درد اور سوز کی علامت عطا اللّٰہ خان عیسیٰ خیلوی.

(تحریر: ڈاکٹر فرح ناز راجہ )


دل لگایا تھا دل لگی کےلیے
بن گیا روگ زندگی کےلیے

ہزاروں دلوں کی دھڑکن،کراچی سے خیبر تک ہر طبقۂ زندگی میں یکساں مقبول، موسیقی کی دنیا کے بےتاج بادشاہ، “لالہ” کے نام سے شہرت پانے والے درد اور سوز کی علامت عطا اللّٰہ خان عیسیٰ خیلوی بلاشبہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ موجودہ دور کی تینوں نسلوں میں وہ جانے اور مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کا نام ساری دنیا میں روشن کیا ہے۔
عیسیٰ خیلوی عیسیٰ خیل ، میانوالی ، صوبہ پنجاب ، پاکستان میں عطا اللہ خان نیازی کے نام سے پیدا ہوئے تھے۔ نیازی ایک آبادی والا پشتون قبیلہ ہے جو پاکستان کے شمال مغربی صوبہ پنجاب اور افغانستان کے مشرقی علاقوں میں مقیم ہے۔ عطا اللّٰہ نے میڑک تک تعلیم عیسیٰ خیل سے حاصل کی پھر فیصل آباد سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ بیچلر آف آرٹس کی ڈگری انہوں نے پرائیویٹ حاصل کی۔


عطا اللہ کو بچپن ہی سے موسیقی میں دلچسپی تھی ، لیکن ان کے گھر میں موسیقی پر سختی سے ممانعت تھی۔اپنے گھر میں موسیقی پر پابندی کے باوجود ، عطا اللہ نے چپکے سے موسیقی کی مشق کرتے اقر اپنا شوق پورا کرتے تھے۔ ان کے اسکول کے اساتذہ نے انہیں محمد رفیع اور مکیش کے گیت سکھائے اور کہا کہ کبھی گانا بند نہ کرنا۔ عطااللہ نے اپنے والدین کو موسیقی کے جذبے کو سمجھانے کی کوشش کی اور انہیں راضی کیا کہ وہ انہیں گانا گانے کی اجازت دیں مگر والد پٹھان اور سخت مزاج تھے انہوں نے کہا میں نیازی خاندان کا نام برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور انہوں نے عطا اللہ کو گانا جاری رکھنے سے منع کردیا۔
مایوسی کا شکار ، عطا اللہ جب اس کی عمر 18 سال تھی تو گھر چھوڑ دیا۔ جس پر ان کے والد نے انہیں عاق کر دیا اور وہ لاہور چلے آئے اور ایک ہوٹل میں ملازمت کرلی جہاں پر شام کے وقت موسیقی کی محفل ہوتی تھی۔ وہ ہوٹل لبرٹی لاہور کے قریب تھا جہاں سے میڈم نور جہاں کی گاڑی گزرتی تو عطا اللہ اسے دیکھنے ضرور جاتے تھے۔ پھر انہوں نے کراچی کا رخ کیا اور مہاجر کیمپ میں 10 روپے ماہانہ پر کمرہ لیا۔ 1971 کی جنگ میں جب ملکی حالات کشیدگی کا شکار ہوئے تو ان کا کمرہ مسرور ائیر بیس کے قریب تھا اور کئی بار بمباری ہوئی تو وہ خوف زدہ ہو گئے اور راولپنڈی چلے آئے۔ یہاں انہوں نے ٹرک ڈرائیور کا کام شروع کیا اور بجری سے بھرے ٹرک کو اسلام آباد لے کر جاتے تھے اس دوران انہوں نے رکشہ بھی چلایا مگر ان سب مشکلات کے باوجود موسیقی نہ چھوڑی۔ اس زمانے میں آڈیو ٹیپ ریکارڈر مقبول ہو رہے تھے ان کے دوست اور جاننے والے ان کی آواز کو ریکارڈ کر لیتے تھے۔ اسی دوران ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور اس ہیرے کو ایک جوہری مل گیا، انکی آواز رحمت گرامو فون کمپنی کے مالک تک پہنچی تو ان کو بلایا گیا اور ان کو آڈیو گانے کی پیشکش ہوئی تو انکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور پھر انہوں اپنا مشہور زمانہ گانا

“ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا”

ریکارڈ کروایا۔ اس گانے نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کا ریکارڈ ہے کہ انہوں نے ایک دن میں چار البمز ریکارڈ کروائے اور یہی ان کا بریک تھرو تھا۔ ان کے گانے ٹرک ڈرائیوروں سے مشہور ہوتے ہوئے کاروں اور پھر میوزک لائبریری کا حصہ بنے۔ انہوں نے 50000 سے زیادہ گانے گائے۔ جن میں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ریکارڈ بزنس کیا۔ اور ابھی تک مقبول ہیں۔

قمیض تیڈی کالی نی سوہنے پھلاں والی
وے بول سانول نہ رولیں سانوں
پیار نال نہ سہی غصے نال ویکھ لیا کر
اے تھیوا مندری دا تھیوا
چھلا میڈا جی ڈھولا
محبت کی قیمت ادا کیا کریں گے
دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
سب مایا ہے سب مایا ہے
چن کتھاں گزاری ہائی رات وے
کنڈیاں تے ٹر کے آئے
اللّٰہ کریسی چنگیاں

ایک وقت آیا کہ چائے خانے، ہوٹل، بس، ٹرک ہر جگہ عطا اللہ کے گانوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔ ان کا ہر البم ریکارڈ بزنس کرتا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا۔ ان کو ٹیلی ویژن پر ان کے ایک دوست نے متعارف کروایا جو پینٹ کمپنی کے مالک تھے اور وقت کے مشہور پروگرام نیلام گھر کو سپانسر کرتے تھے۔ انہوں نے پروگرام کی انتظامیہ سے کہا کہ ان کو موقع دیا جائے اور یوں 1973 میں انہوں نے نیلام گھر میں پرفارم کرکے سب کے دل جیت لیے یوں ان کا شاندار کریئر بلندیوں پر پہنچا اور ان کی شہرت ہندوستان کے ساتھ ساتھ کئی ممالک تک پہنچ گئی۔


عطا اللہ نے جنوبی پنجاب کی مشہور زبان سرائیکی اور پنجابی میں گانے گا کر ملک کی بڑی آبادی کواپنا گرویدہ بنا لیا۔
ان کے شاندار میوزک کیرئیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کو 1991 میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور 2019 میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ ملکہ الزبتھ دوئم نے ان کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ 1994 میں انکا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں سب سے زیادہ آڈیو البمز ریکارڈ کروانے پر شامل ہوا۔وہ دوسرے پاکستانی ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا اس سے پہلے فلمسٹار سلطان راہی کا نام شامل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کوک سٹوڈیو سیزن 2 اور پھر سیزن 10 میں بھی شرکت کی اور اپنی محبت بھری آواز میں گانے گائے۔
انہوں نے ایک برٹش نژاد لڑکی سے شادی کی جن سے انکا ایک بیٹا بھی ہے پھر انہوں نے وقت کی مشہور فلم سٹار بازغہ سے شادی کی ان کے چار بچے ہیں جن میں سے ان کے بیٹے سانول الیکٹرک انجینئر ہونے ساتھ ساتھ اچھا گلوکار بھی ہیں اور اپنے والد کے ساتھ کوک سٹوڈیو میں پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اور بیٹی لاریب نے ہالی وڈ کی فلموں میں کام کیا ہے۔ ایک بیٹا بلاول عطا اداکار و ہدایت کار ہیں ان بے انگلینڈ سے تعلیم یافتہ ہیں۔
گھر سے بے گھر ہونے کا دکھ حالات کی سختی اور محبت کی ناکامی نے ان کی آواز میں ایسا درد پیدا کیا کہ سننے والوں کے دل پر اثر کرتا۔ ان کا مخصوص لب و لہجہ اور شلوار قمیض کے ساتھ کندھے پر چادر اور پشاوری چپل ان کی پہچان بن گیا انہوں نے اپنی ثقافت کو ہمیشہ پذیرائی بخشی۔
انہوں نے دنیا کے تمام بڑے ممالک میں پرفارم کیا ہے۔ وہ عمران خان کے پرستار ہیں ان سے محبت کا اظہار انہوں نے تحریک انصاف کےلیے مشہور گانا “جب آئے گا عمران سب کی جان” گا کر کیا۔
آج کل ان کی صحت خراب ہے ان کا علاج جاری ہے اور کچھ لوگ انکی وفات کی جھوٹی خبریں پھیلا کر ان کو دکھی کر رہے ہیں۔ ہم ان کی جلد صحت یابی کےلیے دعا گو ہیں اللّٰہ پاک ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے (آمین ثم آمین)