میٹھے اور رسیلے آموں کی سرزمین مظفر گڑھ

یادوں کے جھروکوں سے

(18)

میٹھے اور رسیلے آموں کی سرزمین مظفر گڑھ

عابد حسین قریشی

ہم محبت تلاش کرتے پھرے
اور وہ بانٹ کر چلا بھی گیا

2 اپریل 2012 ایک مرتبہ پھر سرائیکی بیلٹ کا سفر درپیش تھا۔ جب مظفرگڑھ میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جوائن کیا۔ لیبر کورٹ بہاولپور سے چارج چھوڑتے وقت ڈسٹرکٹ جوڈیشری بہاولپور نے ایک شاندار عشائیہ دیکر الوداع کیا۔ جس کا کریڈٹ اس وقت کے سیشن جج بہاولپور چودھری حفیظ صاحب کو جاتا ہے جن کا تعلق وہاڑی سے تھا اور آجکل ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالٰی کا خاص کرم اور دوستوں کی محبت تھی کہ ایکس کیڈر جج کو اتنے تپاک سے رخصت کیا جا رہا تھا۔ اس وقت اس طرح کا رواج کم کم ہی تھا۔ بعد ازاں 
یہ اچھی روایت مستحکم ہوتی چلی گئی۔ میں نے بطور سیشن جج لاہور ایک نہایت خوبصورت اور دلآویز روایت قائم کی کہ پنجاب بھر سے ریٹائر ہونے والے جوڈیشل افسران کا تقریبا تین چار ماہ بعد لاہور کے کسی اچھے کلب میں اجتماعی ڈنر کا اہتمام کیا جاتا سوئینر ،تحائف اور الوداعی تقاریر اور پھولوں کی پتیاں اور ہار اور ڈھیر ساری دعائیں کہ جانے والے نمناک آنکھوں سے مگر پوری عزت اور وقار کے ساتھ رخصت ہوتے۔

 مظفرگڑھ میں جائن کرنے کے بعد پہلا ٹاسک بنچ اور بار کے تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنا اور نارمل صورتحال کی بحالی تھی۔ اس میں زیادہ وقت نہ لگا میں نے دانستہ طور پر بار میں جانے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت لیا تاکہ وہاں کی صورتحال سمجھنے میں مدد مل سکے۔ مظفر گڑھ کی بار بھی لودھراں بار کی طرح بڑی پرُامن رکھ رکھاؤ والی بار تھی۔ سیدمنصوراحمد شاہ ایڈوکیٹ جو فوجداری سائڈ پر بڑے پروفیشنل اور قدآور وکیل تھے صدر بار تھے۔ جب کہ میاں سہیل احمد بڑے ہی نفیس اطبع اور وضع دار سیکرٹری بار تھے اور دونوں بڑی مثبت سوچ کے حامل بار اور بنچ کے باہمی تعلقات کار میں بڑا اہم رول ادا کرتے تھے۔ پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ مظفرگڑھ میں تقریبا نو دس ماہ کے سیشن جج کے عرصہ تعیناتی میں کسی ایک بھی جوڈیشل معاملہ میں کسی بار عہدے دار کی طرف سے نہ کوئی request آئی اور نہ ہی کوئی دخل اندازی کا معاملہ درپیش ہوا۔ صرف ایک چوری کے مقدمہ میں درخواست ضمانت میں علاقہ مجسٹریٹ کو کچھ دقّت کا سامنا کرنا پڑا جس میں غالبا ایک نوجوان وکیل مستغیث مقدمہ تھے۔ اور جو ضمانت میجسٹریٹ لیول پر ہو جانی چاہیے تھی نہ ہو سکی۔ میں نے اپنے پاس رکھ لی۔ ایک دو تاریخوں پر درخواست ضمانت میں تاخیر کی کوششیں ہوئیں۔ تاہم بڑی خوش اسلوبی سے درخواست ضمانت منظور کرلی۔ جب دوران بحث کسی نوجوانوں وکیل نے یہ کہنے کی کوشش کے اس ضمانت کے فیصلے سے بنچ اور بار کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں تو ہم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر یہ درخواست بعد از گرفتاری ضمانت بھی سیشن جج نے منظور نہیں کرنی تو پھر سیشن جج کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر ہے وہ کوئی دیگر کام کرے۔ تو سبھی نے یہ فیصلہ سرِ تسلیم خم کر کے قبول کیا۔

 اس وقت مظفرگڑھ بار میں جو نمایاں وکلاء فوجداری اور سول سائیڈ پر پریکٹس کر رہے تھے اور جن کے نام یاد رہ گئے ان میں جنید فاروق وجدانی، شیخ انعام کریم، ندیم شیروانی، واجد نواز خان، سردار منظور احمد، چوہدری ثناءالحق، میاں محمّد شفیع میرالی، شیرخاں کوروزئی، شہزاد فرید لنگڑیال اور میاں مشاہد اصغر وغیرہ شامل تھے۔

 مظفر گڑھ پنجاب کا ایک پسماندہ اور خط ِافلاس سے انتہائی نیچے غربت و پسماندگی کا شکار علاقہ ہے۔ حالانکہ اتنی زرخیز زمین، آموں، کھجوروں اور اناروں کے وسیع و عریض باغات اور پانچ دریاؤں میں گِھرا ہوا ضلع۔ ایسے میٹھے اور رسیلے آم ہم نہ پہلے کبھی چکھے نہ دیکھے۔ سیشن ہاؤس مظفرگڑھ کے وسیع و عریض لان میں دونوں طرف بڑے ہی خوبصورت آموں کے قد آور درخت کھڑے ہیں۔ آموں کے سیزن میں سیشن ہاؤس کے اندر سے ہی اتنے رسیلے آم ملتے تھے کہ اپنے استعمال کے بعد دوست احباب اور رشتہ داروں کو بھی بھیجنے کے لیے کافی تھے ۔مظفرگڑھ ایک بہت بڑا ضلع ہے جس میں مظفرگڑھ، کوٹ اُدّو، علی پور اور جتوئی کی تحصیلیں شامل ہیں۔ اسکی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مظفرگڑھ ہیڈ کوارٹر سے علی پور تحصیل تقریبا 92 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

دو تین دفعہ مظفر گڑھ سے علی پور عدالتوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مظفر گڑھ شہر سے باہر نکلتے ہی سڑک کے دونوں اطراف آم کے خوبصورت اور دلکش باغات، قدآور آموں کے درخت خصوصاً سیزن میں آموں سے لدے ہوئے درخت ایک نہایت دلفریب منظر پیش کر رہے ہوتے۔ راستہ میں خان گڑھ کا قصبہ بھی پڑتا جو مظفر گڑھ کی سیاسی شناخت بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی جنم بھومی بھی ہے۔ بلاشبہ نواب زادہ نصراللہ خان پاکستانی سیاست میں ایک قدآور، مذاکرات سازی کے فن میں یکتا، ایک بے مثل شاعر اور قافلہ حریت کے پاسدار کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔

علی پور تحصیل کا علاقہ شروع ہوتے ہی میلوں تک تا حدِّ نگاہ اناروں کے خوبصورت باغ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہیڈ پنجند جہاں پانچ دریاؤں کا ملاپ بھی ہوتا ہے وہ بھی علی پور شہر سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ علی پور سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر جتوئی تحصیل نئی بنائی گئی ہے۔ جو غالباً “مختاراں مائی” کے مشہور مقدمہ کی وجہ سے جب اس علاقے کو بین الاقوامی شہرت ملی تو اس علاقے میں کئی ترقیاتی کام بھی مجبور کرنا پڑے۔ انٹرنیشنل میڈیا اس مقدمے کو کافی فوکس کیے ہوئے تھا۔ جتوئی شہر کے پاس ہی امریکہ میں مقیم ایک ڈاکٹر صاحب نے کمال کی خوبصورت اور عالیشان ٹرکش طرز تعمیر پر ایک مسجد اپنی گرہ سے تعمیر کرائی ہے۔ جو واقعی قابل دید ہے۔ علی پور میں اُن دنوں بڑے ہی بردبار اور معاملہ فہم رانا محمّد اکرم ایڈوکیٹ صدر اور انتہائی محنتی، قابلِ رشک صلاحیتوں کے مالک جابر خان ایڈوکیٹ سیکرٹری بار تھے۔

  پورے ضلع میں کوٹ ادو کی تحصیل مقابلتاً کاروبار اور زراعت میں دیگر علاقوں سے آگے اور خوش حال ہے۔ یہ کھر برادران اور ان سے پہلے نواب مشتاق گورمانی سابق گورنر کی وجہ سے معروف ہے۔ نواب گرمانی  مرحوم نے تونسہ بیراج جو شہر سے بالکل ملحقہ ہے وہاں ایک خوبصورت کراڑی والا ریسٹ ہاؤس تعمیر کرایا۔ جہاں مجھے بھی اپنی فیملی کے ساتھ ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔ دریائے سندھ کے گہرے اور ٹھنڈے پانیوں میں ملنے والی نایاب نسل کی سندھ ٹراؤٹ فش یہاں وافر دستیاب ہے اور کراڑی والا ریسٹ ہاؤس کا کُک فش تکہ بنانے کا ماہر۔ ایسے لذیز تکّے کہ ان کی لذت اب بھی دل و دماغ اور لعاب و دہن میں ایک سحر طاری کر دیتی ہے۔

مظفر گڑھ میں جہاں سرکاری اور نجی سطح پر بڑی کارآمد اور ملکی معیشت کے لیے مفید مختلف پاور پلانٹس کام کر رہے ہیں جن میں کوٹ ادّو پاور پلانٹ(KEPCO), مظفر گڑھ پاور پلانٹ اور ایک دو اور نجی پاور پلاننٹس جو قابل ذکر بھی ہیں اور قابل دید بھی۔ اسی طرح پاکستان کی سب سے بڑی آئل ریفائنری PARCO بھی اسی ضلع میں قائم ہے جو سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کے دور میں پاک عرب آئل ریفائنری کے نام سے قائم کی گئی جو آج بھی پورے تزک و احتشام کے ساتھ موجود ہے۔ ایک دفعہ اسے اندر سے دیکھنے کا موقع ملا تو یوں گمان گزرا کہ ہم یورپ کے کسی ملک کی سیر پر ہیں۔ اس کا جدید سہولتوں سے آراستہ کلب، جمنیزیم اور ریستوران نا قابلِ یقین حد تک ایک اعلٰی معیار قائم رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بات مسلسل دل و دماغ کو ہچکولے لگاتی رہی اور ہمارے لیے سوہان روح بنی رہی کہ اتنے potential والا ضلع اتنی غربت و افلاس کا منظر کیوں پیش کرتا ہے۔ یہاں بڑی انڈسٹری کیوں نہیں لگ سکتی۔ یہاں سے غربت کا خاتمہ کیونکر ممکن نہ ہے۔ایسے ہی غربت کے ایک واقعہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ جب 9B کے ایک مقدمہ میں ایک نوجوان کو چند ماہ کی قید اور دو ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ قید تو اس کی شاید اگلے روز ہی ختم ہونے والی تھی البتہ عدم ادائیگی جرمانہ میں اسے 15 یوم کی قید بھگتنا تھی۔ فیصلہ کے اگلے روز اس کی بوڑھی والدہ میرے چیمبر کے دروازے پر کھڑی تھی اور اس نے جب یہ کہا کہ وہ چار گھروں میں کام کرکے دو ہزار روپے ماہوار بمشکل کماتی ہے۔ تو ہم نے وہیں اُس سے درخواست لے کر جرمانے کی حد تک سزا کو اس طرح modify کیا کہ یہ رقم ملزم اگلے ایک سال میں جمع کرا سکتا ہے۔ عدم ادائیگی جرمانہ والی سزا کو عملی طور پر relax کرتے ہوئے اس کے جیل سے باہر آنے کا بندوبست کر دیا۔ یہ حکم قانونی طور پر ٹھیک تھا یا غلط۔ یہ بحث طلب معاملہ ہے۔ اس حکم سے دل و دماغ میں ایک راحت کی لہر دوڑ گئی جس کا اثر کافی دنوں تک رہا۔سبھی ہمارے جج صاحبان فیصلہ کرتے ہوئے انصاف کرتے ہیں اور بعض اوقات بڑے مشکل حالات میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا اگر انصاف کے ساتھ احسان بھی کر دیا جائے تو بات دو چند ہو جاتی ہے۔ اللہ بھی راضی اور مخلوق خدا بھی راضی۔ اور پھر ڈھیر ساری دعائیں۔ دل و دماغ میں سکون و راحت نا قابل بیان۔

ستمبر 2012 میں IFC کے زیر اہتمام PC Hotel لاہور میں ADR کے حوالے سے ایک خصوصی کورس میں شرکت کی اور مجھے پنجاب کے پہلے ڈسٹرکٹ جج جسے IFC کی طرف سے ADR میں Certified Master Trainer کی سند ملی جو کہ اللہ تعالٰی کا خصوصی کرم اور میرے لیے قابل فخر اعزاز کی بات تھی۔ میرے علاوہ پنجاب سے دوسرے جوڈیشل افسر سول جج اکلیم رضا تھے۔ اُنہی دنوں بطور چئیرمین ہیومن رائٹس مظفر گڑھ جیسے پسماندہ علاقہ میں بے شمار بے یارو مددگار اور ایسے مظلوم لوگوں کی مدد کی جو وکیل کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ان دنوں یہ اختیارات ڈسٹرکٹ ججز استعمال کر رہے تھے جو بعد ازاں سپریم کورٹ کے فیصلے میں روک دیے گئے۔ صرف ایک مثال دینا کافی ہے کہ کس طرح انصاف کے متلاشی لوگوں کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔ ایک عورت درخواست لے کر ہماری عدالت میں داخل ہوئی کہ اس نے سات سال قبل اپنے خاوند کے خلاف تنیسخ نکاح کا دعوٰی دائر کیا جس میں اس کا خاوند پیش ہوا اور اس نے اپنا بیان قلمبند کرایا کہ اس نے مدعیہ کو طلاق دے دی ہوی ہے اور جج فیملی کورٹ نے ڈگری صادر کرنے کی بجائے دعوٰی لا حاصل ہونے کی بنا پر dispose off کر دیا ہے۔ گزشتہ سات سال سے سیکرٹری یونین کونسل موثّری طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کر رہا جو اسکی دوسری شادی میں شدید رکاوٹ ہے۔ چونکہ اس معاملہ میں فیملی جج کی صریحاً قانون سے لاعلمی اور غفلت بھی شامل تھی کیونکہ کسی عدالتی غلطی کی وجہ سے اس مظلوم عورت کی داد رسی نہ ہو رہی تھی جو اس طرح کی گئی کہ سیکرٹری یونین کونسل کو حکم کی نقل تھماتے ہوئے یہ کہا کہ اسے ڈگری ہی متصّور کرو اور اس پر موثّری سرٹیفیکیٹ جاری کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی اس لیے سرٹیفیکٹ جاری کروایا ۔ اس طرح کے کام عدالتی ضابطوں کے مطابق ممکن نہیں ہوتے پر بطور چئیرمین ہیومن رائٹس ایسا ممکن ہو سکتا تھا۔

مظفرگڑھ قیام کے دوران کوٹ اُدّو بار کا ایک یادگار سالانہ عشائیہ جس میں ملتان بنچ سے بڑے ہی قابل احترام جناب جسٹس رؤف احمد شیخ اور بڑے باوقار جناب جسٹس شاہد وحید صاحب جو بڑے شفیق اور مہربان ہیں اور میری جوڈیشل سروس کے پہلے مگر ایک نامور اور اعلی منتظم رجسٹرار جسٹس عبدالوحید شیخ مرحوم کے فرزند ارجمند بھی ہیں نے خصوصی شرکت فرمائی۔ جو ہمارے لیے بھی بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اسی عشائیہ میں مرحوم سیّد بہادر شاہ ریٹائرڈ سیشن جج سے پہلی ملاقات ہوئی جو جوڈیشل سروس میں اپنے اخلاق و کردار اور حسن زبان و بیان میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام رکھتے تھے۔ اُن دنوں کوٹ ادّو بار کے صدر بڑے ہی مرنجا مرنج اور نرم مزاج جودت ریحان مرحوم اور سیکرٹری بار خوش گفتار و خوش شکل نوجوان عامر گورایہ تھے۔

مظفرگڑھ میں اس وقت ہیڈ کوارٹر پر بڑے وضعدار، اچھے اخلاق و کردار کے مالک زبیر عزیز چیمہ، تعلقات کا بھرم رکھنے والے شوکت محمود، بڑے زیرک، معاملہ فہم اور خوش اطوار جوڈیشل افسر عبدالرحمٰن بودلہ بطور ایڈیشنل سیشن جج کام کر رہے تھے۔ بطور سینئر سول جج بڑے دانشور اور دبنگ ظفریاب چدھڑ جو مظفر گڑھ بار میں بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پھر سول ججوں میں جو نام یاد رہ گئے اُن میں ظفر اقبال، عمران قریشی، اختر عباس خان، سیّد ہدایت اللہ شاہ، عبدالمنان قریشی، یاسر عرفات، ظفر اللہ خان، جاوید لاشاری، عرفان صفدر، احمد خان چٹھہ، محمّد احسن شاہ، جہانزیب امان حفیظ، حافظ ندیم اقبال، رانا اختر اور کچھ دیگر دوست شامل تھے جو ہیڈ کوارٹر اورتحصیلوں میں تعینات تھے۔ سبھی بڑے ہونہار، محنتی اور اچھے اخلاق و کردار کے افسران تھے۔ اسی دوران لاہور ہائی کورٹ میں جناب چیف جسٹس عظمت سعید صاحب کی سپریم کورٹ میں elevation اور اُنکی جگہ بڑے معتدل مزاج، نفیس الطبع، اعلٰی خاندانی روایات کے امین، نیک نام اور با اُصول جناب جسٹس عمر عطا بندیال صاحب عدالت عالیہ لاہور کے چیف جسٹس کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو گئے۔ اُن دنوں عدالت عالیہ کی طرف سے ایک direction چل رہی تھی۔ مظفرگڑھ کے ان سبھی محنتی جوڈیشل افسران نے بڑی جانفشانی سے کام کرتے ہوئے تمام ایسے پرانے مقدمات کو فیصلہ کیا۔ اور ہمیں عدالت عالیہ کی طرف سے اچھی پرفارمنس کا ایوارڈ بھی ملا۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ان دنوں مظفرگڑھ کے انسپکشن جج بڑے ہی خلیق، وضع داری میں بے مثال اور عاجزی و انکساری کا پیکر جناب جسٹس الطاف ابراہیم قریشی تھے۔ جنہوں نے ہر موقع پر ہماری رہنمائی کی۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ جب 2 جنوری 2013 کو میں نے مظفرگڑھ سے چار ج چھوڑنا تھا تو جناب جسٹس الطاف ابراہیم قریشی صاحب نے مظفرگڑھ آنے کی خواہش ظاہر کی اور سیشن ہاؤس کے خوبصورت لان میں ہونے والی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی طرف سے دیئے گئے پُرتکلف الوداعی عشائیے میں شرکت کی۔ خوبصورت تقریر کی اور ہمیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا کہ اپنے پاس جواب کے لئے مناسب الفاظ بھی میسر نہ تھے۔ ایسے نادر لوگ قسمت سے ہی ملتے ہیں۔

مظفرگڑھ کے میرے عرصہ تعیناتی میں اولاً بڑے ذہین و فطین اور دبنگ طاہر خورشید ڈی۔سی۔او تھے۔ جو ہمارے محترم ریٹائرڈ جسٹس مرحوم چوہدری خورشید صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ اس لیے مزید قابل احترام ٹھہرے۔ ان کے بعد بڑے ہی وضعدار، نرم خُو اور اعلی قدروں کے حامل ابرار مرزا ڈی۔سی۔او مظفرگڑھ تعینات ہوئے۔ اس پورے عرصہ کے دوران ایک عبادت گزار، صاف ستھرے اور پروفیسشنل ڈی۔ پی۔او ذیشان اصغر تعینات رہے۔ ان سب لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بڑے ہی برادرانہ اور خوشگوار رہے۔

مظفر گڑھ سے تبادلے پر مظفرگڑھ بار کی طرف سے ایک پرُ تکّلف اور شاندار الوداعی دعوت کا اہتمام اور اُس میں کی گئیں خوبصورت تقاریر جن میں نوجون وکیل اور ہر دلعزیز وکلاء لیڈر ممبر پنجاب بار کونسل جام یونس کی تقریر سب سے نمایاں تھی_ اسی روز مظفرگڑھ بار روم میں میرے نام کی ایک یادگار تختی بھی نصب کی گئی_ جو بار کی میرے ساتھ والہانہ محبت، چاہت اور پیار کی علامت کے طور پر یاد رہے گی_ میرے لیے وہ لمحات ایک جذباتی کیفیت پیدا کر رہے تھے جب مظفرگڑھ بار کے تقریبا 600/700 وکلاء مجھے باہر سڑک پر میری گاڑی تک چھوڑنے کے لئے آرہے تھے۔ عجب خوش کن مگر دلفریب لمحات تھے۔ جذبات پر قابو رکھنا مشکل تھا۔ بارز میں اس طرح کی وضع داریاں تھیں۔ ہم نے دیکھیں اور ستائش کی۔ مگر آہستہ آہستہ ان سب کو نظر لگ گئی بہر حال اگلا پڑاؤ بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ کی نگری تھی۔ جہاں بابا جی کی محبت کھینچ لے آئی۔ اسکا تفصیلی تذکرہ انشااللہ آئیندہ۔