سب ناراض ہیں

جب 1993ء میں جرنلزم کو ملتان میں انٹرنی کے طور پر جوائن کیا تھا تو مجھے اندازہ نہ تھا کہ اس پروفیشن میں دشمن بنتے ہیں‘ دوست نہیں ۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جرنلزم کس بلا کا نام ہے۔ فرنٹیئر پوسٹ ملتان کے بیوروچیف مظہر عارف کے پاس کچھ ہفتے کام کیا تو لگا کہ اس کام کے علاوہ اور کچھ نہیں کرپائوں گا ۔ مظہر عارف کمال صحافی تھے اور وہی اس فیلڈ میں میری پہلی انسپائریشن بنے۔یہ سب باتیں مجھے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس سن کر یاد آئیں جب وہ میڈیا سے ناراض ہورہے تھے کہ وہ سچ نہیں دکھا رہا اور ان کے لاہور جلسے کو جان بوجھ کر ناکام کہہ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کا ایک فطری الائنس بنتا ہے اور میڈیا کو ہمیشہ اپوزیشن کو سپیس دینا پڑتی ہے‘ لیکن کیا کریں جب میڈیا حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ڈسا جاچکا ہو اور سب نے اپنے اپنے دور میں میڈیا کو تگڑا قسم کا رگڑا لگا یا ہو تو پھر میڈیا کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک ہوجاتے ہیں ۔ پھر سپیس دیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ کل انہی کے خلاف تو سکینڈل فائل کررہے تھے ‘ آج انہیں کیسے فرشتہ ثابت کریں ۔ اگر کسی سیاسی پارٹی نے اپنے دور میں لوٹ مار میں کچھ رعایت کی ہوتی تو شاید میڈیا کے دل میں بھی احساس پیدا ہوتا کہ یہ حکمران بہتر تھے ‘ ان کے دور میں میڈیا پر وہ پابندیاں نہیں لگیں جو موجودہ حکمران لگا رہے ہیں‘مگر وہ سیاسی پارٹیاں اور لیڈر جو آج اپوزیشن میں ہیں‘ پانچ پانچ سال تک حکومت کرچکے ہیں اور ان کے رنگ بھی ہم سب دیکھ چکے۔
اسلام آباد میں اکثر صحافی متفق ہیں کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی میں تنقید سننے کی بہت برداشت تھی ۔ پیپلز پارٹی دور میں میڈیا کے خلاف کسی کارروائی کا عندیہ ملتا تو اس میں زراری صاحب کے حلقۂ احباب کا زیادہ ہاتھ ہوتا جن کی لوٹ مار کی کہانیاں سامنے آتیں تو وہ میڈیا کو ٹائٹ کرنے کے مشورے دیتے تھے۔گیلانی صاحب کے خلاف میڈیا پر بہت کچھ چھپا اور لکھا گیا لیکن انہوں نے بُرا نہیں منایا اور نہ ہی انتقامی کارروائی کی۔ میں خود گیلانی صاحب کے خلاف بہت کچھ لکھتا اور بولتا رہا لیکن انہوں نے کبھی تعلقات خراب نہ کئے۔ کبھی ملاقات ہوئی تو صرف اتنا کہا کہ میرے بچے کہتے ہیں کہ اچھا آپ کا دوست ہے آپ کے خلاف ہی خبریں فائل کرتا رہتا ہے اور میں نے انہیں جواب دیا کہ وہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف نہیں وزیراعظم پاکستان کے خلاف خبریں دیتاہے۔ ایسا فرق شاید ہی کوئی وزیراعظم کرسکتا‘ یہ صرف یوسف رضا گیلانی کو ہی سمجھ آیا تھا‘ لہٰذا اسلام آباد کا کوئی صحافی یہ نہیں کہے گا کہ کبھی ان کے ٹی وی چینل یا اخبار کو وزیراعظم آفس سے فون کیا گیا ہو کہ فلاں صحافی کو نوکری سے نکال دو‘ اس کی بیٹ بدل دویا فلاں شو بند کر دو۔
خوشامدی ہی ہمیشہ حکمرانوں کے دماغ خراب کر تے ہیں کہ وہ حکومت کی کارکردگی کے خلاف لکھنے والے کو ذاتی دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسے دشمن کی طرح ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ قومی اسمبلی کی راہداری میں اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی مجھے دیکھ کر رکے اور میرا بازو پکڑ کرسرائیکی میں کہنے لگے ‘کلاسرا صاحب ایک بات آپ کو واضح کرنی تھی۔ میں نے کہا: جی بتائیں میر صاحب ۔ کہنے لگے: میں نے امریکہ کے دورے پر لے جانے کیلئے صحافیوں کی ایک لسٹ بنائی تھی جس میں آپ کا نام بھی تھا لیکن بڑے صاحب کے دفتر سے منع کر دیا گیا کہ یہ حکومت مخالف ہیں ۔ جمالی صاحب بولے: میں نے جواب دیا‘ پھر کیا ہوا ‘ یہ ان کا کام ہے۔ میں نے کہا: میر صاحب آپ کا شکریہ ورنہ بیرونی دوروں کا شوق نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ صدر زرداری نے امریکہ جانا تھا تو ان کے آفس سے فون آیا کہ اپنا پاسپورٹ بھیج دیں آپ کا نام فہرست میں ہے‘میں ہنس پڑا اور بولا: ہمارا زرداری صاحب کے جہاز میں کیا کام ۔
مریم نواز صاحبہ نے وزیراعظم ہاؤس سنبھالا تو انہوں نے بھی اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ صحافیوں کی لسٹ بنائی۔ ایک دن انہوں نے اپنے دربار میں موجود اپنے مشیروں سے پوچھا کہ میڈیا کو کیسے ہینڈل کیا جائے؟ ہمارے ایک بیربل دوست جو میڈیا کی نوکری چھوڑ کر سرکار کے ملازم ہوچکے تھے ‘بولے :آپ کیا ایک ایک صحافی اور اینکر کو ہینڈل کرتی ہیں ‘ سیدھا مالکان سے رابطے میں رہا کریں ‘ ان کو ہینٖڈل کرنا بہت آسان ہے۔ آپ دس صحافیوں کو ہینڈل کریں گی تو دو تین پھر بھی ہینڈل نہیں ہوں گے۔ مریم نواز نے اس کے بعد مالکان سے براہ راست بات کی اور وہ تمام مقاصد حاصل کئے جو وہ چاہتی تھیں ۔ جو ارشد شریف کی طرح ہینڈل نہیں ہورہے تھے ان کے خلاف باقاعدہ ایف آئی اے میں مقدمہ قائم کر دیا گیا اور ان کے دفتر اور گھر پر چھاپوں کا پروگرام بنایا گیا ۔ جس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ارشد شریف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی منظوری دی تھی آج کل وہی صاحب ارشد شریف کے شو میں میڈیا کی آزادی پر لیکچر دے رہے ہوتے ہیں اور ارشد معصوم چہرہ بنا کر پوری سنجیدگی سے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہوتا ہے ۔ مریم نواز تو باقاعدہ یہاں تک طے کرتی تھیں کہ کس چینل یا اینکر کے شو کو کتنے اشتہار ملیں گے ‘ کس کس کو ریٹنگ ملے گی اور کس کو نہیں تاکہ مالکان اسے نکال سکیں۔ اُس وقت عمران خان صاحب گلہ کرتے تھے کہ میڈیا حکومت کی ایما پر ان کو ترجیح نہیں دے رہا اور نواز شریف میڈیا پر اربوں روپے خرچ کررہا ہے۔ انہیں بھی میڈیا کا ایک حصہ ایماندار اور ایک حصہ بے ایمان لگتا تھا۔ جو عمران خان کے ساتھ تھے وہ اچھے اور جو خلاف تھے وہ بُرے۔ اب عمران خان وزیراعظم ہیں تو ان کی پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دو قسم کے صحافیوں کی فہرستیں جاری کی گئی ہیں ‘ ایک فہرست ان صحافیوں کی ہے جو پی ٹی آئی کے نزدیک اچھے اور ایماندار ہیں اور دوسری ان کی جو ” اچھے اور ایماندار‘‘ نہیں ہیں ۔ آج وہی باتیں مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کرتے پائے گئے کہ کچھ اچھے ہیں اور کچھ خراب ۔ مطلب وہی جو ہمارے ساتھ ہیں وہ اچھے ہیں‘ جو عمران خان کے ساتھ ہیں وہ بُرے ہیں۔ گیارہ پارٹیوں کا اتحاد ایک قسم کے صحافیوں کو بکائو سمجھتا ہے جبکہ حکومت دوسری قسم کے صحافیوں کو۔ ان سیاسی جماعتوں نے سمجھ رکھا ہے کہ صحافی بھی ان کے سیاسی ورکر ٹائپ ہیں جو ان کے وفادار ہونے چاہئیں‘ جو ان کی ایک جنبش ابرو پر دن کو رات اور رات کو دن ثابت کردیں ۔
ان برسوں میں یہی دیکھا ہے کہ ہر حکمران میڈیا سے ناراض ہوا ہے اور اس نے سبق سکھانے کی کوشش کی ہے‘ تاہم یہ پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ میڈیا سے حکمران جماعت بھی ناراض اور اپوزیشن بھی ۔ سب سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں کھڑی کیں‘ اپنے اپنے یوٹیوبرز پیدا کئے‘ میڈیا کے خلاف دونوں نے مہمیں چلا کر دیکھ لیں‘ لیکن پھر بھی مرضی کے نتائج نہیں مل سکے ۔ عمران خان جب بھی صحافیوں سے ملتے ہیں‘ شکایات کا ایک ڈھیر لگا دیتے ہیں ۔
میرا خیال ہے اب مریم نواز اور عمران خان کو اپنا اپنا ٹی وی چینل کھول لینا چاہیے جہاں ان کی مرضی سے رپورٹنگ ہوسکے‘ ان کی مرضی کے پروگرام اور اینکرز ہوں ‘ جہاں ان کی مرضی کا خبرنامہ چلایا جائے اور جلسے کے شرکا کی مرضی کی تعداد بتائی جائے۔ اب جہاں حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈروں نے اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں‘ یوٹیوبرز‘ اینکرز اور اپنے اپنے صحافی رکھ کر بھی دیکھ لیے لیکن نتیجہ پھر بھی مرضی کا نہیں نکل پا رہا تو آخری حربے کے طور پر اپنا اپنا ٹی وی چینل کھولنے میں کیا ہرج ہے؟

Courtesy Duniya roznama