یں نے پٹیشن سے نام کیوں واپس لیا؟

پچھلے دنوں میں نے ایک پٹیشن سے نام واپس لے لیا جس پر طرح طرح باتیں بنیں۔ آج اسی کے بارے میں حقائق آپ کی خدمت میں رکھ رہی ہوں۔

نسیم زہرہ سینیئر صحافی، مصنفہ NasimZehra@

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چار روز قبل کے Absconder rights کے حوالے سے ایک پٹیشن دائر ہوئی تھی جس پربہت سے جائز سوالات اٹھے، کچھ مہمل باتیں کی گئی ہیں اور عادتاً میر جعفر جیسے لغو القابات استعمال کیے گئے۔

یہ پٹیشن پی ایف یو جے، ہیومن رائٹس آف پاکستان اور مجھ سمیت کئی صحافیوں کی جانب سے دائر کی گئی جس سے مجھ سمیت کئی صحافیوں نے اسے واپس لے لیا، جس کے بعد یہ باتیں پھیلائی گئیں کہ یہ لوگ اس لیے پیچھے ہٹے ہیں کچھ دباؤ آ گیا ہو گا۔ میں نے سوچا اسی بارے میں کچھ حقائق آپ کے سامنے پیش کر دوں۔

‎آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ پٹیشن کس طریقے سے فائل کی گئی۔ کچھ ہفتوں پہلے نجم سیٹھی صاحب نے فون کیا اور کہا کہ میڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے ہمیں کچھ فائل کرنا چاہیے کہ چینل کیا دکھا سکتے ہیں کیا نہیں دکھا سکتے اور اس کے بعد جو صحافیوں کے ساتھ ہو رہا ہے کہ صحافیوں کو اٹھایا جا رہا ہے، یا چینل بند کیے جا رہے ہیں اور مختلف طریقے کی قدغنیں لگائی جاتی ہیں کہ پی ٹی ایم پر بات نہیں ہو سکتی، ٹی ایل پی پر بات نہیں ہوسکتی اور میڈیا پرغداری یا ہندوستانی ایجنٹ کی تہمتیں لگانا وغیرہ۔

اس پر ہم ہمیشہ موقف لیتے ہیں۔ میں اپنے پروگراموں میں موقف لیتی ہوں، اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایسی ہر کوشش کا حصہ بنی اور یہ بڑی واضح بات ہے اس میں تو کوئی کمپرومائز ہو ہی نہیں سکتا اور جہاں جہاں جہدوجہد ہو اس حوالے سے اظہار کی آزادی کے معاملے اور ذمہ دارانہ صحافت کے لیے ضرور کھڑے ہوں گے۔ اگر صحافیوں کو بے بنیاد پراپیگنڈا کر کے انڈین ایجنٹ یا غدار کہا جائے اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے، چاہے پیمرا کرے چاہے پیمرا کے پیچھے چھپی حکومت کرے یا اسٹیبلشمنٹ کرے، ہم اس کے خلاف بولیں گے، بولتے ہیں اور بولتے رہیں گے۔

یہ بات واضح رہے کہ تاریخ، بین الاقوامی امور اور پاکستانی سیاست کے حوالے سے میرا جو مشاہدہ ہے اور قائداعظم کے پاکستان پر میرا ایمان ہے، اس کی بنا پر میں ایشوز پر ہمیشہ پوزیشن لوں گی البتہ بحیثیت صحافی ہر مسئلے کے ہر پہلو کو لوگوں کے سامنے لانا میری ذمہ داری ہے

‎بہرحال تو اس پر یہ بات ہوئی کہ ایک پٹیشن دائر ہونی چاہیے اور جب نجم سیٹھی صاحب نے کہا تو ہم نے کہا کہ بالکل ہم بھی اس کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد پانچ چھ روز پہلے نجم سیٹھی صاحب کی طرف سے ایک دو فون آئے کہ پٹیشن بالکل تیار ہے تو حلف نامہ اور وکالت نامہ آپ کو بھیجنا ہے اس پر دستخط کر دیں۔ میں نے کہا کہ میں لاہور میں اپنے بھانجے کی شادی میں ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ کہاں بھیجیں؟ میں نے بتا دیا تو وکالت نامہ بھی آ گیا اور حلف نامہ بھی آ گیا۔ حلفہ نامہ آپ جانتے ہیں کہ ایک ڈاکیومنٹ ہے، مختصر حلف نامہ بھی ہو سکتا ہے اور تفصیلی بھی، مختصر حلف نامہ وہ ہوتا ہے جو آپ حلف دے رہے ہیں کہ اس پٹیشن میں جو کچھ ہے وہ درست ہے اور میں سپورٹ کرتا ہوں یا کرتی ہوں اور دوسرا یہ کہ لمبا حلف نامہ ہوتا ہے جس میں پٹیشن کا مواد بھی لکھا جاتا ہے۔

ہمارے پاس ایک مختصر حلف نانہ اور ایک پاور آف اٹارنی آیا۔ وہ میں نے سلمان اکرم راجہ صاحب کے دفتر سے منگوایا اور میں نے ان دونوں دستاویزات پر دستخط کیے اور بھجوا دیے۔ پھر نجم سیٹھی صاحب کو فون کیا جو انہوں نے ریسیو نہیں کیا تو انہیں وائس میسج بھیجا جس میں ان کو بتایا کہ میں نے وکالت نامے اور حلف نامے پر دستخط کر کے بھیج دیے ہیں، لیکن میں پٹیشن فائل کرنے سے پہلے ایک مرتبہ دیکھنا چاہتی ہوں۔

ان کا بھی جواب آ گیا کہ سلمان اکرم راجہ اس پٹیشن کو فائنل کر کے آپ کو بھیج دیں گے۔ پھر ایک دن کے بعد شام میں میں نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر کچھ چل رہا ہے کہ کچھ صحافیوں نے نواز شریف کی آزادیِ اظہار کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کی ہے اور اس میں میرا نام بھی تھا۔

اس پر مجھے حیرانی ہوئی۔ میں نے اپنا فون چیک کیا تو اس میں نجم سیٹھی صاحب نے پٹیشن کی کاپی مجھے وٹس ایپ پر بھیجی ہوئی تھی۔ نجم سیٹھی صاحب نے میرے مانگنے کے کچھ گھنٹوں بعد جیسے ہی پٹیشن تیار ہوئی مجھے بھیجی تھی، لیکن فون نہیں آیا تھا۔ میں مصروف تھی اس لیے وٹس ایپ چیک نہیں کیا۔

اب جو وٹس ایپ دیکھا تو وہ پیٹیشنAbsconders rights کے حوالے سے تھی اور اس میں بہت سے قانونی نکات اٹھائے ہوئے تھے۔ جو ہماری بات چیت تھی وہ میڈیا کے حوالے سے تھی وہ تو اس میں نہیں تھا لیکن یہ پٹیشن Absconders rights کے حوالےسے تھی ان کے حقوق کیا ہیں اور Prayers یہ تھی کہ پیمرا کے جو ایک دو آرڈیننس تھے ان احکامات کو ختم کیا جائے اور ان احکامات کو اگر ختم کیا جاتا ہے تو اس سے فائدہ براہ راست نواز شریف کو ہوتا۔

مجھے یہ درست نہیں لگا کہ ایک فرد واحد کے لیے کیوں پیٹشن فائل ہو، ہماری بات چیت تو میڈیا کے لیے تھی جس کو ہٹا کر ایک فرد واحد کے لیے کردیا گیا جس کا براہ راست فائدہ فرد واحد کو پہنچ رہا تھا۔

میں یہ بتاتی چلوں کہ میاں نواز شریف کے حوالے سے جو ان پر پابندی لگائی ان کی تقاریر وغیرہ پر تو اپنے پروگراموں اور ٹوئٹر پر بھی مسلسل میں نے کہا ہے کہ یہ ڈبل سٹینڈرڈ ہیں۔ پرویز مشرف کو بولنے دیا ان کے انٹرویوز آتے رہے ہیں۔ ماضی میں احسان اللہ احسان اور سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کے انٹرویو یا اقبالی بیان نشر کیے گئے ہیں۔ اس پٹیشن کو اس پیرائے میں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بات پبلک کی جانی چاہیے یا نہیں۔ یہ جائز سوال ہے اور اس پر قانونی بات اٹھانا بنتا ہے۔

یقینا آج کے حوالے سے جو سوال ہے وہ ایچ آر سی پی کا اٹھانا بنتا ہے۔ اس سے قبل بھی ایچ آر سی پی اس ملک کا ضمیر بن کر اس ملک کے ہر طبقے کا سوال اٹھاتی رہی ہے یا پھر وہ صحافی جو سمجھیں کہ یہ بات اٹھانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ پٹیشن جس اس کا تعلق فرد واحد سے ہے تو یہ ایشو میڈیا فریڈم کی پٹیشن میں بہت سے ایشوز میں ایک ایشو ہو سکتا ہے، لیکن میرے خیال میں میڈیا فریڈم کی پٹیشن اس ایک ایشو پر مبنی نہیں ہونی چاہیے اور یہ بات حتمی نہیں ہو سکتی۔ یہ پوزیشن ہم لیتے رہے ہیں ان پلیٹ فارمز پر جہاں میں پوزیشن بحیثیت صحافی لے سکتی ہوں۔

بہرحال جب میں نے یہ پڑھا کہ اسے صرف فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور بحیثیت صحافی مجھے لگا کہ میں یہ نہیں کرنا چاہتی اور وسیع تر مفاد میں ہوتا تو میں کرتی، میں نے فوری نجم سیٹھی صاحب کو میسج کیا کہ ہماری تو بات وسیع تر معاملات پر ہوئی تھی لیکن اس کو فرد واحد تک مخصوص کر دیا گیا ہے تو میں اس سے نام واپس لے رہی ہوں۔

پھر میں نے اپنا نام واپس لے لیا اور جمعرات 19 نومبر کی شام کو دستخط کر کے سلمان اکرم راجہ صاحب کو بھیج بھی دیا ان کے دفتر سے جو withdrawal document تھا وہ منگوایا اور اگلے ہی دن یعنی جمعے کی صبح اس کو میں نے ٹویٹ کر دیا کہ میں اس پٹیشن کا حصہ نہیں ہوں۔

اس کے بعد بہت سے سوالات اٹھے جس کے بعد میں نے سوچا کہ یہ حقائق آپ کے سامنے پیش کر دوں تاکہ آپ سب کو جواب مل جائیں۔

آخر میں میں بتانا چاہتی ہوں نہ کسی کا فون آیا اور نہ کسی کا دباؤ تھا اور جس کا یہ کہنا ہے کہ کسی طرح کا دباؤ پڑا تو وہ ضرور اس پر حقائق سامنے لائے۔

https://www.independenturdu.com/node/53071