امتِ رسولؐ کے زوال کے اسباب

تحریر ۔۔۔ عروبہ عدنان
—————————–
عموماً جب کسی بھی قوم کو سمجھنا جاننا اور پرکھنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی تاریخ ،تہزیب وتمدن اور ثقافت کو دیکھا جاتا ہے یہی وہ واحد کسوٹی ہے جس سے کسی بھی قوم کو جانچا جا سکتا ہے ۔
تہزیب سے مراد طرزِ معاشرت یعنی کسی بھی قوم کا رہنے سہنے کا انداز ہے نیز تمدن سے مراد وہ باتیں جو اصولِ شہریت پہ مبنی ہوں مثلا خوش اخلاق ہونا ،اچھے اطوار کا ہونا ،اچھی زندگی بسر کرنا ۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہزیب کا تعلق کسی قوم کے نظریات سے ہے اور تمدن اس قوم کی عملی صورت کا نام ہے ۔
ثقافت سے مراد کسی خاص قوم ،ملت یا گروہ کے کسی مخصوص دور میں رہن سہن کا طریقہ ،خاص طور پراس قوم کی عمومی عادات ،رسومات اور روایات ہے۔
کسی بھی مسلم قوم کی تہزیب و تمدن اور ثقافت میں سب سے پہلے مذہب یعنی دین نظر آتا ہے ۔ ہم زیادہ دور نہیں جاتے دو سو ،ڈیڑھ سو سال پہلے تک مسلم تہزیب اپنے عروج پہ تھی اور مغربی تہذیب تنزلی کا شکار تھی ۔ اس وقت مسلمان علما ،مفکر ،سائنسدان اور دانشوروں کی دانشوری اپنی بلندی پر تھی ،کوئ اور تہزیب مسلم تہذیب کی گرد کو بھی چھو نہیں سکتی تھی ۔ اس دور میں بغداد ،قرطبہ اور غرناطہ کے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں علم و معرفت میں دنیا کی سب تہذیبوں سے کہیں آگے تھیں اس وقت کی مسلم ریاستوں کے شہر اپنی روشنی ،صفائ اور حسن و خوبصورتی میں آج کی تہذیب یافتہ قوموں کو بہت پیچھے چھوڑے ہوئے تھیں ۔ مسلم اقوام کے کتب خانے تجربات ،سائنسی حقائق پہ مبنی کتابوں سے بھرے پڑے تھے ۔ دوسری تہذیبیں ان کتب سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے مسلم دنیا کا رخ کرتی تھیں ۔ مسلم سائنسدانوں کی لکھی کتابوں سے اہل مغرب عرصہءدراز تک مستفید ہوتے رہے ۔پھر اہلِ مغرب نے ان کتابوں کے اپنی زبانوں میں ترجمے کرنا شروع کئیے برسوں ان کتابوں سے علم حاصل کیا ۔ پھر ایسا وقت آیا جب مسلم قوم اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر اپنے مذہب اور تہذیب سے دور ہونے لگی مسلم قوم کی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ اس کی اپنے دین سے دوری بنی ۔ عیش وعشرت اور دینی علم سے دوری کی وجہ سے وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہونے لگی مسلم امت نے اپنے دین کی وہی حالت کر دی جو ایک زمانے میں صلیبی کلیسا کے راہبوں نے اپنے مذہب کی کری تھی ۔ مسلمان نماز میں دعا مانگنے کے بجائے درگاہوں ،آستانوں پہ جا کر دعائیں مانگنے لگے ،انہوں نے زکوت اور صدقے کے بجائے دم درود اور توہمات کو اپنا لیا بقول شاعر
… خرافات میں کھو گئ
یہ امت روایات میں کھو گئ
تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
بس یہی وہ وقت تھا جب اہل مغرب ہوش میں آ گئے اور انہوں نے مسلم تہذیب سے بہت کچھ سیکھا اور اپنایا ۔ پھر انہوں نے خود کو مضبوط و منظم کیا اور تمام قیمتی علوم پر مبنی قطب خانوں کے ترجمے مختلف مغربی زبانوں میں کر ڈالے ۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم امت خلفشار کا شکار ہو چکی تھی اور مختلف فرقوں میں بٹ کر خود کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ تب مغربی طاقتیں طاقت پکڑ گئیں اور انہوں نے تیزی سے مسلم اقوام کومختلف محاذوں میں شکست دینا شروع کر دیں مغربی اقوام مسلمانوں کی کمزوریوں کو جان چکی تھیں سو انہوں نے انہیں کمزوریوں کو اپنا ہتھیار بنا لیا اور امت رسول کو مذہبی ،تہذیبی،علمی اور سرحدی ہر لحاظ سے نقصان پہنچایا اور سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کر دئیے یہی نہیں انہوں نے ترکی میں موجود مسلمانوں کے کتب خانوں کو آگ لگا دی ۔ آگ لگانے سے پہلے انہوں نے بہت سی نایاب کتابوں کو اپنےپاس محفوظ کر لیا۔ یہ ایک ایسا ناقابلِ تلافی نقصان تھآ جس کی تلافی اب تلک نہ ہوسکی وہ قوم جو کبھی جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی آج مسلم اقوام کے سر پہ مسلط ہے اور انہیں کتابوں سے مستفید ہو کر ترقی یافتہ قوم بن گئ ہے جو کبھی مسلم قوم کے مفکرین اور سائنسدانوں نے لکھیں تھیں۔ بقول شاعر
ایک پتھر کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقہ سے تراشہ جائے .
اب یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تاریخ بھلا بیٹھے ہیں اور مغربی تہذیب کی گہری چھاپ ہم پہ لگ چکی ہے ۔ ایشیاء کی مسلم اقوام بھی بری طرح مغرمی تہذیب کے شکنجے میں کسی جا چکی ہیں جس کی ایک مثال ہم خود ہیں ۔۔ ہم اب جس نظامِ تعلیم کی پیروی کر رہے ہیں اس کابانی لارڈ میکالے ہے جس کا سب سے بڑا مقصد ہندوستان کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنی تہزیب سے دور کرنا اور مسلمانوں میں احساسِ کمتری پیدا کرنا تھا ۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری تہذیب آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن کر رہ گئ ہے ۔ اس تنزلی کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کا اب تک لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پہ اندھی تقلید کرنا ہے ۔ ہم نے انگریزی زبان کو ترقی کا زینہ سمجھ کر اپنی زبان “اردو ” کو اپنانے سے انکار کر دیا ۔ اس کے باوجود کہ آج ہم آزاد قوم ہیں مگر ذہنی طور پر اب تلک غلامانہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ یہ غلطی ایسی غلطی ہے جس کی وجہ سے اب تک ہمارا شمار پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہو سکا ہے ۔ دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم نے اپنی زبان کو اپنایا اور اسی وجہ سے ترقی کی مگر افسوس کہ ہم اب تک احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں اور مغربی اقوام کی سازشوں کا شکار ہیں ۔
مغربی اقوام اب تک مسلم اقوام کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور مسلم تہذیب کو جڑ سے اکھاڑنے میں مصروف ہیں۔ جس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے
ڈاکٹر نبیل القلینی ایک مصر کے ایٹمی سائنسدان تھے جنھوں نے یورینیم کو افزودہ کرنے کے حوالے سے قابلِ قدر تحقیقات کیں ۔ 1975 میں وہ یکدم غائب ہو گئے ان کا اب تلک پتہ نہیں چلا ۔۔
سمیرہ موسی مصر کی ایٹمی سائنسدان تھیں انہوں نے تحقیقات کے ذریعہ یہ پتہ لگایا کہ ایٹمی طاقت کو کس طرح میڈیکل کے شعبے میں کام میں لایا جا سکتا ہے نیز ایٹمی طاقت سے بجلی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے ۔ انہیں 1952 میں امریکہ کے دورے کے دوران قتل کر دیا گیا ۔

لبنان سے تعلق رکھنے والے حسن کامل الصباح ایک ماہر انجینئر تھے انہوں نے اس شعبہ میں 173 ایجادات کیں انہیں 1935 میں امریکہ میں قتل کر دیا گیا ۔
حسن رمال بھی لبنان سے تعلق رکھتے تھے وہ فزکس کے میدان کے شاہسوار تھے انہوں نے 119 سائنسی ایجادات کیں 1991 میں انہیں فرانس میں قتل کر دیا گیا ۔
سعید بدیر مصری باشندے مزائیل ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماہر سائنسدان تھے ۔ وہ کافی عرصہ جرمنی میں سیٹلائٹ فیلڈ میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ انہیں بھی 1989 میں قتل کر دیا گیا ۔
ڈاکٹر سامیہ میمنی سعودی عرب سے تعلق رکھتیں تھیں وہ میڈیکل ڈاکٹر تھیں ان کی علمی تحقیقات نے ہارٹ آپریشن کے زاویے بدل دئیے ۔ انہوں نےانتہائ پیچیدہ طریقے کو آسان بنانے کے لیے ایک آرام دہ عصبی آلہ ایجاد کیا ،انہیں بھی 2005 میں قتل کر کے ان کے ایجاد کردہ آلے اور علمی تحقیقات کے مسودات کو چرا لیا گیا ۔
سلوی حبیب کا تعلق کویت سے تھا وہ ایک محققہ تھیں ،انہوں نے صیہونیوں کی جانب سے عالمِ عرب اور افریقہ کے خلاف تیار کی گئ کی خفیہ سازشوں اور منصبوں کو بے نقاب کیا نیز تاریخ یہود سے متعلق کئ کتابیں لکھیں ان کو ان کے فلیٹ میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا
یحیی المشد مصر سے تعلق رکھنے والے ایٹمی سائنسدان تھے بلکہ وہ مصر کے جوہری پروگرام موسین کے سربراہ تھے نیز یہ کہ انہیں عراق کے ایٹمی پروگرام کا کرتا دھرتا بھی سمجھا جاتا ہے ۔ انہیں 1980 میں فرانس کے شہر پیرس میں مار دیا گیا .
سمیر نجیب کا تعلق مصر سے تھا وہ بھی ایٹمی سائنسدان تھے اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کام کرتے تھے جب انہوں نے واپس مصر جانے کا فیصلہ کیا تو ان کے سائنسی تحقیقاتی مسوادات کو چوری کر لیا گیا بعدازاں انہیں 1967 میں قتل کر دیا گیا ۔
مصطفی شرفہ کا تعلق بھی مصر سے تھا وہ فزکس کے ماہر سائنسدان تھے ،انہیں عرب کا آئین سٹائین بھی کہا جاتا تھا ۔1950 میں انہیں موساد نے زہر دے کر قتل کر دیا ۔ اب اس وقت بھی پاکستان ان خارجی مسلم دشمن عناصر سے نبرد آزما ہے جو اسے معاشی ،سماجی ،تہذیبی ،تعلیمی اور سرحدی لحاظ سے ختم کرنے کے در پہ ہیں ۔ نام نہاد انجیوز نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پہ فحاشی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔۔۔ ایک سال کے اندر اندر یہ بے پردہ اور بے حیاء خواتین آزادی ء نسواں کا بینر اٹھائے سڑکوں ، گلی کوچوں میں پھرتی نظر آ رہی ہیں ۔ چادر و چاردیوری ان کو قید خانہ نظر آ رہی ہے ۔ اپنی تہذیب کی دھجیاں بکھیرتی ان خواتین کو وہی خارجی عناصر عناصر سپورٹ دے رہے جو کسی صورت ہمارے ملک کو پرسکون و پرامن نہیں دیکھنا چاہتے ۔
یہ غیر مسلم فرنگی طاقتیں ہماری تہذیب و تمدن کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور افسوس صد افسوس ہم خود کو تقریباً ان کے رنگ میں رنگ چکے ہیں ۔ ہم نے اپنے اداروں کو کالے انگریز کے حوالے کر دیا ہے ،ہم لاشعوری طور پر ان فرنگیوں کی تہذیب کو اپناتے جا رہے ہیں ،ان کی زبان بولتے ہیں انہیں کا لباس زیب تن کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔۔
ہم نے اپنی اولادوں کی تقدیر اب اس مغربی تہذیب کے ہاتھوں میں دےدی ہے جسکا واضح ثبوت انگریزی نظام تعلیم کو اپنانا ہے ۔ ہم اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھا کر مطمعین ہو جاتے ہیں کہ اب ہمارے بچے کا مستقبل تابناک ہو جائے گا ، اس کو انگریزی تعلیم دے کر سمجھنے لگے ہیں کہ اب وہ تہذیب یافتہ کہلائے گا ،ہمارے ڈرامے ،فلیمیں بری طرح مغربی تہذیب کی یلغار میں رنگی ہوئ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہماری اولادوں میں شرم وحیاء ختم ہو رہی ہے اور وہ جو ادب و تکریم اور بزرگوں کا احترام ہماری تہذیب کا خاصہ تھا وہ اب ہم سے رخصت ہو رہا ہے ۔ ہماری اولادیں آزادانہ مخلوط تعلیم حاصل کر کے مدر پدر آزادی مانگ رہی ہیں ۔ اپنے بزرگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی ہیں ۔ ہماری سیکھائ ہوئ مغربی تہذیب اب ہمیں اپنی ہی نظروں سے گرا رہی ہے ۔
حدیثِ پاک میں ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ “ماں اپنی حاکمہ کو جنے گی “اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کی نافرمان ہو جائے گی اور اپنے ماں باپ پہ حکم چلائے گی ۔ افسوس کہ ہم اب یہی کچھ دیکھ بھی رہے ہیں ۔ مغربی تہزیب کی اندھی تقلید ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی بقول شاعر
جدید دور میں بدلی ہے جس طرح تہذیب
تو خود کو ایسے میں کیونکر سنبھال رکھے گا
اب بھی دیر نہیں ہوئ ہمیں ہوش میں آ جانا چاہیے اور اپنی تہذیب کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے سب سے پہلے اپنی تعلیمی نظام کو مغربی طرزِ تعلیم سے نکال باہر کرنا ہو گا ۔ اپنی قومی زبان اور تہذیب کو اپنانا ہو گا تاکہ ہم اپنا تشخص قائم رکھ سکیں اور ایک غیور اور ترقی یافتہ قوم کہلائیں گر ہم نے اب بھی اگر ایسا نہ کیا تو ہماری مسلم تہذیب دم توڑ دے گی اور ہم بحثیت مسلم قوم اپنا خدانخواستہ تشخص کھو بیٹھیں گے جس کے لیے ہمیں قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے بھی جواب دہ ہونا پڑے گا
حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ “تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ” ۔بیحد افسوس کی بات ہی کہ کئ نام نہاد انجیوز نے تحفظِ نسواں کے نام پہ فحاشی کا بازار گرم کر رکھا ۔ پچھلے سال 8 مارچ کو یہ بے حیاء خواتین آزادی ء نسواں کے بینرز اٹھائے گلی کوچوں ،سڑکوں اور بازاروں میں نظر رہی تھیں ۔۔۔ ان بینرز پہ انتہائ بیہودہ تحریریں لکھی گئیں تھیں جس کو کوئ اسلامی معاشرہ قبول کر ہی نہیں سکتا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مغرب ذدہ میڈیا ان خواتین کو مکمل کوریج دے کر پوری دنیا میں ہماری بے پردہ خواتین کو دیکھا رہا تھا ۔ حکومتِ وقت اس طرح کی کوریج پہ میڈیا کو سختی سے آڑے ہاتھوں لے ۔ یہ خواتین باحیاء خواتین کے لیے باعثِ شرمندگی بن رہی ہیں ۔۔۔ ہر پاکستانی اپنی تہذیب کا امین ہے ۔۔ ایسی بے حیاء عورتوں کو اتنی اہمیت دے کر بیہودگی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ بیشک ہمارے معاشرے میں خواتین کئ طرح کے مسائل کا شکار ہیں ، اگر حکومت چاہے تواسلامی شریعت کے مطابق ان مسائل کو سہولت سے حل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنا اشد ضروری ہیں ۔عدلیہ اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔لیکن ہائ کورٹ نے بھی اظہارِ رائے کا حق دے کر ان مدر پدر آزاد خواتین کو کھلی چھوٹ دے دی ہے ۔ حکومت کو اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے چاہیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری تہذیب انہیں سڑکوں پہ دم توڑ دے اور ہم ہاتھ ملتے اور افسوس کرتے رہ جائیں ۔ یہ حقیقت ہے جب تک شرعی قوانین لاگو نہیں ہونگے اسی طرح معاشرتی برائیاں بڑھتی چلی جائیں گی اور ہم اپنی تہذیب اور اخلاقی قدروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے