‘اب تک 200 سے زائد سیاحوں کو مہمان بنا چکا ہوں’

‘ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے سیاح خواتین و حضرات کو یا تو فائیو سٹار ہوٹل میں رہنا ہوتا ہے، اگر تو وہ اتنے مہنگے ہوٹل میں رہنے کے متحمل نہ ہوں تو انہیں پولیس اسٹیشن کے علاوہ کہیں جگہ نہیں ملتی۔’
سلمان درانی

ابوزر فرقان ایک سیاح ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں، ایک ملاقات میں ہم لاہور کے ایک مقامی ریستوران میں بیٹھے بوسنیا سے آئے جوڑے کا انتظار کررہے تھے، اس جوڑے کو آنے میں ابھی وقت تھا تو سوچا کچھ باتیں کرلی جائیں۔

ابوزر، کیسا تجربہ رہا اب تک گھومنے پھرنے کے حوالے سے، کہاں کہاں جا چکے ہیں؟

زبردست۔ ابھی تک تو بہت اچھا رہا ہے۔ میں پاکستان سمیت کئی ممالک گھوم چکا ہوں۔ جن میں ملائشیا، ترکی، قطر، سنگاپور، تھائے لینڈ اور بھی کئی۔ مجھے سب سے زیادہ پسند آنے والا ملک ترکی ہے، اس کی خاص وجہ یہ کہ میں نے جتنے بھی ممالک گھومے ہیں، ترکی مجھے ایک ایسا ملک ملا جہاں پاکستانیوں کو عزت دی جاتی ہے۔

اتنے ممالک گھومنے کے بعد پاکستان کو کہاں پاتے ہیں؟

میرے ملک پاکستان کو ابھی سیاحت کے محکمے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے ہاں جو لوگ مہمان بنتے ہیں میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ انہیں کیا مشکلات پیش آئی ہیں، تو کچھ کی شکایت ہوتی ہے کہ ہمیں کچھ علاقوں میں ٹھیک سے گھومنے نہیں دیا جاتا۔ کچھ خوبصورت علاقے سیکیورٹی رسک ہوتے ہیں اور کچھ میں غیر معلوم وجوہ کی وجہ سے ہمارے جانے پر پابندی ہوتی ہے۔ کچھ میں جائیں تو ہمارے ساتھ سیکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہم کھل کر گھوم بھی نہیں سکتے۔

مثال کے طور پر ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے سیاح خواتین و حضرات کو یا تو فائیو سٹار ہوٹل میں رہنا ہوتا ہے، اگر تو وہ اتنے مہنگے ہوٹل میں رہنے کے متحمل نہ ہوں تو انہیں پولیس اسٹیشن کے علاوہ کہیں جگہ نہیں ملتی۔

اچھا آپ نے کہا کہ سیاحوں کو جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں مشکلات پیش آتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اگر سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے یا کسی علاقے میں جانے سے منع کیا جارہا ہے تو اس میں برا کیا ہے؟

دیکھیں سیاحوں کی رائے میں گھومنا کچھ اور ہوتا ہے، وہ ایک آزاد پرندہ ہوتے ہیں اگر تو آپ انہیں مواقع نہیں دے پا رہے اس کا مطلب ہے آپ کا ملک محفوظ نہیں ہے۔ آپ کو ملکی سیکیورٹی پر مزید کام کرنا چاہیئے۔ آپ سیاحت کو تبھی فروغ دے سکتے ہیں جب آپ کے ملک کی سیکیورٹی صورتحال اس کی متحمل ہو۔

آپ کیسے ان سیاحوں سے رابطہ کر پاتے ہیں؟ اور کیسے ان کو مہمان بنا لیتے ہیں؟

ٹیکنالوجی کے دور میں مختلف رابطوں کے ذریعے بن گئے ہیں۔ مختلف موبائل ایپلیکیشنز میں سے ایک سیاحوں کے سماجی رابطے کی ایپلیکیشن بھی ہے جس کے ذریعے سیاح ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ میں اس ایپ کے لیے پاکستان کا سفیر بھی ہوں اس لیے میں اس ایپ کے ذریعے سے پاکستان آنے والوں کو مہمان بنا سکتا ہوں۔

دراصل اس ایپ کا مقصد مقامی سیاحت کو فروغ دینا ہے۔ ہم جن فیملیز، خواتین و حضرات کو مہمان بناتے ہیں ان کو اپنے ملک کے بارے میں اور ایسی جگہوں سے، کھانوں سے اور کلچرز سے متعارف کرواتے ہیں جو انٹرنیٹ پر نہیں ہوتے۔

فرض کریں مجھے ترکی جانا ہے، اور میں نے وہاں کسی سیاح دوست کے ہاں مہمان بننا ہے تو یہ کیسے ممکن ہو گا؟

بہت آسان ہے، ترکی میں ہماری ایپلیکیشن کو استعمال کرنے والے بیشمار ہیں۔آپ کو اس ایپلیکیشن کو ڈاؤن لوڈ کرنا ہے، اس پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہے اور اپنے سفر سے متعلق وہاں ٹرپ بنائیں جو کہ پبلک ہوگا۔

آپ وہاں پہنچنے کی تاریخ اور کتنے دن ٹھہرنا ہے، یہ سب درج کریں گے۔ اس سے یہ ہوگا کہ متعلقہ علاقے میں رہنے والے ایپلیکیشن کے صارفین آپ کی وہ پوسٹ دیکھیں گے اور اپنے معمول کے مطابق آپ کو مہمان بنانے کی پیشکش کریں گے۔آپ خود بھی کسی مہمان کو منتخب کرکے ان سے مہمان نوازی کی گزارش کرسکتے ہیں۔
یہاں مہمان نوازی سے مطلب کیا ہے؟

مختلف طریقہ کار ہے۔ کچھ لوگ بیچلر رہ رہے ہوتے ہیں اور کچھ اپنے خاندان کے ساتھ۔ اسی حساب سے کچھ لوگ آپ کو رہنے کی جگہ فراہم کرنے کی حامی بھرتے ہیں اور کچھ صرف چائے پینے، کھانے ساتھ کھانے اور گھومنے پھرنے کی آفر کرتے ہیں۔ اس طرح سے یہ ایک دوست ایپلیکیشن ہے جو آپ کے سفری مسائل حل کرتی ہے۔

اس کا مطلب ہے دنیا میں اس ایپلیکیشن کے ذریعے سے بہت سے لوگ اصل میں مل رہے ہیں؟

ہاں دنیا میں اس ایپلیکیشن کی شہرت بہت اچھی ہے اور اس کی وجہ سے سیاحت کو عالمی طور پرفروغ ملا ہے۔

آپ نے اب تک کتنے سیاحوں کو مہمان بنایا اور کیسا تجربہ رہا؟

صرف غیر ملکیوں کی بات کروں تو اب تک دو سو سے زائد سیاح میرے ہاں ٹھہر چکے ہیں۔ پاکستانی دوست اکثر دوسرے شہروں سے آکر میرے پاس ٹھہرنا پسند کرتے ہیں۔ سیاحوں کے ساتھ میرے اس دوستی کے رشتے کو بنے کئی سال ہوچکے ہیں۔ خوشی محسوس کرتا ہوں جب میں ایک پاکستانیت کے جذبے سے اپنے ملک کی چھوٹی سی خدمت بھی کررہا ہوتا ہوں اور ساتھیوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ سیاحوں کو ملک کا ہر کونا دکھائیں، ہمارا ملک قدرتی رعنائیوں سے بھرا پڑا ہے، یہاں کا کلچر بھی منفرد پہچان رکھتا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے کن کن گنجائشوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟

سب سے پہلی اور فی الفور حل کی جانے والی چیز ہوٹل مافیا کی اجارہ داری ہے۔ ہنزہ ویلی میں، مری میں اور کئی مقامات پر سیاحوں کے ساتھ واقعات پیش آ چکے ہیں جس کے نتیجے میں سیاح پاکستان سے بدظن ہوسکتے ہیں۔

اس قدر حالات خراب ہیں کہ سیاح رات گاڑی میں گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔میں نے سوات میں گزشتہ ہفتے غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ایسا ہوتے دیکھا اور ان کو اپنا مہمان بنایا۔ حکومت نے اس حوالے سے ایک قابل قدر اقدام لیا تو ہے جس کے تحت عام شہریوں کو ان کے گھروں میں ہی ایک دو کمرے سیاحوں کے لیے مختص کرنے پر چار سے پانچ لاکھ ادائیگی کی سکیم جاری ہوگی۔ اس کے تحت حکومت سمجھتی ہے کہ ہوٹل مافیا کے زور کو توڑا جا سکتا ہے۔

میرے لیے میرے پاکستان کی نیک نامی ایک ایسی چیز ہے جو مجھے ہر دم خوش رکھتی ہے۔ ہم نے ایک ایونٹ کروایا تھا جس میں قریب دو سو سے زائد ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو کرتارپور کا دورہ کروایا۔ ہماری ٹیم کی وہ کاوش مجھے آج تک نہیں بھولتی۔ اس میں غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان کو بہت سراہا تھا۔ اس سفر کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ہم نے اپنے بھارتی دوستوں کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ اس میں شامل ہوں، حالات کی وجہ سے وہ نہ آ پائے مگر میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں بھی پاکستان اور بھارت کی اس مشترکہ کاوش کو اچھی نظروں سے دیکھاجاتا ہے۔خیر ہمارا وہ سفر بہت ہی یادگار سفر تھا۔

کورونا وائرس نے سیاحت پر کیا اثر ڈالا ہے؟

تباہ ہو کر رہ گئی ہے سیاحت۔ میں ذاتی طور پر بھی اس چیز سے شدید متاثر ہوا ہوں۔ مایوسی سی رہتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی موقع ہی نہیں ہے کہیں بھی جانے کا۔ اگر آپ کہیں چلے بھی جائیں تو وہاں سب کچھ بند ہے۔ برطانیہ کو ہی لے لیں، وہاں شعبہ ہائے زندگی کی ہر شے بند ہے، ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے آثار کم ہوتے جارہے ہیں۔

پاکستان میں جو کچھ سیاح آرہے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ یہاں ابھی لاک ڈاؤن نہیں لگا، ممکن ہے کہ لاک ڈاؤن لگ جائے اور یہ چہل پہل بھی نہ رہے۔

مجھے یاد آیا جب کورونا وائرس شروع ہوا تو چین کے بعد تھائی لینڈ پہنچا، اور میں اتفاق سے ان دنوں وہیں تھا۔

وہاں ابھی چودہ کیسز ہی آئے تھے کہ ہمارا ہوٹل سے باہر نکلنا بند ہوگیا تھا۔میرے وہاں پہنچنے کے دوسرے ہی دن ہم پر یہ پابندی لگ گئی تھی۔ پندرہ دن کا ویزہ صرف پانچ دن میں مکمل کرکے گھر لوٹنا پڑا۔ مجھے واپسی کی فلائٹ تین گنا لاگت میں پڑی۔ تو واپسی کا سفر بھی کچھ آسان نہ تھا۔

ایک سیاح کو مستقبل قریب میں کیا نظر آرہا ہے؟

مستقبل قریب کا تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگلے سال کے اوائل کے مہینوں تک ویکسین مارکیٹ میں نہ بھی آئی تو ہم اس کے ساتھ رہنے کے عادی ہوجائیں گے۔ ویکسین آگئی تو زندگی کی روشنیوں کی طرف دوبارہ لوٹنے کی خواہش لیے آج ہم سانس لے رہے ہیں۔ ایک سیاح کے لیے گھروں میں بیٹھنا اور کھڑکی سے سکوت کو محسوس کرنا بہت تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ ہے۔

————https://www.independenturdu.com/node/52921————-