاقوں اور درباروں پر حاضری لگائیں لیکن انہیں اس بات کا بھی خیال کرنا چاہیے کہ انقلاب آنے میں بھی دیر نہیں لگتی عوام کے باشعور ہو نے اور غلامی کی سوچ کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ایسا نہ ہو کہ آج یہ اپنے حلقوں میں جاتے نہیں کل انہیں عوام آنے کی اجازت نا دے … ضلع ملیر میں پولیس کا کردار بھی اہم رہا ہے یہاں کی عوام نے دیانت دار افسران کی کارکردگی کو ہمیشہ ناصرف سراہا ہے بلکہ انکے شانا بشانا کھڑے بھی ہوئے ہیں مجھے یاد ہے کم و بیش 20 سال قبل ثناء الله عباسی نے بطور ssp ملیر ذمہ داریاں سنبھالیں تو ضلع ملیر میں لاقانونیت اور جرائم کا راج تھا تاہم ثناء الله عباسی کے چارج سنبھالتے ہی بغیر کسی حکم یا کاروائی کے 50 فیصد جرائم کے اڈے چند منٹ میں بند ہوگئے اور چند دنوں کے بعد 90 فیصد غیر قانونی دھندوں اور جرائم کا خاتمہ ہوگیا ثناء الله عباسی کے دفتر کے دروازے ہمیشہ فراہمی انصاف کیلئے کھلے رہے میں اُس دوران روز نامہ خبریں میں بطور کرائم رپورٹر ذمہ داریاں ادا کرتا تھا میں نے پورٹ محمد بن قاسم کے اندر اور مرکزی گیٹ پر بھتہ مافیا کے گروہوں کے خلاف خبر شائع کی اُس دوران پورٹ محمد بن قاسم میں ہر شخص آسانی سے داخل ہو سکتا تھا میں پورٹ قاسم کے مرکز میں قائم بھتہ مافیا کے سرغنہ جو اُس وقت کروڑ پتی کئی بحری جہازوں کا مالک اور انتہائی بااثر تھا اُس کا موقف حاصل کرنا چاہتا تھا میں نے جیسے ہی سوال کیا میرا فوٹو گرافر بھی تیار تھا اُس نے ہاتھ کے اشارے سے روکا اپنے سائیڈ روم میں گیا بال سنوار کر باہر آیا اور بولا اب میری تصویر بناؤ اور شائع کرو . . خبر شائع ہونے کے چند گھنٹے بعد وه بااثر شخص بن قاسم تھانے کے لاک آپ میں تھا جہاں تک مجھے یاد یہ مافیا اُسے دور میں ٹرانسپوٹروں اور دیگر کاروباری افراد سے کم و بیش 2 کروڑ ماہانہ بھتہ وصول کرتے تھے ثناء اللہ عباسی کو اطلاع ملنے کی دیر تھی فوری کاروائی کرتے وہ موٹر سائیکل پر جرائم کی اطلاع پر اکیلے تصدیق کیلئے چلے جاتے ان کی تعیناتی کے دوران پولیس افسران اور اہکار کسی بھی شہری سے ناانصافی اور ظلم وزیادتی کرنے سے پہلے سو بار سوچتے تھے بعد ازاں غلام بنی میمن ssp ملیر تعینات ہوئے تو انھوں نے بھی ثناء الله عباسی کی روایت کو برقرار رکھا اسکے بعد متعدد پولیس افسران ضلع ملیر میں تعینات ہوتے رہے لیکن ثناء اللہ عباسی اور غلام نبی میمن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوئی ضلع ملیر میں جہاں ایسے دیانت دار افسران عوام کے دلوں میں گھر کرگئے وہاں بعض پولیس افسران ایسے بھی ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرکے اپنا بینک بیلنس تو بڑھا گئے لیکن عوام کے دلوں میں نفرت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چھوڑ گئے ان افسران میں سابق Sp ملیر طاہر نورانی کا نام انتہائی نمایاں ہے جنہوں نے قائد آباد میں اپنا دفتر قائم کیا تو عوا م نے خوشی کا اظہار کیا کہ اب انکو گھر کی دہلیز پر انصاف ملے گا لیکن موصوف چندایام میں اپنی کارکردگی کے باعث عوام کے دل سے اتر گئے sp آفس لینڈ مافیا اور اہم جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن گیا Sp طاہر نورانی نے اپنے برابر ایک بڑی کرسی اپنے بیٹر جسے وہ اپنا بھائی متعارف کراتے تھے کیلئے لگوا دی تمام لین دین اور وصولیوں کی ذمہ داری انکے سپرد کردی عام عوام اور دیانت دار پولیس افسران اور اہکار sp آفس سے خوف کھانے لگے فحش کلامی اور کمزور پر تشدد sp صاحب کا پسندیده مشغلہ تھا اور اس سے غریب عوام تو کیا پولیس اہکار بھی محفوظ نہیں تھے کئی جعلی صحافی بھی انکی ٹیم میں شامل تھے جو معقول معاوضے کے عوض مخبری کے ساتھ بھتہ وصولی کی خدمات بھی سرانجام دیتے تھے انھوں نے اپنے مخبر جعلی صحافیوں کے ہمراہ سکھن کے علاقے میں سرکاری اراضی پر قائم ایک غیر قانونی صابن فیکٹری پر کاروائی کی بعدازاں معاملات طے ہونے پر اسی جرا ئم پیشہ فیکٹری کے مالک کے گھر برکات مدینہ سوسائٹی چلے گئے جہاں پُر تکلف کھانوں کے ساتھ مبینہ طور پر 5 لاکھ وصولی اور ہفتہ وار بھی طے ہوئے طاہر نورانی غیر قانونی رہائشی اسکیموں پر بھی خود چھاپے ما رتے گرفتاریاں کرتے ملزمان کو تھانوں میں بند کراتے اپنے دفتر میں معاملات طے ہونے کے بعد sho کو حکم دیکر چھوڑا دیتے وہ قانون کی پاسداری کے کیلئے قائد آباد چوک پر اپنی عدالت لگاتے غریب ٹھیلے اور پتھارے والوں کو از خود تشدد کا نشانہ بنانے انتہائی فحش کلامی کے بعد ان کا سامان توڑپھوڑ کر انھیں بے روزگاری کی دلدل میں روتا ہوا چھوڑ کر فاتحانہ انداز میں چورا ہے پر کرسی ڈال کر معزز جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ محفل سجاتے … اب ایک طویل عرصے بعد ضلع ملیر کو بطور sp ایک خوبرو نوجوان ، دیانت دار اصول پرست پولیس افسر سنگھار علی ملک ملا ہے مذکوره Sp سے ہماری کبھی ملاقات تو نہیں رہی تاہم سندھ اور پنجاب میں انکی تعیناتی کے دوران انکی کارکردگی اور خصوصاً پنجاب کے شہر ملتان میں اہم اور انتہائی بااثر جرائم پیشہ گروہوں اور مافیاز کے خاتمے میں انکا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب ملیر کے عوام کو ثناء الله عباسی کی کمی محسوس نہیں ہوگی اطلاعات کے مطابق اپنی تعیناتی کے بعد اپنے دفتر میں سنگھار علی ملک نے تمام ڈی ایس پیز ، ایس ایچ اوز دیگر پولیس افسران اور اہلکاروں سے پہلی میٹنگ کی اس موقع پر تمام افسران اور اہلکاروں کو جرائم کے مکمل خاتمے اور شہریوں کو فوری اور میرٹ پر فراہمی انصاف کا ٹارگٹ دیا گیا Sp سنگھار علی ملک کا کہنا تھا کہ جرائم کے خاتمے کیلئے وہ اپنے افسران اور جوانوں کے ساتھ کھڑے ہونگے اور انکی کارکردگی کو سراہاتے ہوئے خراج تحسین پیش کرینگے جبکہ جرائم کی سرپرستی اور عام عوام کو فراہمی انصاف میں ناکامی پر سخت محکمہ جاتی کاروائی عمل میں لائی جائے گی sp ملیر کا کہنا تھا کہ انکی ذاتی ٹیم علاقے میں تمام پولیس افسران پر نظر رکھے گی اور وہ انکی کارکردگی اور کردار کو مانیٹر کریں گئے ضلع ملیر کے عوام طویل عرصے سے sp سنگھار علی ملک جیسے افسر کے منتظر تھے ماضی میں ہلکی پھلکی جسامت کا معصوم صورت رکھنے والا ثناء الله عباسی ایسے کام کر گیا کہ بھاری بھرکم جسامت اور کرخت چہرے والا sp طاہر نورانی سوچ بھی نہیں سکتا اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک اسمارٹ خوبرو اور نرم مزاج نوجوان Sp ملیر سنگھار علی ملک اندھی طاقت اور دولت کے نشے میں مست مافیاز ، جرائم کے خاتمے اور عام عوام کو فراہمی انصاف میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ایک جانب مافیاز کی طاقت انکے خلاف ہوگی تو دوسری جانب غریب عوام کی دعائیں انکے ساتھ …