کراچی میں سرکاری سطح پر بس ٹرمینل کا قیام کھٹائی میں پڑگیا

(رپورٹ:اسلم شاہ)کراچی میں اندرون سندھ اور دیگر صوبوں کے بس ٹرمینل کا معاملہ گزشتہ16سال سے حل نہ ہوسکا،بس ٹرمینل کی مختص اراضی کے الاٹمنٹ اور قبضہ نہ دینے میں اصل رکاوٹ بورڈ آف ریونیو سندھ اور حکومت سندھ کو قراردیا جارہا ہے، تاخیری حربہ کے نتیجے میں سرکاری سطح پر بس ٹرمینل کا قیام کٹھائی میں پڑگیا ہے۔ واضح رہے کہ کراچی ملک کا واحد میگا سٹی ہے جہاں صرف بلوچستان جانے والے بس اور کوچز کا بس ٹرمینل یوسف گوٹھ موجود ہے، تاہم اندرون سندھ ، پنجاب ، خیبر پختونخوا،آزاد کشمیر، گلگت ،چترال، ناردرن علاقوں کی بس اورکوچز کابس ٹرمینل نہ ہونے کی وجہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ایک جانب ٹریفک کے مسائل نے پورے شہر میں معاشرتی مسائل سے دوچار کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب بس ٹرمینل شہر کے 100مقامات پر ہونے کی وجہ سے شہری مختلف علاقوںکے چکر لگانے پر مجبورہیں اور بس ٹرمینل کی مختص اراضی پر قبضہ سرکاری سرپرستی میں جاری ہے،کسی بورڈ آف ریونیو اور پولیس کے ایک اہلکار کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہوسکی اور بس ٹرمینل کے کاروبار میں بھتہ، کمیشن اور کک بیک کا نظام یا سٹسم رائج ہے، لاکھوں کروڑ وں روپے آمدن سے محروم ہونے کا خطرے کے باعث قبضہ گروپ کو درپردہ حمایت کرنے کی مصدقہ اطلاعات اور رپورٹ موجود ہے۔ذرائع کا کہناتھا کہ سپرہائی ، نیشنل ہائی وے اور آرسی ڈی ہائی وے پر زمین کی الاٹمنٹ کا تنازع حل نہ ہونے اور مختص اراضی پر قبضہ کا مسئلے بورڈ آف ریونیو سند ھ کا ایک تنازع کی شکل اختیار کرگیا ہے،بورڈ آف ریونیو مختص زمین کی الاٹمنٹ اور قبضہ میں بھی براہ راست ملوث ہے، پولیس اور دیگر ادارے

بھی زمین پر قبضہ کی بندر بانٹ میں براہ راست شریک ہیں،بدقسمتی یہ ہے کہ سپریم کورٹ ، سندھ ہائی کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجودپوری سندھ حکومت بس ٹرمینل کا مسئلے حل کرنے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ واضح رہے کہ سپرہائی پر 100ایکٹر،100ایکٹر نیشنل ہائی وے اور 50ایکٹر اراضی حب ریور آرسی ڈی ہائی وے پر مختص اراضی پر قبضہ ختم کرانے کا کام دم توڑ رہا ہے اور سپرہائی وے پر بس ٹرمینل کی100ایکٹر اراضی کے بعض حصوں پر سرکاری سرپرستی میں قبضہ کرکے گوٹھ آباد اسکیم کے تحت سند بھی جاری کررکھی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ کراچی میں گوٹھ آباد کی اسکیم پر سندجاری کرنے پر 2010ء سے پابندی عائد ہے، لیکن لینڈ مافیا کے کارندوں سے مل کر بورڈ آف ریونیو اور گوٹھ آباد کے اہلکار سند جاری کرنے کی تصدیق کی ہے، کراچی میں بس ٹرمینل کی 100ایکڑ اراضی سندھ گورٹمنٹ کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے کرنا تھا،جو15سال سے حل طلب ہے ،لیکن ہر بار ایک نیا بہانہ اور جواز پیدا کرکے زمین کی الاٹمنٹ اور قبضہ دینے کا معاملہ تعطل کا شکار ہوجاتاہے ،کبھی بورڈ آف ریونیو اس اراضی کی منتقلی پر غور کرنے کا دعویٰ کررہا ہے، اور KMCکے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی کیلئے کوئی فنڈ نہیں ہے،بس ٹرمینل کے رقم ادا کرنے کے قابل نہ ہونے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایک جیسے 10مقدمات پرچیف سیکریٹری سندھ کو آخری موقع دیا گیا ہے کہ وہ اجلاس طلب کرکے عدالت کی ہدایت پر خصوصی اجلاس 19اکتوبر2020کوبلوایا گیا تھا، یہ اجلاس بھی ملتوی ہوگیاہے، 100ایکڑ اراضی بس ٹرمینل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے کرنے کا مسئلے کے ساتھ سپریم کورٹ کی ہدایت پر 50ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ برائے آئل ٹرمینل موچھکو حب ریور روڈکے نزدیک بسمہ اللہ سینٹرتجاوزات کو دو ہفتہ میں انہدام کرنے کا موقع دیاگیا۔دریں اثناء شہر قائد میں پبلک ٹرانسپورٹ کو دنیا کا سب سے بدترین نظام قرار دے دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق عالمی جریدے بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں کراچی کو بدترین پبلک ٹرانسپورٹ رکھنے والا شہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی شہر سیاسی یتیم ہوتا ہے تو یہ حال ہوتا ہے، برسوں پرانی بسیں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح لوگ بسوں میں سفر کرتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ بسوں کی چھت کو بھی مسافروں کے بیٹھنے اور سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کراچی ایسا شہر ہے جس کے مسائل حل کرنے کا کوئی ذمہ دار ہی نہیں ہے، ٹریفک کے قوانین پر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات معمول کی بات ہے۔دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی پیپلز بس سروس بھی بند ہوگئی، بس داؤد چورنگی تا ٹاور چلائی جارہی تھی، بس سروس ایک سال میں ہی بند ہوگئی، سندھ حکومت نے گزستہ سال 10 بسیں چلائی تھیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے بسیں بند ہوئیں، محکمہ ٹرانسپورٹ کے ذرائع نے بسوں کی بندش کی تصدیق کردی۔یاد رہے کہ شہر میں گرین بس سروس منصوبہ بھی تاحال زیر التوائ￿ ہے جبکہ اورنج لائن بس منصوبے میں بھی تاخیر ہے، سندھ حکومت نے شہر میں مزید 200 بسیں لانے کا اعلان کررکھا ہے۔