آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ 13ویں عالمی اردو کانفرنس میں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، اور زبان و ادب کے دوستوں کا چار روزہ ادبی میلہ اتوار کو ختم ہو گیا۔

رپورٹ- Naghma -Iqtedar۔
—————————–
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ 13ویں عالمی اردو کانفرنس میں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، اور زبان و ادب کے دوستوں کا چار روزہ ادبی میلہ اتوار کو ختم ہو گیا۔

■ تیرھویں کانفرنس گزشتہ بارہ کانفرنسوں سے مختلف تھی ۔ کیورڈ 19 کی وجہ عالمی سطح کتاب مندوبین تو فزیکلی نہ پہنچ سکے لیکن ٹیکنالوجی نے ان کی کمی بالکل محسوس نہیں ہونے دی ۔ بڑی اسکرین پر کانفرنس کے ہر سیشن میں نہ صرف موجود رہے اور کاروائی دیکھتے رہے بلکہ بعض سیشن کی صدارت بھی ڈیجیٹل ہی کی گئی عالمی مشاعرے میں ڈیجیٹل سسٹم پر بھارت اور دیگر ممالک کے شعراء کرام نے پہلے سے زیادہ حصہ لیا جب کہ افتخار عارف، امجد اسلام امجد سمیت پاکستان کے شعراء کرام نے بھی ڈیجیٹل کی شرکت کی ۔
■ چوتھے روز بھی مختلف موضوعات پر دس سیشن منعقد ہوئے، اردو تنقید و تحقیق کے سو برس صبح گیارہ بجے بھارت سے ڈیجیٹل پر کانفرنس سے منسلک شافع قدوائی نے کی ۔بارہ بجے، اردو میں ایک صدی کا نثری ادب، ڈیڑھ بجے، یارک شائر ادبی فورم، دو بجے، بچوں کا ادب، تین بجے کتابوں کی رونمائی، چار بجے، سندھی زبان و ادب کے سو برس، پانچ بچے ہمایوں سعید سے ملاقات، چھ بچے سہیل احمد(مزاحیہ اداکار حبیبہ) سے ملاقات، سات بجے انور مقصود، اور ساڑھے سات بجے اختتامی اجلاس کی مجلس صدارت میں انور مقصود، کشور ناہید، انور شعور، امداد حسینی، شکیل عادل زادہ، خلیل طوقار، فاطمہ حسن، اباسین یوسف زئی، سہیل احمد ، افضل مراد نے چار روزہ کانفرنس کے بارے میں تاثرات بتائے ۔


■ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے ،11، مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کئیں جن کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ۔ (1) کورونا کی اس عالمی وبا کی دوسری لہر کے ان دنوں میں ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوام خصوصاً نچلے طبقے کی روز مرہ ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن حفاظتی حکمتِ عملی اختیار کرے اور سعودی عرب اور فرانس کی طرح پاکستانی عوام کو ویکسین کی مفت فراہمی کا انتظام کیا جائے۔(2) ہم اہلِ کشمیر کے انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔اہلِ علم و ادب اور اہلِ دانش و فکر کا یہ اجتماع رنگ ، نسل، ملک ، قوم اور مذہب سے بالاتر ہوکر تمام انسانوں کے بنیادی حقو ق پر مکمل یقین کا اظہار کرتا ہے اور کشمیری عوام کے حق میں متفقہ طور پر آواز بلند کرتا ہے۔(3) اس دور کے انسانی روابط اور سماجی رویوں کی بہتری کے لیے ہم ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور فنکاروں کے باہمی میل جول پر اصرار کرتے ہیں اور اس کے لیے مختلف ملکوں کے اہلِ قلم کی انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کے لیے ان ملکوں کے درمیان آمدورفت اور ویزا کے حصول کو آسان بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہم پاکستان اور ہندوستان دونوں کی حکومتوں سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسائل کے حل کے لیے امن و مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔(4) نوجوانوںکو اپنی تہذ یبی اور ثقا فتی اقدار اور مظاہر سے روشناس کرا نے کے لیے حکو متی سطح پر خصوصی اقدا مات کئے جائیں تا کہ نئی نسل کے دلوں میں ثقا فتی ورثے کا افتخار اور یقین جگہ پا سکے۔ (5) ہم پورے ملک میں ایک ہی ایجوکیشنل سسٹم رائج کرنے کامطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آسکیں۔(6) اس سال ایک بار پھر ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر دارلترجمہ قائم کیے جائیں جو دیگر قومی اور غیر ملکی زبانوں سے ادب، فلسفہ، فنون، اقتصادیات اور سائنس سمیت دوسرے شعبوں کی کتابوں کے اردو میں تراجم کا اہتمام کرے۔(7) کتاب کلچر کے فروغ کے لیے کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریز کے ساتھ ساتھ پبلک لائبریریز کو نئی کتابوں کی فراہمی کا مستقبل بنیادوں پر بندوبست کیا جائے۔(8) غیر ملکی زبانوں میں اُردو ادب کے تراجم کے سلسلے میں تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ ہمارے ادب اور ادیبوں کو عالمی سطح پر شناخت کے مو¿ثر مواقع فراہم ہوں سکیں۔(9) ملک میں ہم آہنگی کے فروغ کے لئے اُردو اور دوسری قو می زبانوں کے ادیبوں، شاعروں کا میل جول بڑھایا جائے، صوبوں کے مابین ادیبوں اور فن کاروں کے وفود کے دورے کرائے جا ئیں اور ان سب زبانوں میں ادب، فلسفہ، فنون ، اقتصادیات اور سائنس سمیت دوسرے شعبوں کی کتا بوں کے تراجم کا اہتمام کرا یا جائے۔علاوہ ازیں پرائمری تک مادری زبان میں تعلیم کے لئے اقدامات کئے جائیں۔(10) اُردو کوسرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اور حکومتی سطح پر بھی اس کا اعلان کیاگیا لیکن اس پر عمل درآمد اب تک نہیں ہوسکا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیںکہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ضروری اور سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ (11) ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ذرا ئع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا زبان کی درستی اور تہذیبی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔ خصوصاً جنوبی ایشیا کا الیکٹرانک میڈیا خطے میں امن اور عوام کی خوشحالی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔
■ پہلا سیشن ”اُردو تنقید اور تحقیق کے سو برس“ کے موضوع سے منعقد ہوا جس کی صدارت معروف ماہر تعلیم ، ادیب و نقاد شافع قدوائی نے ہندوستان سے آن لائن کی، صدر آرٹس کونسل محمد شاہ نے خصوصی طور پر شافع قدوائی کا شکریہ ادا کیااور بتایا کہ ان کی کراچی آمد کے تمام انتظامات مکمل تھے مگر کورونا کی صورت حال کے پیش نظر انہیں ہندوستان سے آن لائن بات کرنا پڑی، احمد شاہ نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ کورونا کی وباءجلد ختم ہوگی اور آئندہ سال ہم سب ایک جگہ بیٹھ کر فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف پر گفتگو کرسکیں گے۔ حمیدہ شاہین نے ”تنقید و تفہیم اور تہذیبی معیارات“ کے موضوع پر لاہور سے آن لائن جبکہ قاضی عابد نے ”جدید تنقیدی نظریات اور اُردو فکشن“ کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا، نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام دیے۔ صدر محفل شافع قدوائی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ علم کسی کی میراث نہیں ہے نہ ہی مغرب کی اور نہ ہی مشرق کی لہٰذا جہاں سے بھی علم میسر آئے اُسے حاصل کرلینا چاہیے، چھوٹے چھوٹے ثقافتی رویے اور اقدار پورے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں، ادب سچائی کو سامنے لاتا ہے اور اس میں آپ کے باطن کی سچائی بھی نکل کر سامنے آجاتی ہے، تہذیب کا معاملہ ہماری بقاءکی بات ہے، مغربی تہذیب کو شیطانِ مجسم سمجھا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے ، فکشن کو معاشرے کی آواز سمجھا جاتا ہے اور زبان کے ذریعے حقائق کو بیان کیا جارہا ہے، بڑا افسانہ نگار تنقید کو چیلنج کرتا ہے، پاکستان میں بہت اچھا لکھنے والے موجود ہیں اور یہ سفر ابھی جاری ہے، حمیدہ شاہین نے ”تنقید و تفہیم اور تہذیبی معیارات“ کے موضوع پرآن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نئی تہذیب سے مراد مغربی تہذیب لی جاتی ہے مگر روح اجنبی لمس کو فوراً قبول نہیں کرتی اس لیے تہذیبی اقدار کا سہارا لیا جاتا ہے، ہمارے ادیب ہمارے کردار کا محاسبہ کریںکہ ہمارا کردار قومی معیار کے مطابق ہے یا نہیں،سلیم احمد نے ادب میں دائمی اقدار کی بات کی ہے جبکہ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی شناخت کے لیے زندگی کی ہر سطح پر تہذیب کی ضرورت ہے، کسی بھی زبان کا ادب اپنے تہذیبی تناظر میں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے، ادب تہذیبوں کے لیے تغیر کنندہ کا کردار بھی ادا کرتا ہے، اگر ایک معاشرہ اقبال کو تشکیل کرتا ہے تو اقبال بھی ایک معاشرہ تشکیل کرتا ہے، اس وقت فکری ٹریفک جام نظر آتا ہے جس میں دوستوں کو منزل تک پہنچنے میں مشکل پیش آرہی ہے، موٹی موٹی اور وزنی وزنی اصلاحات گولیوں کی طرح تَڑتَڑ برستی ہیں تو پڑھنے والے حراساں ہوجاتے ہیں،قاضی عابد نے ”جدید تنقیدی نظریات اور اُردو فکشن“ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اُردو فکشن سے مراد افسانہ، ناول اور ڈرامہ لیتے ہیں جبکہ مغرب میں فلم بھی فکشن میں شمار ہوتی ہے، فکشن کی ہر شکل میں اسٹیج سے فلم تک مصنف کی آواز کو متن کی آواز پر غالب رکھنے کی کوشش کی مگر متن اپنی معنویت کے تمام اسباب کھولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پڑھنے والا لکھنے والے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے، کیونکہ پڑھنے والے کے پاس اپنا تفہیمی رویہ ہوتا ہے جبکہ لکھنے والا صرف ایک ہی متن پر لکھ رہا ہوتا ہے،1990ءکے آس پاس جن تنقیدی رجحانات کا اظہار ہوا اس پر مختلف مضامین بھی لکھے گئے ہیں، اُردو میں بیانات پر تعارفی مواد کم ہی مرتب کیاگیا ہے۔ ہمارے پاس بہت ذہین نقاد موجود ہیں ہم مل جُل کر ایک نئی تنقید کا عنصر پیش کرسکتے ہیں چاہے یہ رویہ مغرب ہی سے کیوں نہ آیا ہو۔


■ دوسرا سیشن ”اردو میں ایک صدی کے نثری ادب “ کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی نظامت خرم سہیل نے انجام دی، اس موقع پر افضال احمد سید نے اردو میں تراجم کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک جامعہ میں اردو تراجم پر کام کا آغاز کیا گیا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام نامور جامعات میں اردو ترجموں کے شعبوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور تراجم سے متعلق ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے، عقیل عباس جعفری نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اردو ادب میں تذکرے اور تاریخ کے حوالے سے سیر حاصل بیان کیا ، کہ ساٹھ کی دھائی میں جمیل جالبی نے تاریخ اردو ادب پر کتابیں لکھی تاہم ان کے بعد اس حوالے سے کوئی خاص کام دکھائی نہیں دیتا ، ماضی قریب میں جامعہ پنجاب نے اردو ادب کی تاریخ پر کتاب مرتب کی تاہم یہ تحقیق جالبی صاحب کے کام کے ہم پلہ نظر نہیں آتی، معروف محقق رﺅف پاریکھ نے ایک صدی میں اردو لغت کے سفر کے موضوع پر کہا کہ ماضی میں اردو لغات میں لکھنوی رنگ نمایاں رہا تاہم پاکستان میں لکھی گئی بائیس جلدوں پر مشتمل ضخیم لغت میں تمام خطوں میں بولی جانے والی اردو کے الفاظ کو یکجا کیا گیا جس سے ادبی دنیا میں استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے، فرحت پروین نے کہا کہ مترجم دو زبانوں اور معاشروں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے ، کسی قوم کو دوسری اقوام کے ادب اور معاشرت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے، نامور ادیب عرفان جاوید نے خاکہ نگاری اور سوانحی ادب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خاکہ نگار اپنی ارد گرد کے ماحول کو صفحات پر زندہ کردیتا ہے جنہیں صدیوں بعد بھی پڑھ کر انسان خود کو اسی ماحول میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے، حالیہ دور میں خاکہ نگاری کا فن تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
■۔ تیسرا اجلاس ”یارک شائر ادبی فورم “ کے زیراہتمام منعقد کیاگیا جس میں ڈاکٹر یونس حسنی اور محمد یامین کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ پیش کیاگیا، تقریب کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن اور نظامت کے فرائض غزل انصاری نے انجام دیے،اس موقع پر ڈاکٹر یونس حسنی اور محمد یامین کی ادبی خدمات کے حوالے سے ڈاکومینٹری بھی دکھائی گئی، ڈاکٹر یونس حسنی نے کہاکہ جتنا کام مجھے علمی طور پر کرنا چاہیے تھا اس کا نصف بھی نہیں کرسکا، مگر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جو علمی کام بھی کیا وہ انتہائی ذمہ داری اور ایمانداری سے کیا۔ مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے شاعر محمد یامین نے ایوارڈ وصول کرنے کے بعد کہاکہ ادب ایسا میدان ہے کہ جس میں غالب اور میر جیسے لوگ اور ان کے بعد آنے والے بڑے بڑے ادباءاور شعراءموجود ہوں تو اس شعبے میں کمال کا اعتراف کرنا بڑا مشکل بن جاتا ہے، انہو ں نے ایوارڈ ملنے پر شکریہ ادا کیا۔میں کوشش کرتے ہوں کہ نظموں میں خوبصورت جنت نظیر وادیکشمیر کی خوبصورتی اور رعنائی کو علامت کے طور پر استعمال کیا جائے اور وہاں کے جنت نظیر نظاروں کو اپنی شاعری میں پینٹ کیا جائے، صدر محفل ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ یارک شعائر ادبی فورم پتھروں پر پھول اُگانے اور سجانے کا کام کررہا ہے،


■ چوتھا اجلاس ”بچوں کا ادب“ کے موضوع پر تھا جس کی میزبانی علی حسن ساجد نے کی، ادب اطفال پر اظہار خیال کرتے ہوئے، نیر رباب نے کہا کہ بچوں کے تخیلات ہر زمانے میں یکساں رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بچوں کی کہانیوں کے کرداروں کا تصور بھی پہلے جیسا ہی ہے، اڑتے قالین کی جگہ اسپیس شپ نے لے لی اور جنوں چڑیلوں کی جگہ اب سپر مین اڑتا ہے، سلیم مغل نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی آمد سے ہماری معاشرتی اقدار اور بچوں کے ذھن متاثر ہورہے ہیں، موجودہ دور میں بچوں کے لئے معیاری ادب لکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے۔پرانے چینی مصنفوں نے کئی دھائیوں پہلے ہی اپنی تحریوں میں بچوں کی ذھن سازی شروع کردی تھی، رﺅف پاریکھ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ بچوں کے تخیل کو بیدار کرنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے کہانی اور داستان گوئی ہر دور میں اہم رہی ہے جس کی تازہ مثال ہیری پورٹر سیریز ہے ، کہانیوں سے بچوں کے سیکھنے کے عمل کو جلا ملتی ہے ، لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعہ سیشن کی صدارت کرتے ہوئے معروف ادیب اوربراڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے بچوں کے ادب میں ٹیکنالوجی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بچوں کی ذھن سازی میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے، بچوں کے ادب میں بیڈ ٹائم اسٹوریز ، لوریوں اور گیتوں پر کام کرنا ہوگا، میزبان علی حسن ساجد نے بتایا کہ آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہر سال بچوں کا جریدہ شائع کرنے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے۔
■۔ پانچواں اجلاس ”کتابوں کی رونمائی “ کے حوالے سے منعقد کیاگیا جس میں ”شاعر ،مصور، خطاط صادقین“پر لاہور سے نعمان الحق نے آن لائن،نجیبہ عارف کی کتاب ”راگنی کی کھوج میں“ پر لاہور سے یاسمین حمید نے آن لائن،بھیشم ساہنی کی کتاب ”امرتسر آگیا“ پر انعام ندیم کا ترجمہ ، آصف فرخی (مرحوم) کے آخری شمارہ ”دنیازاد“ پر ناصر عباس نیر نے آن لائن،شکیل جاذب کی کتاب ”نمی دانم“ پر عباس تابش نے اور نصیر وارثی کے سہ ماہی”ورثہ“ (نیویارک) پر خالد معین نے اظہار خیال کیا،نظامت کے فرائض راشد نور نے انجام دئے ۔ کتاب ”شاعر ،مصور، خطاط صادقین“پر نعمان الحق نے کہاکہ صادقین کا نام عالمی ثقافتی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور ایک بڑا نام ہے، ان کے اندر تخلیقی اظہار کا جو لاوا اُبل رہا تھا وہ ہمیں ان کے شاہکاروں کی صورت میں نظر آتا ہے مگر یہ بات دُکھ کی ہے کہ صادقین کا مکمل کام ہمارے پاس موجود نہیں ہے، صادقین بہت ہی تحمل مزاج مگر اندر سے بے چین شخص تھے ان کے کام میں ان کا اپنا چہرہ نظر آتا ہے، روایت ایجاد کے بل بوتے پر زندہ ہوتی ہے، صادقین کا کوئی استاد نہیں تھا، سب کچھ ان کی اپنی ہی ایجاد ہے، ان کی زندگی میں پہلے نمبر پر شاعری تھی، دوسرے نمبر پر مصوری اور اس کے بعد خطاطی تھی، انہوں نے ربایات لکھی ہیں جوکہ ایک مشکل صنف ہے، نجیبہ عارف کی کتاب ”راگنی کی کھوج میں“ پر تبصرہ کرتے ہوئے یاسمین حمید نے کہاکہ ایسی کتاب پر تبصرہ وہ زیادہ بہتر کرسکتا ہے جو غیر جانب دار ہو کیونکہ اگر اس کتاب کو جانبدارانہ انداز میں پڑھا گیا تو کتاب کسی اور رُخ پر لے جائے گی، نجیبہ عارف کی کتاب کے پہلے صفحے سے آخری صفحے تک میں خود بھی اس تلاش میں لگ گئی جس کی تلاش اور سفر میں مصنفہ رواں دواں ہے اور وہ سفر روحانیت کا ہے،
■۔ بھیشم ساہنی کی کتاب ”امرتسر آگیا“ پر گفتگو کرتے ہوئے حمید شاہد نے بتایا کہ اس کتاب میں بھیشم ساہنی نے اپنے افسانوں کو خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے، جس کا اُردو ترجمہ انعام ندیم نے کیا ہے، بھیشم سا ہنی نے زندگی کی ناانصافیوں کو اپنی کہانی کا حصہ بنایا ہے انہوں نے تلخ حقائق بھی بیان کیے ہیں اور عام لوگوں کی بھی بات کی ہے۔ آصف فرخی (مرحوم) کے آخری شمارہ ”دنیازاد“ پر ناصر عباس نیر نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آصف فرخی کی کمی کو اردو دنیا بہت شدت سے محسوس کررہی ہے ان کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو ادب کو عالمی سطح پر دیکھتے اور پرکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ تمام زبانوں کے ادب سے باخوبی واقف رہتے تھے، انہوں نے کہاکہ جو کچھ دنیا کے بڑے ادیبوں نے لکھا ہے انہوں نے اس شمارے میں شامل کرلیا ہے، شکیل جاذب کی کتاب ”نمی دانم“ پر عباس تابش نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ کتاب کا دیباچہ حمید شاہد نے تحریر کیا ہے ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ فکشن رائٹر غزل پر داد دے رہا ہے مگر پھر خیال آیا کہ ن ۔م راشد کے مجموعے پر بھی تو سعادت حسن منٹو نے لکھا تھا، اس بات کو یوں سمجھ لیا جائے کہ یہ روایت رہی ہے کہ فکشن رائٹر اور شاعر الگ الگ نہیں ہیں اب یہ باتیں دوبارہ جُڑ رہی ہیں تو بہت اچھا لگ رہا ہے نصیر وارثی کے سہ ماہی”ورثہ“ (نیویارک) پر خالد معین نے
اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اس سہ ماہی رسالہ کے مدیر اعلیٰ رئیس وارثی اور مدیر نصیر وارثی ہیں جو دونوں بھائی ہیں، انہوں نے 1998ءمیں نیویارک میں اُردو مرکز کا بھی قیام کیا اور یوں اردو دنیا اور ادب کے فروغ کے لیے مستقل کوشاں ہیں اس رسالہ میں عالمی ادب کو بھی جگہ دی گئی ہے جس سے یہ مختلف ادباءاور شعراءکو ایک مرکز پر لے آئے گا، اس سہ ماہی ورثہ کے نگرانِ اعلیٰ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ہیں،اس موقع پر صدر آرٹس کونسل کراچی محمد احمد شاہ ، ڈاکٹر رﺅف پاریکھ ،ڈاکٹر فاطمہ حسن اور دیگر نے سہ ماہی ورثہ کی رونمائی بھی کی۔
■۔ چھٹا سیشن ”سندھی زبان و ادب کے سو برس “ کے موضوع پر معروف سندھی دانشوروں ، ادیبوں اور شعرا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، سندھی کہانی کار طارق قریشی نے سندھی ادب کے حوالے سے بتایا کہ حالیہ دور میں سندھی خواتین مصنفیں اور کہانی کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اپنی تحریروں میں سندھی خواتین کے مسائل اجاگر کر رہی ہیں ، نئے لکھاریوں کو زیادہ مواقع فراہم کئے جانے اور انکی ہمت افزائی کی ضرورت ہے ، ڈاکٹر قاسم بگھیونے کہا کہ سو سال قبل سندھی زبان کو ترقی یافتہ زبان کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا، قیام پاکستان کے بعد اردو کو قومی اور انگریزی کو سرکاری زبان بنائے جانے کے بعد سندھی زبان اور ادب کو بڑا دھچکا لگا، معروف ڈرامہ نویس نور الہدی شاہ نے کہا کہ سندھ محبت اور امن کی سر زمین ہے اور سندھ دھرتی والوں نے اردو سے بھی پیار کیا ہے، سندھی دانشوروں نے سندھی ادب کو ہر دور میں زندہ رکھا ۔ نوجوان سندھی ادیب جامی چانڈیو نے کہا کہ عام تاثر ہے کہ سندھ میں اردو قیام پاکستان کے بعد آئی تاہم حقیقت یہ ہے کہ اردو کے کئی صاحب دیوان شعرا اٹھارویں صدی سے ہی اس دھرتی پر موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ کو اردو سے پیار ہے، جامی چانڈیو نے بتایا کہ سندھی کلاسیکل ادب کی ابتدا کی کڑیاں گیارھویں صدی سے جا ملتی ہیں اور جدید سندھی ادب اسی کلاسیکی ادب کا تسلسل ہے، نظامت کے فرائض ڈاکٹر ایوب شیخ نے انجام دیے۔
■۔ ساتواں اجلاس فلموں اور ڈراموں کے سپر اسٹار ”ہمایوں سعید سے ملاقات“ کا تھا جس میں کراچی سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور لاہور سے آن لائن معروف ڈائریکٹر ندیم بیگ نے ہمایوں سعید سے مختلف سوالات کیے جن کا جواب ہمایوں سعید نے لاہور سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے دیا، ہمایوں سعید نے کہاکہ ڈرامہ ہو یا فلم اسکرپٹ کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، گزشتہ چند سالوں سے میں اور ندیم بیگ اس لیے کسی ٹی وی سیریل کے لیے کام نہیں کررہے کہ ہمارے پاس اچھا اسکرپٹ موجود نہیں ہے، جو ڈرامے اس وقت بن رہے ہیں ان میں بعض کریکٹرز میں وہ بات نظر نہیں آتی جو پہلے نظر آتی تھی کریکٹر کے پاس کچھ کرنے کے لیے ہونا چاہیے، ہم پرانے رائٹرز کو یاد کرتے ہیں جن میں حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ اور دیگر شامل ہیں ان کے اسکرپٹ بہت جاندار ہوتے تھے آج کل کے دور میں اسکرپٹ میں جو کمی ہے وہ ماضی کے ان رائٹرز کے تجربے کی ہی کمی ہے،
■۔ آٹھواں سیشن پاکستان کے نامور اداکار سہیل احمد المعروف عزیزی کے ہمراہ ایک نشست سجائی گئی جس کی میزبانی نئی نسل کے نامور اداکار یاسر حسین نے کی، سہیل احمد نے کراچی کو پاکستان کا چہرہ قرار دیا ، دونوں مایہ ناز اداکاروں کے کھلکھلاتے جملوں نے ماحول کو کشت زعفران بنا دیا ، دوران گفتگو سہیل احمد نے اپنے چٹکلوں سے حاضرین سے خوب داد سمیٹی ، عزیزی کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں نے اپنی نقل اتارنے پر ہمیشہ ان کی تعریف کی، سہیل احمد نے نوجوان فنکاروں کو سینئر کا ادب کرنے اور ان سے سیکھنے کی ہدایت کی ، انہوں نے آخری عمر میں فنکاروں کی کسم پرسی پر سوال اٹھاتے ہوئے اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔ سنجیدگی اور طنز و مزاح سے بھرپور اس نشست میں سامعین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ شرکا نے اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا شکریہ ادا کیا۔ نشست کے اختتام پر احمدشاہ نے سہیل احمد کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔