پانی کی فراہمی کے موجودہ طریقہ کار کو بہتر بنانے اور وال مین اور غیر قانونی کنکشن / ہائیڈرنٹس کے خاتمے کے حوالے سے فوری اقدامات کی ہدایت


زیر اعلیٰ سندھ نے محکمہ بلدیات / واٹر بورڈ کو ہدایت کی کہ وہ پانی کی فراہمی کے موجودہ طریقہ کار کو بہتر بنانے اور وال مین اور غیر قانونی کنکشن / ہائیڈرنٹس کے خاتمے کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائیں، یہ فیصلے کوآرڈینیشن کمیٹی برائے فیڈرل پروجیکٹس کے ایک اجلاس میں کئے گئے، اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا جس میں دو وفاقی وزراء اسد عمر اور امین الحق، صوبائی وزراء سعید غنی، ناصر شاہ ، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز ، چیف سیکریٹری ممتاز شاہ، چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم، جی او سی

کراچی میجر جنرل ایم عقیل اور دیگر نے شرکت کی،کمیٹی نے سندھ میں سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) کو پالیسی تشکیل دینے کی اجازت دے دی جبکہ آپریشنل مقاصد کے لئے کراچی سمیت ضلعی / ڈویژنل سطح پر الگ الگ خودمختار ادارے تشکیل دیئے جائیں گے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے لئے بھی اسی طرح کی تجویز پیش کی گئی، کو آرڈی نیشن کمیٹی نے نالوں کی صفائی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئےکہا کہ جب تک شہر میں کچرا اٹھانے کا ایک موثر نظام تیار نہیں کیا جاتا تب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے، اس کی بات کی نشاندہی کی گئی کہ سڑکوں سے کچرا موثر طریقے سے اٹھایا نہیں جاتا جس کی وجہ سے کوڑا کرکٹ نالوں میں بھر جاتا ہے اور انہیں چوک کردیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس کے باعث شدید بارشوں میں اربن فلڈ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتاہے، ان مختلف عوامل کو دیکھتے ہوئے اجلاس نے صوبائی حکومت کو ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو پالیسی بنانے کی اجازت د ینے کی تجویز پیش کی جبکہ تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کچرا اٹھانے اور انہیں ایک جگہ(اسٹیشن) سے دوسری جگہ لے جانے اور آخر میں انہیں لینڈ فل سائٹس تک جانے کے لئے علیحدہ، ذمہ دار اور خود مختار تنظیمیں ہوں گی، ان مجوزہ انتظامات میں کراچی ، حیدرآباد ، لاڑکانہ ، سکھر ، میرپورخاص اور شہید بینظیرآباد میں شہروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے الگ الگ باڈیز ہوں گی، اجلاس کو بتایا گیا کہ شہر میں 422 خطرناک عمارتیں موجود ہیں لیکن چند گزشتہ ماہ کے دوران جو عمارتیں گری ہیں اُن کی تعمیر غیر قانونی تھی لہٰذا اجلاس میں صوبائی حکومت نے تجویز پیش کی کہ وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پالیسی بنانے والی تنظیم کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دے جبکہ کراچی ، حیدرآباد اور دیگر ڈویژنز میں عمارات کو کنٹرول کرنے کے لئے الگ الگ خود مختار ادارے کے طور پر کام کریں گے۔ اجلاس میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ہر نئی تعمیراتی عمارت کا ایک مخصوص دورانیہ ہونا چاہئے اور اس دوارنیے سے قبل اگر عمارت منہدم/گرجاتی ہے تو اس صورت میں بلڈر کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔