’’ شاہ جی تم بھی ۔۔۔۔۔‘‘

سعید خاور

ممتاز صحافی عبدالقدوس فائق جمعہ کے روز کراچی میں وفات پا گئے۔

سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی اس اطلاع نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔
خبر ہی ایسی تھی، ان کی علالت کی خبر تو ان کے امریکا سے واپس آتے ہی مل گئی تھی۔ لیکن یہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ یوں اچانک ابدی سفر پر روانہ ہو جائیں گے- الحمدللہ! ہم نے برسوں ساتھ کام کیا، ایک وقت وہ بھی آیا کہ میرے جیسے طفل مکتب کو مدیر نوائے وقت بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ اس تبدیلی پر وہ بھی یوسف خان مرحوم کی طرح خوشی سے نہال ہو گئے۔
’’ابے یوسف خان اچھا ہو گیا ہے یار، دفتر سے ہی بندہ آ گیا ہے، باہر سے کوئی آتا تو نہ جانے کیا گل کھلاتا۔‘‘ یوں اس ایک جملے نے مجھے دفتر کے تمام سینیئرز میں شرف قبولت کی سند بخش دی۔ بہ طور مدیر بھی وہ اپنی خود اختیار کردہ ریٹائرمنٹ تک بہ طور کامرس رپورٹر ہماری ٹیم میں شامل رہے، میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ میں نے ’’شاہ جی‘‘ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل کیا۔
عبدالقدوس فائق المعروف ’’شاہ جی‘‘ کمال انسان تھے، کئی خوبیوں کا مجموعہ، پورا کراچی انہیں ’’شاہ جی‘‘ کے نام سے پکارا کرتا تھا، وہ ہم سب کے ’’شاہ جی‘‘ تھے۔ وہ بلا کے تمباکو نوش تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک عرصے سے پھیپھڑوں اور سانس کی بیماری میں مبتلا تھے اور اکثر کھانستے رہتے تھے، ڈاکٹروں نے کئی بار سختی سے منع کیا کہ ’’شاہ جی‘‘ تمباکو نوشی چھوڑ دو مگر وہ کہاں ماننے والے تھے، سگریٹ پہ سگریٹ، سارا سارا روز پریس کلب میں ہوں، دفتر میں ہوں یا چیمبر آف کامرس میں بلکہ گھر پر بھی رات گئے تک، جب تک جاگتے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے رہتے تھے۔ حال ہی میں امریکا کے ڈاکٹروں نے ان کے کینسر میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی جس کے بعد وہ امریکا سے پاکستان آ گئے ،اب ان کی عمر 72 برس ہو گئی تھی، ان کے پھپھڑوں نے تو پہلے ہی کام چھوڑ دیا تھا، پھر انہیں کینسر ہو گیا، کینسر سے بھلا کس کو شفا ہوئی ہے۔ یوں چند روز تشویش ناک حالت میں رہنے کے بعد انہوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ انہوں نے اپنے پس ماندگان میں دو صاحب زادے معاذ القدوس اور اسامہ قدوس سوگوار چھوڑے ہیں۔
شاہ جی کی ریٹائر منٹ کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے ہمارے ساتھ نوائے وقت آ گئے، “شاہ جی” اپنے دونوں بچوں کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ چند برس قبل وہ ذیا بیطس کی شکار اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد بہت اداس رہنے لگے تھے، ایسے لگتا تھا کہ ان سے ان کی کوئی متاع چھن گئی ہے۔ اہلیہ کی رحلت کے بعد وہ امریکا بھی اسی لئے منتقل ہوئے تھے کہ شاید پردیس میں ان کا جی بہل جائے اور وہ وہاں اپنے دونوں بیٹوں کو بھی لے جا کر اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔ امریکا میں ان کی ہم شیرہ سمیت کئی قریبی عزیز مقیم تھے۔ وہاں انہوں نے کئی چھوٹی بڑی ملازمتیں کر کے حالات اپنے حق میں سازگار بنانے کی کوشش کی لیکن امریکی طرز معاشرت اور بود و باش سے وہ مطمئن نہیں تھے اور جب بھی آتے امریکا میں اپنی گزرنے والی زندگی سے بے زاری کا کھل کر اظہار کرتے۔۔
عبدالقدوس فائق مایہ ناز ماہر تعلیم پروفیسر عبدالقیوم ناطق مرحوم کے صاحبزادے تھے جن کی نصابی کتابیں اساتذہ اور طلبہ طالبات میں آج بھی بہت مقبول ہیں۔ عبدالقدوس فائق کہنہ مشق صحافیوں میں شمار ہوتے تھے ان کی صحافت کا دورانیہ پانچ عشروں پر محیط تھا، اس دوران بلدیہ عظمیٰ کی ملازمت کے علاوہ انہوں نے کئی اہم اخبارات میں خدمات سر انجام دیں- ایک عرصے تک وہ صحافیوں کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیم کے ساتھ بھی فعال رہے، یوسف خان مرحوم انہیں ازراہ مذاق کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور) کا گرو گھنٹال کہا کرتے تھے- اپنے صحافتی کیریئر کا بیشتر اور آخری حصہ انہوں نے نوائے وقت میں جھونک دیا لیکن نوائے وقت نے انہیں خالی ہاتھ رخصت کیا اور وہ اپنے واجبات کے لئے عدالتوں کے دھکے کھاتے رہے- ان کا شمار کامرس کے نامور رپورٹروں میں ہوتا تھا، صنعت و تجارت کے حلقوں اور صحافتی برادری میں ان کی دوستی کا دائرہ بہت وسیع تھا، شیخ منظر عالم، میاں زاہد حسین، ذکریا عثمان اور ان کے ساتھ کے سب بڑے بڑے اور نامی گرامی تاجر اور صنعت کار ان کے ذاتی دوست تھے اور ان سے تو تڑاک والی محبت تھی۔ ان کا ذوق مطالعہ بھی بہت زیادہ تھا، ان کے پاس نادر و نایاب مخطوطات سمیت ہزاروں کتب موجود تھیں جن کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ میری لائبریری میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جو ان کے زیر مطالعہ نہ رہی ہو۔ ان کی کراچی سے متعلق اپنی تیر ہ جلدوں پر مشتمل کتابیں زیر ترتیب تھیں جن کی اشاعت ان کی وفات کے باعث کھٹائی میں پڑ گئی ہے، کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے علامہ اقبال صدف ان کی معاونت پر مامور رہے۔
’’شاہ جی‘‘ پاکستان میں صنعت و تجارت کے شعبے اور شخصیات کی تاریخ پر مستند سمجھے جاتے تھے۔ وہ صحافیوں اور صنعت و تجارت سے وابستہ شخصیات میں ”شاہ جی “کے نام سے مشہور تھے، وہ ایک بذلہ سنج اور حاضر جواب شخصیت تھے۔ ہمارے محبوب ساتھی یوسف خان مرحوم اور شہزاد چغتائی بھائی اور کبھی علامہ اقبال صدف ان سے چھیڑ خانی کرتے تو وہ جھلا جاتے اور ’’ارے میاں، تم بچے ہو‘‘ اور ’’دیکھو میاں‘‘ کہہ کر ترکی بہ ترکی ان کے خوب لتے لیتے۔ بس ایک بار چھیڑ دو تو باتوں کی بوچھاڑ اور قہقہوں کی برسات ہو جاتی۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے نستعلیق مغلظات بھری باتیں اور حکایات کھوج کر لاتے تھے کہ نیوز روم کشت زعفران میں تبدیل ہو جاتا۔
دس برس قبل اخباری دنیا سے ریٹائر ہونے کے لگ بھگ پانچ برس بعد وہ 2015 میں امریکا چلے گئے- جہاں پچھلے برس ان کے دماغ میں رسولی کا کام یاب آپریشن بھی ہوا جس کی اطلاع انہوں نے فیس بک پر ہی سب دوستوں کو دی- امریکا میں اپنے قیام کے ان پانچ برسوں میں وہ دو تین بار پہلے بھی وطن واپس آئے لیکن بیماری کی شدت کے بعد گزشتہ دنوں غالبا وہ مستقل طور پر ہی پاکستان لوٹ آئے جہاں ان کے دونوں صاحب زادے معاذ اور اسامہ ان کی خدمت پر مامور رہے۔ آج اچانک ان کی رحلت کی خبر ہم سب ساتھیوں اور دوستوں کو اداس کر گئی ہے۔ ہمارے ’’شاہ جی‘‘ اب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں لیکن عبدالقدوس فائق منوں مٹی تلے جا آسودہ ہوئے۔ ان کی نماز جنازہ جمعہ بعد نماز عصر جامع مسجد محمدی گلستان جوھر بلاک 8 میں ادا کی گئی جس میں ان کے عزیز و اقارب، صحافیوں، تاجروں اورصنعت کاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور ان کی تدفین یاسین آباد قبرستان میں کی گئی۔ انہیں لحد میں اتارتے ہوئے ہر شخص سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی، یہ منظر تھا ’’شاہ جی ‘‘ کی ملک عدم روانگی کا۔