بابائے پشتو صحافت‘ پیر سفید شاہ کا انتقال


تقریباً 70 سال تک صحافت سے وابستہ رہنے والے پیر سفید شاہ نے پہلا پشتو روزنامہ وحدت نکالا۔ وہ ہمیشہ ’افغان جہاد‘ کی ریاستی پالیسی کے حامی رہے۔

اظہار اللہ نامہ نگار، پشاور Izhar2u@

خیبر پختونخوا میں پشتو صحافت کو فروغ دینے والے پشتو روزنامہ وحدت کے مدیر اور آل پاکستان نیوز پیرز سوسائٹی کے سابق صدر 95 سالہ پیر سفید شاہ ہمدرد منگل کو پشاور میں انتقال کرگئے ۔

پیر سفید پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں 1930 میں پیدا ہوئے۔ تقریباً 70 سال تک صحافت سے وابستہ رہنے والے پیر سفید کو حکومت پاکستان نے دو مرتبہ صدارتی ایوارڈز، تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازا۔ حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ان کی خدمات پر انہیں ایک گولڈ میڈل بھیجا تھا۔

پیر سفید کو ’بابائے پشتو صحافت‘ کہا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے خیبر پختونخوا میں پشتو کے مکمل اخبار کا اجرا کیا اور اسی کے ذریعے وہ پشتو صحافت کو فروغ دیتے رہے۔

روزنامہ وحدت 1985 میں اردو زبان سے پشتو زبان میں تبدیل کیا گیا اور اس کو باقاعدہ روزنامے کی شکل دی گئی۔ پشاور کے سینیئر صحافی اور 1988 میں اس روزنامے میں پیر سفید شاہ کے ساتھ کام کرنے والے روخان یو سفزئی نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وحدت اخبار کی اس وقت کی پالیسی ریاستی پالیسی تھی اور وہ افغان جہاد کی مکمل حمایت کرتے تھے۔

انھوں نے ایک واقعے شیئر کیا کہ ایک خبر میں انھوں نے ‘افغان جہاد’ کو ‘افغان جنگ ‘ لکھ دیا تھا جس پر پیر سفید نے ان کو بتایا تھا کہ ریاستی طور پر اسے جہاد مانا جاتا ہے لہٰذا ہم خبر میں اس کو جنگ نہیں لکھ سکتے۔ انھوں نے بتایا ’اصل میں اس وقت ہماری ریاست کی یہی پالیسی تھی اور پیر سفید ہمیشہ ریاستی پالیسی کے حمایتی رہے۔‘

روخان نے پیر سفید کے اظہار رائے کی آزادی کے لیے کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے اظہار رائے کے حمایتی ہونے کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ ان کے اخبار کا جو بھی بیانیہ تھا لیکن ان میں مختلف مکتب فکر اور مختلف سوچ کے حامل افراد مضامین لکھتے تھے۔ روخان کے مطابق پیر سفید نرم مزاج، غرور نہ کرنے والے اور بہت کم غصہ ہوتے تھے، انہوں نے کبھی اپنے اخبار کے ورکرز کو یہ احساس نہیں دلایا کہ وہ مالک ہیں۔

شمیم شاہد کا شمار پشاور کے ان سینیئر صحافیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ‘افغان جہاد’ کو کور کیا۔ انھوں نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیر سفید روزنامہ وحدت سے پہلے 70 کی دہائی میں آل وحدت کے نام سے ہفت روزہ اخبار کے مالک تھے۔ ان کے مطابق جب افغان پناہ گزین ‘افغان جہاد’ کے بعد پشاور آئے تو اسی چار صفحات پر مشتمل اخبار میں افغانوں کے حوالے سے بہت خبریں چھپیں، جنہیں افغان پناہ گزین شوق سے پڑھتے تھے۔

شاہد کے مطابق ان کو بابائے پشتو صحافت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں خیبر پختونخوا میں پشتو کے مجلے جس میں ہیوا د اور پشتون ہوا کرتے تھے دراصل ادبی مجلے تھے لیکن پیر سفید نے پشتو کا پہلا روزنامہ وحدت کا اجرا کیا جس میں ادبی مضامین سمیت خبریں ہوا کرتی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان سمیت افغانستان میں بھی یہ پشتو کا واحد روزنامہ تھا جس میں ادبی مضامین سمیت روزانہ خبریں چھاپی جاتی تھیں۔شاہد کے مطابق پیر سفید اخبار کارکنان کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتے تھے اور ان کے اخبار میں کام کرنے والے ہر ایک شخص کو ان کے کام کے مطابق معاوضہ ملتا یعنیٰ اداریہ لکھنے والے کو الگ، کالم لکھنے والے کو الگ اور اسی طرح خبریں لکھنے والوں کو الگ پیسے ملتے تھے۔

WhatsApp Image 2020-11-24 at 7.25.15 PM.jpeg
جنرل ضیا الحق سے ایک ملاقات کے دوران (تصویر اہل خانہ)

پیر سفید شاہ کا ضیا الحق سے تعلق

پیر سفید شاہ فوجی آمر ضیا الحق کے بہت قریب تھے، جس کی وجہ اس وقت کے صحافیوں کے مطابق یہ تھی کہ ان کا اخبار ‘افغان جہاد ‘ کے حوالے سے ریاستی بیانیے کا حامی تھا اور وہ حکومتی بیانیے کو کوریج دیتے اور مثبت خبریں چھاپتے۔

اسی قربت کی وجہ سے 1987 میں ضیاالحق روزنامہ وحدت کی ایک سالگرہ میں بطور مہمان خصوصی آئے اور اخبار کے لیے نقد روپوں کا اعلان بھی کیا، جس سے کئی عرصے تک اس اخبار کے اخراجات چلتے رہے۔ اسی ریاستی بیانیے کی حمایت کی وجہ سے ان کا اخبار افغانستان میں بھی بہت مقبول تھا اور وہاں سے بھی لوگ اس اخبار میں مختلف مضامین چھپنے کے لیے بھیج دیتے تھے۔

پیر سفید کے بیٹے ہارون شاہ نے ایک انٹرویو میں روزنامہ وحدت کے بارے میں بتایا کہ جب 1985 میں اسے پشتو زبان میں تبدیل کیا گیا تو اس کو بڑی پذیرائی ملی اور اسی اخبار کے بدولت پشتو کے نئے شعرا اور ادیب سامنے آگئے جو باقاعدہ اس اخبار میں مضامین لکھتے تھے۔

شاہ نے بتایا کہ ان کے والد پیر سفید پشتو کے شاعر تھے اور پشتو زبان سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سوچ کی وجہ سے اس اخبار کا اجرا کیا گیا جبکہ اخبار کی پالیسی ہمیشہ غیر جانب دار رہی۔

پیر سفید کے بڑے بیٹے سید رحم دل شاہ نے، جو روزنامہ وحدت کے 30 سال تک مدیر رہے، انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد نے ہمیشہ پاکستان اور افغانستان میں وجود پشتونوں کی خدمت کی ہے اور اب وہ ان کا مشن آگے لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے

—————–https://www.independenturdu.com/node/53316————