آپ خاندانی منصوبہ بندی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

عبدالستار (میاں چنوں)

زندگی فطرت کا حسین تحفہ ہے اور یہ ہر ذی روح کو صرف ایک بار ہی ملتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس تحفہ کو بغیر کسی پلاننگ کے بس یونہی گزار دیا جاتا ہے۔ اندھی اوربہری ہیلن کیلر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ ہم زندگی کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتے کہ کسی چیز کو دوبارہ پلٹ کر ہی دیکھ لیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے کچھ خاص مس کر دیا ہو۔ ہم ایسے روایتی سماج کا حصہ ہیں جہاں پر روایات کا بہت پالن کیا جاتا ہے اور ہر نئے ابھرنے والے تصور کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہاں پر جب فیملی پلاننگ کی بات کی جاتی ہے تو فوراً سے اس تصور کو مغرب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور یہ اخذ کر لیا جاتا ہے کہ یہ یہود و نصارٰی کی بہت بڑی سازش ہے اور وہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ سے خائف ہیں۔ یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ فیملی پلاننگ ہی سرے سے حرام ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب ہم کسی بھی مسئلے کو حرام کہہ کر صرف نظر کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر بات چیت کا عمل کیسے آگے بڑھے گا۔ انسانی تصورات انسان ہی قائم کرتے ہیں اور یہ اجتماعی ورثہ ہوتے ہیں۔

ہم گھر کی گروسری خریدنے کے لیے بھی تھوڑا بہت سوچتے ہیں مگر ایک خاندان کی بنیاد رکھنے سے پہلے بالکل سوچ بچار نہیں کرتے اور بغیر سوچے سمجھے آٹھ دس بچوں کی لائن لگا دیتے ہیں۔ اس ناسمجھی سکیم کے پیچھے ہماری یہ سوچ ہوتی ہے کہ اللہ ان کا رازق ہے اور وہی بہتر کارساز ہے۔ اس تھیوری کو جب ہم اپنے سماج پر اپلائی کر کے دیکھتے ہیں تو معاشرتی عکاسی بالکل ہی الٹ نظر آتی ہے۔ ایک والد اپنے آٹھ بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلواسکتا، اچھی خوراک مہیا نہیں کر پاتا تو پھر چارو ناچار وہ بچے مدرسہ داخل کروادیے جاتے ہیں یا کسی ورکشاپ کا ایندھن بن جاتے ہیں یعنی وہ کسی تعمیری کام کے قابل نہیں ہوتے۔

اگر اس صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ اگر اس والد کے دو یا تین بچے ہوتے تو کیا پھر بھی حالات اسی طرح کے ہوتے؟ لوجیکلی ہمیں یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ جتنی توجہ دو بچوں پر دی جا سکتی ہے وہ آٹھ پر نہیں دی جا سکتی اور دو بچوں کو اچھی سکولینگ کے ساتھ بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے ہمارا لوجیکل ہونا ضروری ہے۔ جب تک ہم روایتی جملوں کے سحر سے باہر نہیں آئیں گے اس وقت تک ہم ایک اچھے خاندان کی بنیاد نہیں رکھ پائیں گے۔

اس روایتی مکروہ سرکل کو توڑ کر ہمیں جاننا چاہیے کہ فیملی پلاننگ کیا ہوتی ہے اور اس سے جڑے ہوئے تصورات یعنی ماں اور بچے کی صحت، صحتمند پریگنینسی، جنسی اور تولیدی معاملات اور سب سے اہم بات کہ بچہ کب پیدا کرنا چاہیے، جیسے اہم معاملات کو جاننا اور سمجھنا چاہیے۔ تخلیق کا عمل بہت خوبصورت ہوتا ہے اور اسے اچھے طریقے سے سیلیبریٹ کرنا چاہیے۔ یہ کتنی خود غرضی والی بات ہے کہ ہم اپنے بڑھاپے کو سیدھا کرنے کے چکروں میں بچوں کا ڈھیر لگا کر انہیں بے رحم معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔

فیملی پلاننگ ایک قسم کا سیکھنے کا عمل ہے۔ ایک ماں اور باپ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے بچہ پیدا کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے پہلے سے پلاننگ کرنی چاہیے تاکہ نئے آنے والے ننھے مہمان کو و ہ مکمل پروٹوکول ملے جس کا وہ حقدار ہے۔ ننھے مہمان کے یہ لمحات ماں اور باپ کو اچھے سے سیلیبریٹ کرنے چاہئیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوپائے گا جب ماں اور باپ فیملی پلاننگ کو سمجھتے ہوں گے۔ انہیں wanted اور unwanted پریگنینسی کا علم ہونا چاہیے۔

انہیں سیکس اور تخلیق کے فرق کو سمجھنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر contraceptive methodکو سمجھنا ہوگا۔ جب ماں حاملہ ہو جائے تو اپنے ڈاکٹر کے ساتھ زچہ بچہ کی صحت کے حوالہ سے گفتگو کریں۔ پریگنینسی کے لمحات کو ماں اور باپ کو مل کر سیلیبریٹ کرنا چاہیے۔ یہ سب مراحل ایک فیملی پیکیج کا حصہ ہیں۔ بطور انسان ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ ہم اپنی جنسیات کو اچھے طریقے سے پلان کر سکیں۔ سیکس انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ ضرورت کے ساتھ ساتھ ہیومن تخلیق کا بہت خوبصورت کام ہے اور اسی خوبصورتی کو شعوری ادراک کے ساتھ ماں اور باپ دونوں کو آگے لے کر چلنا چاہیے۔

اس خوبصورتی کو پوری طرح سے سیلیبریٹ کرنے کے لیے ہمیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ کب اپنی جنسی ضرورت کو اپنی خوشی سے پورا کرنا ہے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر جنسی خواہش کو پورا کرتے وقت ہر بچے کا بوجھ نہیں لاد لینا چاہیے۔ فیملی پلاننگ اس صورتحال کو سمجھنے کا نام ہے۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ آپ اپنے بچوں اور خاندان کے خود ذمہ دار ہیں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آسمان سے کوئی من و سلوٰی نہیں اترے گا۔ زندگی ایک حقیقت ہے اور اس کو خوابوں کی نظر نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت پسندانہ رویہ ہی ہمیں بہت سارے مسائل سے نجات دلا سکتا ہے

————–https://www.humsub.com.pk/358548/abdul-sattar-53/———–