بینک مینیجر ہراسانی: ’ہاتھ لگایا تو گھوم کے تھپڑ کیوں نہیں مارا‘

گذشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے ایک نجی بینک میں خاتون کو جسمانی طور پر ہراساں کیے جانے کا معاملہ زیر بحث ہے اور لوگوں کی جانب سے مختلف سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں، لیکن قانون کیا کہتا ہے۔

فاطمہ علی نامہ نگار FatimaAli09@
—————————————————-

گذشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے ایک نجی بینک کے ملازم کی جانب سے ساتھ کام کرنے والی خاتون کو جسمانی طور پر ہراساں کیے جانے کی ویڈیو گردش کر رہی ہے۔

ویڈیو میں بینک کے مذکورہ ملازم کو ایک خاتون کے ساتھ نازیبا حرکت کرتے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہیں اسلام آباد پولیس نے مذکورہ بینک ملازم کو حراست میں لے لیا جبکہ بینک انتظامیہ نے انہیں نوکری سے بھی فارغ کر دیا۔

اس واقعے کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اب بھی بحث جاری ہے۔ زیادہ تر صارفین کی ہمدردیاں ہراساں کی جانے والی خاتون کے ساتھ ہیں، لیکن کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جن کے لیے یہ بات اہم نہیں کہ ایک خاتون کو دفتر کے اندر نامناسب اندازسے چھوا گیا بلکہ وہ ان سوالات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ خاتون کے ساتھ یہ حرکت خاتون کی اپنی مرضی سے ہوئی؟ ان کا مذکورہ ملازم کے ساتھ کوئی تعلق تھا؟ اگر انہیں ہاتھ لگایا گیا تو انہوں نے گھوم کر تھپڑ کیوں نہیں مارا؟

لوگوں کو مزاحمت کی توقع کیوں تھی؟

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے انسانی حقوق کی کارکن سدرہ ہمایوں سے بات کی، جو گذشتہ دو دہائیوں سے انسانی و نسوانی حقوق کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جو کچھ بھی آتا ہے اسے دیکھنے اور سمجھنے کا سب کا اپنا انداز اور زاویہ ہوتا ہے۔ جب لوگ سروائیور بیسڈ اپروچ کو نہیں جانتے اور مظلوم کی نفسیات کو نہیں سمجھتے تو ان کا پہلا رویہ یہی ہوتا ہے اور وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خاتون نے مزاحمت کیوں نہیں کی؟ مزاحمت تب آتی ہے جب آپ کو اپنے حقوق پا لینے کا یقین ہو۔‘

سدرہ کے خیال میں: ’ویڈیو کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ خاتون ایک غیرمعمولی جگہ پر کھڑی ہیں۔ وہاں ان کے کھڑے ہونے کا مقصد سمجھ نہیں آتا لیکن چونکہ انہیں ہراساں کرنے والے کو یہی جگہ سوٹ کرتی تھی، اس لیے انہوں نے جان بوجھ کر انہیں وہاں کھڑا کیا ہوا تھا۔ ہراساں کرنے والا شخص مظلوم کے ارد گرد کا ماحول ایسا بنا دیتا ہے کہ مظلوم مزید خطرے میں آجاتا ہے۔ دراصل جنسی ہراسانی کے معاملات میں ہمارے معاشرے میں ایک تجسس پیدا ہوجاتا ہے کہ کون لڑکی تھی، ویڈیو کس نے بنائی تھی یا اور بہت سے سوال۔ اچھا ہوا کہ لڑکی کی شناخت اب تک کسی کے سامنے نہیں آئی۔ میرے خیال میں جس نے ویڈیو بنائی ہے اس نے لڑکی کی مدد کی ہے اور اگر وہ کوئی مرد ہے تو اس نے ایک بہت بڑا کام کیا ہے، کیونکہ عموماً ایسے معاملات میں اکثر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتا۔‘

سدرہ کہتی ہیں کہ ’سوال یہ نہیں ہے کہ لڑکی نے مزاحمت کیوں نہیں کی؟ یا وہ ترسی ہوئی تھی یا اسے مزہ آرہا تھا۔ خواتین سڑکوں پر مزے لینے نہیں آتیں۔ اہم بات یہ ہو گی کہ اس واقعے کے بعد پاکستان میں ہر وہ جگہ جہاں آٹھ گھنٹے کے لیے مرد اور عورت اجرت کی بنا پر کام کرنے کے لیے موجود ہیں، وہاں کام کی جگہوں پر ہراسانی کی روک تھام کے حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، ورکرز کی تربیت کی جائے اور اس کی بنیاد پر لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ ایسا رویہ کسی صورت برداشت نہیں ہوگا۔ یہ سوال اٹھانے سے بہتر ہے کہ مرد صرف یہ سوچیں کہ حالات یہی رہے تو انہوں نے کل کو اپنی بیٹیاں کیسے بچانی ہیں؟‘

ویمن ان سٹرگل فار امپاورمنٹ (WISE) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بشریٰ خالق مختلف اداروں کے ملازمین کو ہراساں کرنے کے خلاف تربیتی ورکشاپس کرواتی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس طرح کے کیسز میں ملزم کے دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ وہ طاقتور ہیں، وہ کسی کو بھی جسمانی یا دیگر طریقوں سے ہراساں کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دوسرا وہ اپنی کام کی جگہ پر اپنے عہدے اور اختیار کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ملزمان کو معاشرے میں جو استثنیٰ حاصل ہے وہ اس کا استعمال شاید اپنے گھر میں بھی کرتے ہیں اور باہر بھی اس کا مزہ لیتے ہیں۔ اس ویڈیو میں بھی اگر آپ ہراساں کرنے والے کی باڈی لینگویج دیکھیں تو وہ بہت پر اعتماد ہے۔ ان کو یہ اندازہ ہے کہ وہ ایک ایسی لڑکی کو ہراساں کرنے جا رہے ہیں جو آگے سے آواز نہیں نکالے گی کیونکہ اس مرد کا رتبہ یا عہدہ یہاں پر مضبوط ہے۔‘

بشریٰ کہتی ہیں کہ سٹیٹ بینک کی طرف سے بینکوں میں ہراسانی کے حوالے سے سخت احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ ان کی طرف سے بینکوں کے ملازمین کے تربیتی کورسز بھی کروائے گئے ہیں۔ ’میں خود ان تربیتی پروگراموں کا حصہ تھی، مگر یہ لوگ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں کیونکہ ان ملازمین کو اپنی طاقت کا استعمال کرنے کی عادت ہے اوران کو کوئی پوچھتا نہیں ہے۔ یہی رویہ ان کی ہمت بڑھاتا ہے۔‘

بشریٰ کے خیال میں: ’آپ جنسی تشدد کو کوئی جواز نہیں دے سکتے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کو صنفی برابری کے حوالے سے تعلیم ہی نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے تو اس پر بات کیسے کرنی ہے، کیسے بتانا ہے کہ کون اس کی وجہ بنا، یہ تربیت نہ سکولوں میں ہے اور نہ گھروں میں، اس لیے ہم اپنے سماجی رویوں اور سوچ کا برملا اظہار چوک میں کھڑے ہو کر یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کر دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں ضروری ہے کہ آپ اپنے نصاب کے ذریعے ان معاملات پر بات کرنا شروع کریں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر آپ رویوں یا مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کے حوالے سے ٹریننگ پروگرامز کروائیں۔‘

خاتون نے یہ حرکت کرنے والے کو تھپڑ کیوں نہیں مارا؟

سدرہ ہمایوں کے مطابق: ’ایسی صورت حال میں مظلوم کا مختلف ردعمل سامنے آسکتا ہے جیسے کہ ڈر، واپس مڑ کر لڑنا یا پھر بالکل فریز ہو جانا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے پہلی بار گھریلو تشدد کا شکار خاتون یہ کہے کہ جب مجھے تھپڑ پڑا تو اس وقت مجھےسمجھ ہی نہیں آئی میں تو بُت ہی بن گئی یا ایسی ہی کوئی وجہ۔ دراصل ایسی صورت میں متاثرین فریز موڈ میں چلے جاتے ہیں۔ ان کے لیے اس دھچکے یا صدمے کی شدت اس حد تک چلی جاتی ہے کہ وہ کچھ وقت کے لیے اپنے بچاؤ کا تصور ہی نہیں کرپاتے۔ ہراساں ہونے والا شرم، احساس جرم اور بدقسمتی کو مد نظر رکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ اس کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر اکثر صارفین کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون کی جگہ اگر وہ ہوتے تو وہ گھوم کر اس مرد کے منہ پر تھپڑ ماردیتے۔ سدرہ ہمایوں اس حوالے سے کہتی ہیں: ’وہ متاثرین جو اپنے حقوق کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ اگر کسی کو بتائیں گی تو ان کی بات پر یقین کیا جائے گا، وہ تھپڑ مارنے یا ردعمل دینے کے موڈ میں چلے جاتے ہیں، مگر ویڈیومیں دیکھی جانے والی خاتون کا جو سٹیٹس ہے وہ پورے پاکستان کی آدھی عورتوں کا سٹیٹس ہے۔ وہ رد عمل دینا نہیں جانتیں۔ اگر لوگ کہتے ہیں کہ وہ مجبور تھیں تو میرے خیال میں مجبوری سے زیا دہ انہیں اپنے عورت ہونے کی بنیاد پر نہ سنے جانے کا ڈر ہے۔ فرض کریں کہ ان کی جگہ کوئی ایسی لڑکی ہوتی جس کا لباس تھوڑا ماڈرن ہوتا تو اس کے بارے میں کہا جاتا کہ دیکھا اس کا تو لباس ہی ایسا تھا جو دعوت دے رہا تھا، وغیرہ وغیرہ۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمارے ہاں عورت کی قابلیت پر شک کیا جاتا ہے۔ مردوں کے ساتھ بندوق کے زور پر ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ کتنے مرد ہیں جو چور یا ڈاکو کو تھپڑ مار کر اسے پکڑ لیتے ہیں؟ ویسے تو سبھی بہادر بنتے ہیں، مگر ایسے وقت میں وہ اس لیے ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ جو ٹراما ریسپانس ہے اس میں 100 فیصد لوگ فریز موڈ میں چلے جاتے ہیں۔‘

اینٹی ہیراسمنٹ ایٹ ورک پلیس کا قانون کیسے تحفظ فراہم کرتا ہے؟

سدرہ ہمایوں کہتی ہیں: ’اینٹی ہیراسمنٹ ایٹ ورک پلیس 2010 کے قانون کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ خاتون یا مرد کی بات نہیں کرتا بلکہ وہ فرد کی بات کرتا ہے۔ یہ قانون ہر وہ فرد جو کہیں بھی کام کر رہا ہے، اسے اس جگہ پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور وہ تحفظ یہ ہے کہ جس کے پاس بھی طاقت ہے وہ چاہے اجرت دینے کی ہو، ترقی دینے کی یا کام کے حوالے سے سوال جواب کی، وہ طاقت کا بےجا یا بلا وجہ استعمال نہ کرے۔ یہ مرد کو بھی تحفظ دیتا ہے جیسے کہ ایک مرد ملازم نے کوئی رپورٹ لکھی ہے اور وہ اسے اپنے باس کے پاس لے کر جاتا ہے اور باس اسے پڑھے بغیر پھاڑ کر پھینک دیتا ہے یا کچھ بھی ایسا کرتا ہے۔ ایسے موقع پر بھی وہ مرد اس قانون کے تحت شکایت کر سکتا ہے۔‘

سدرہ نے بتایا: ’میرے مشاہدے کے مطابق وائرل ہونے والی ویڈیو میں جو حرکت خاتون کے ساتھ ہوئی وہ کچھ دفاتر میں مرد دیگر مردوں کے ساتھ بھی کرتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے مرد سامنے نہیں آتے اور نہیں بتاتے کہ ان کے ساتھ بھی جنسی ہراسانی ہوئی ہے۔‘

کیا اداروں میں ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں موجود ہیں اور وہ وہ کیسے کام کرتی ہیں؟

خرم اشفاق ایک نجی بینک کے ریجنل مینیجر برانچ آپریشنز ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے بینک میں اگر کہیں ہراسانی کا معاملہ رپورٹ ہوجائے تواس میں ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے پاس ایک اینٹی ہیراسمنٹ کمیٹی بنی ہوتی ہے۔ بینک کے کچھ سینئیر افسران اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ ’ہر بینک میں اس کمیٹی کا سٹرکچر اپنا اپنا ہوتا ہے۔ آج کل اس طرح کے معاملات پر فوری ایکشن لیاجاتا ہے اور اگر جرم ثابت ہوجائے تو ہراساں کرنے والے کو فوری نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔‘

ریڈیو پاکستان کی کمپئیر کا دو خواتین پر ہراسانی کا الزام
خرم نے بتایا کہ ’حال ہی میں ان کے بینک سے ایک افسر کو نوکری سے برخاست کیا گیا، جنہوں نے کسی خاتون سے بدزبانی کی تھی۔ خاتون عقلمند تھیں اور انہوں نے ان کی بدکلامی کو ریکارڈ کرلیا۔ اس ریکارڈنگ نے ثبوت کے طور پر کام کیا اور بینک افسر کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے، لیکن دیگر کیسز میں بینک میں لگے کیمروں یا ارد گرد موجود افراد سے گواہی لی جاتی ہے۔‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بینک میں اینٹی ہیراسمنٹ کمیٹی نے متاثرہ خواتین سے بات کرنے کے لیے خواتین رکن بھی شامل کی ہیں تاکہ متاثرہ خاتون آرام سے اپنا مسئلہ بیان کر سکے۔

بعض نجی و سرکاری اداروں میں یہ کمیٹیاں اب تک قائم نہیں کی گئیں یا کچھ جگہوں پر اگر قائم ہیں بھی تو وہ فعال نہیں ہیں۔

سدرہ ہمایوں کہتی ہیں کہ اینٹی ہیراسمنٹ ایٹ ورک پلیس قانون کے مطابق تمام اداروں میں ہراسانی کی روک تھام کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینا ادارے کا کام ہے جبکہ ان کمیٹیوں کو تشکیل کرنے کی تشہیر کرنا حکومت کا کام ہے اور اگرادارہ کمیٹی نہیں بناتا اور محتسب کو معلوم ہوجائے کہ کمیٹی نہیں بنی تو وہ ان کو جرمانہ کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب اس حوالے سے بشریٰ کہتی ہیں: ’اینٹی ہیراسمنٹ ایٹ ورک پلیس کے قانون کے مطابق ہراسانی کے کیسزمیں قانون کے مطابق سزائیں ہیں۔ عام سزاؤں میں تبادلہ، پرموشن کا روک دینا، عہدے میں تنزلی، جگہ کا تبدیل کر دینا، کمرے کا تبدیل کر دینا شامل ہے جب کہ بڑی سزاؤں میں نوکری سے برخاستگی یا ہمیشہ کے لیے سروسز معطل کر دینا شامل ہیں تاکہ وہ شخص دوبارہ کہیں اور کام نہ کرسکے۔ سزا کا تعین ادارے میں موجود اینٹی ہیراسمنٹ کمیٹی ہی کرتی ہے، اس میں پولیس کا عمل دخل نہیں ہوتا، ملزم کو جیل نہیں ہوتی البتہ ان چھوٹی اور بڑی سزاؤں کے ساتھ جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔‘
————–https://www.independenturdu.com/node/52141—————-