سب راز کھل گئے

دہشت گردی سے بھرپور زہریلی حکمت عملی ہے اس کو بنانے والا وہ شخص ہے جس نے پاکستان میں آکر بطور انڈر کور را ایجنٹ کے گامے شاہ اور داتا دربار کے باہر بیٹھ کر برسوں گزارے ہیں۔

نسیم زہرہ سینیئر صحافی، مصنفہ NasimZehra@
—————————-

کل کی پریس کانفرنس مختلف تھی۔ بڑی تفصیل سے معلومات دی گئیں، سہولت کار کے نام اور واقعات کا ذکر، را کے ایجنٹ جو پورا نیٹ ورک تھا، را کے رابطوں کا جن کو امداد فراہم کر رہے تھے، ٹارگٹ کلرز کے لیے اور بم دھماکے کے لیے رقوم کی اور منصوبہ بندی کی تفصیل بھی پریس بریفنگ میں بیان کی گئی۔

چاہے کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ یا افغان سہولت کاروں نے تربیت حاصل کی اور جو تربیتی کیمپس بنائے ہوئے تھے۔ بھارت نے ان لوگوں کے لیے جنہیں تربیت دینا تھی۔ داعش، ٹی ٹی پی یا جنہوں نے ٹی ٹی پی کو ٹریننگ دینا تھی جو افغانستان میں ٹریننگ کیمپ تھے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں کون ان کے سفیر تھے اور کون آپریٹر تھے، کس تاریخ کو کس سے ملاقات ہوئی، کہاں بیٹھے تھے اور جو آئی پی اوز ہیں جب فون کالز ہوئی ہیں تو کون سے ملک کا آئی پی او استعمال کیا گیا، کون سے ملک سے پاسپورٹ حاصل کیا گیا، کون سے ملک سے پاکستان میں داخل ہوا گیا اور بھارت کے اندر را میں جو سی پیک کا سیل بنا ہوا ہے۔ اس کے بعد جو تمام وسائل استعمال ہو رہے ہیں مثلا پیسے ٹرانسفر ہوئے ہیں تو کس جگہ سے کس کے لیے ٹرانسفر ہوئے، پھر تفصیل میں دبئی کے حوالے سے بات کرنا جو را آپریٹر ہیں جو ہینڈلر سہولت کاروں کو بتا رہے ہیں جس نے دہشت گردی کرنی ہے، اس کو سمجھا رہے ہیں پھر ویڈیوز بن رہی ہیں آئی ای ڈیز کی جن سے سڑک پر دھماکے ہوتے ہیں جن سے سینکڑوں کے حساب سے پاکستانی فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ان سب واقعات اور گفتگو کی جو تفصیل دی گئی لہذا یہ پریس کانفرنس صرف زبانی جمع خرچ نہیں تھی۔

ان تمام ثبوت کے تانے بانے گوادر پی سی پر حملہ ہو، جوڈیشل کمپلیکس مردان پر حملہ ہو یا ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور میں حملہ یا کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ ہے ان سے ملتے ہیں۔ اس کے بعد پا کستان نے یہ شک نہیں چھوڑا کہ بھارت کے جو را کے منصوبہ ساز ہیں ان کو پتہ لگ جائے کہ پاکستان نے بھارت کا پورا سیٹ اپ اور جو مربوط حکمت عملی بنائی ہے پاکستان کو اس کی پوری خبر ہے۔

اس پریس کانفرنس کے ذریعے دنیا کو بتانا، اس میں ان کو یہ باور کرانا کہ پاکستان چوکنا ہے ناصرف اپنی سرحدوں پر بلکہ سرحد پار کر کے آپ کے علاقے میں بھی اپنا پیشگی دفاع کر رہا ہے۔

پاکستان کی آئی ایس آئی نے بہت زبردست کام کیا ہے۔ پاکستان کو سب معلوم ہے کہ آپ کیا کیا کر رہے ہیں اور کیسے کر رہے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس اس وجہ سے مختلف ہے دیگر پریس کانفرنسز سے کہ پہلے اس طرح کی حساس معلومات نہیں دی جاتی تھیں اور اس کو منظرعام پر نہ لانے کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم اپنے دشمن کو مطلع کر دیں اور وہ الرٹ ہو جائیں اور اپنے طریقے بدل لیں یا حکمت عملی میں تبدیلی لے آئیں۔ تو یہ اہم بات تھی کہ پہلے پاکستان نہیں بتاتا تھا لیکن اب چونکہ بھارت نے حدیں پار کر لی ہیں کیونکہ وہ جو کام کر رہا ہے وہ اس نوعیت کا ہے کہ اب پاکستان کو بولنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ ایل او سی پر ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ بھارت بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کو بڑھا رہا ہے، کشیدگی بڑھا رہا ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ وہاں سے جارحانہ بیانات دیئے جا رہے ہیں کہ ’ہم آزاد کشمیر میں آجائیں گے۔‘

پاکستان کو اب یہ لگ رہا ہے کہ بھارت جس سطح پر اپنی جارحانہ حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے۔ ایک تو ٹارگٹڈ دہشت گردی کے آپریشن کر رہا ہے اور پھر یقینا ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی ایسے معاملات ہیں جہاں ناراضگیاں ہوتی ہیں، لوگوں کے آپس میں مسئلے ہوتے ہیں، ریاست اور سیاست کو سنبھل کر چلنا ہوتا ہے نمٹنا ہوتا ہے انہیں وہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں مثال کے طور پر دیکھیں مذہبی سطح پر فرقہ واریت کبھی زیادہ زور پکڑ لیتی ہے لیکن الحمدللہ یہ بھی بات ہے کہ پاکستان میں جس طرح فرقے ہیں دنیا میں اس سطح پر کہیں بھی اتنے متحرک نہیں ہیں۔

پاکستان میں کسی حد تک فرقہ واریت کا مسئلہ ہے، پھر بلوچستان میں ناراضگیاں اپنی جگہ ہیں پھر آپ دیکھیں کہ لسانی سطح پر بھی تفریق پائی جاتی ہے۔ سیاست بھی اس طریقے سے آرگنائز ہے کہ لسانی اور فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے اور دیکھیں کہ خیبرپختونخوا میں 30 سال کے مقابلے میں بڑے بہتر حالات ہیں جبکہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کو ناجائز قتل کیا گیا۔ اس میں راؤ انوار کا نام سامنے آیا۔ نقیب اللہ کے قتل کے بعد جب پی ٹی ایم بنی اس میں کچھ شکایات ہوئیں۔ پی ٹی ایم والوں کو بھی بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا اور پھر ان سب سے بڑھ کر افغان مزاحمت کے بعد جو گروپس نکلے ہیں جیسے تحریک طالبان پاکستان ان میں یقینا بھارت کی را نے اہم کردار ادا کیا۔ اس پر بات پہلے بھی ہوتی رہی ہے اب وہ اس اپنی دخل اندازی کو بہت زیادہ حد تک آگے لے آئے ہیں۔ ان کی دہشت گردی کی جو منصوبہ بندی ہے وہ پاک افغان بارڈر کے اردگرد گھومتی ہے یعنی افغانستان میں بھی کیمپس ہیں اور بھارت میں بھی۔

افغانستان کا زیادہ ذکر نہیں کیا لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان نے اب نہیں پچھلے 10 پندرہ سالوں سے شکایات کی ہیں اور افغانستان سے صدر حامد کرزئی نے صدر پرویز مشرف کے کہنے پر جو کچھ بلوچ قوم پرست تھے ان کو نکالا کیونکہ وہاں سے دہشت گردی کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ بھارت وہاں منصوبہ بندی کر رہا تھا، وہ وہاں پیسے دے رہا تھا، چیک نمبر بتائے گئے، لوگوں کے نام بتائے گئے جو بلوچ قوم پرستوں سے انہیں پیسے دینے کے لیے مل رہے تھے تاکہ بلوچستان میں دہشت گردی کی جائے۔

یہ پاکستان کی وہ فالٹ لائنز ہیں جن کو استعمال کر کے بھارت نے دہشت گردی بڑھائی ہے۔ اب یہ بار بار کہا جا رہا تھا کہ محرم میں بھارت نے بہت بڑی منصوبہ بندی کی تھی کہ فرقہ وارانہ فسادات کرائے جائیں اور کچھ علما کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان نے یہ منصوبے ناکام بنائے ہیں۔

اللہ کا شکر ہے اس پریس کانفرنس میں تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ آئی ایس آئی نے کمال کا کام کیا ہے اور آفرین ہے اس ادارے پر کہ اس کا جو اپنا کردار ہے کہ ملک کو بیرونی خطرات سے بچائے اور معلومات حاصل کرے ان ممالک سے جو پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں خوب کر رہا ہے۔

اس پریس کانفرنس کے ذریعے تین چار واضح معاملات سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جنہیں اقوام متحدہ نے کالعدم قرار دیا ہے اور دنیا میں ان کو دہشت گرد مانا جاتا ہے وہ چاہے ٹی ٹی پی ہو یا اور دیگر تنظیمیں بھارت انہیں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بھارت کتنا بڑا ایٹمی خطرہ ہے اس خطے کے لیے۔

دوسرا یہ کہ آج نہیں تو کل یہ چیز خدانخواستہ جنگ کی صورت بن سکتی ہے۔ افغان جنگ کے دوران یہ بات ہوتی رہی ہے کہ پاکستان کے اندر جائیں اور مبینہ تربیتی کیمپس کے خلاف آپریشن کریں حالانکہ اس کا تعلق افغان جنگ سے تھا جو ایک عالمی جہاد بن چکا تھا۔ یہ تو کہنے کی باتیں تھیں پاکستان جواب میں ثبوت سامنے لے آیا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو پاکستان میں بھارت نے دہشت گردی کی ہے اور کر رہا ہے اس میں دیگر ممالک کو بھی استمعال کیا جا رہا ہے مثلا افغانستان کی سرزمین سے بہت سی دہشت گردی کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ اس کی بہت واضح معلومات فراہم کی گئی ہیں چاہے وہاں جو ٹریننگ کیمپس ہوں یا لوگوں کو پیسے دیئے جا رہے ہیں یا افغانستان کی سرزمین پر ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ افغانستان میں جو بھارت کے اپنے لوگ ہیں چاہے سفارت کار ہیں یا را کے ہیں وہ اس کے منصوبہ ساز ہیں۔ اس وجہ سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان سے جو بات پاکستان کرتا رہا ہے وہ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور ہمیشہ اس کی نشاندہی کی ہے کہ را اور این ڈی ایس کا ایک بہت قریبی تعلق بھی رہا ہے۔ آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کا ایک معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا جس پر دستخط بھی ہوگئے تھے لیکن پھر وہ سبوتاژ ہوگیا۔

اس کی وجوہات یہی ہیں کہ وہاں بھارت کا عمل دخل بہت ہے اور کسی حد تک یہ بھی کہنا درست ہوگا کہ امریکہ کا وہاں ایک اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے۔ جاسوس سیٹلائٹ ہیں اور وہ سب جانتے ہیں کہ ادھر سے کیا ہوتا ہے۔ افغانستان کا ایک ایک معاملہ ان کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ ان کی موجودگی اور جاسوسی سے تو یہ کہنا درست ہوگا تمام چیزیں امریکہ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔ امریکہ نے ظاہر یہ کیا ہے کہ وہ نہیں جانتا لیکن اس کو ان تمام معاملات کا علم ضرور ہے۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ پاکستان نے اس پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے کارڈز دکھا دیئے ہیں اور بین الاقوامی امور کے اعلیٰ مراکز کو بتا دیا ہے کہ یہ یہ ہو رہا ہے۔ اب پاکستان اپنے دفاع کے لیے اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر بھی پیشگی دفاعی حکمت عملی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ جب بھارت نے بالاکوٹ پر حملہ کیا تھا تو پاکستان نے اپنے جوابی وار سے یہ دکھا دیا تھا کہ پاکستان پیشگی دفاع اور جارحانہ دفاع کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ یہ تمام بہت اہم معاملات ہیں اور اس پر یہ کہنا بنتا ہے کہ آخر اتنی زیادہ حکمت عملی نے بھارت کو دہشت گردی کا ایک ٹول بنا دیا ہے۔

پچھلے کچھ برسوں میں یہ بات واضح کر دی کہ اس نے پاکستان کے ساتھ جو تعلقات کا طریقہ کار رکھنا ہے وہ دہشت گردی ہے۔ اس کے بالکل برعکس ہے جو پاکستان کہتا رہا ہے کہ آپ کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل پر بات کریں آگے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ بھارت چاہتا کیا ہے؟ کیا وہ یہ چاہتا تھا کہ سی پیک پر حملہ کرے، گوادر پر حملہ کرے اور بلوچستان میں ظاہر ہے جتنا بھی خلفشار پیدا کرے گا تو پاکستان کو غیرمستحکم کرے گا اس کی خام خیالی ہے۔

پاکستان کی کوشش ہے کہ تعلقات کو بہتری کی طرف لے کر جائے اور بھارت بھی اس کی اہمیت سمجھتا ہے۔

بھارت کو کشمیر اور کشمیریوں سے جو ایک خطرہ ہے جہاں وہ کشمیریوں کو دبانے کے لیے ریاستی دہشت گردی کا استعمال کر رہا ہے یہ نشانی ہے خوف کی۔ لیکن کشمیر سے بڑھ کر ایک معاملہ ہے اور وہ ہے اقتصاد۔ بھارت کو یہ لگ رہا ہے کہ جیسے وہ اقتصادی طور پر کمزور ہو گیا ہے اور اس کی کمزوریاں سامنے آ رہی ہیں جن کی وجوہات بہت حد تک یہ ہیں کہ پاکستان اپنی مغربی سرحدوں کے پار تجارت کے معاملات میں آگے بڑھ رہا ہے اور گوادر اس سب کا منبع ہے۔ گوادر کو تباہ کرنا وہ ڈائریکٹ تھریٹ ہے بھارت کے لیے۔

بھارت کا یہ خیال تھا کہ جنوبی ایشیا سے باہر کر کے پاکستان کو گردن سے پکڑ لے گا، جب پاکستان کی اقتصادی، سیاسی اور عسکری طور پر گردن دبا دے گا لیکن یہ بالکل اس کے برعکس ہوا ہے۔ یہ بھارت کی ڈسپریشن کا نتیجہ ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ جو دہشت گردی سے بھرپور زہریلی حکمت عملی ہے اس کو بنانے والا وہ شخص ہے جس نے پاکستان میں آکر بطور انڈر کور را ایجنٹ کے گامے شاہ اور داتا دربار کے باہر بیٹھ کر برسوں گزارے ہیں۔ بھارت کے جو اس دہشت گردی کو تخلیق کرنے والے ہیں، ان کا نام ہے اجیت ڈوبھال، بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر۔

———–https://www.independenturdu.com/node/52521———