سلیم عاصمی۔شکیل حسنین چمکتے ستارے ڈوب گئے

سہیل دانش
—————————-

آج یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے محترم سلیم عاصمی صاحب اور محترم شکیل حسنین صاحب بہت یاد آ رہے ہیں۔ یہ دونوں حضرات اب ہم میں نہیں رہے۔وہ وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت دور چلے جانے کے با وجود وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی ذات کے سورج میری شخصیت کے میلے اور دھندلے آئینہ میں اب تک چمک رہے ہیں۔عاصمی صاحب کو میں دانشور کہوں یا ایک ایسا نیوز میکر جنہوں نے اپنی پوری زندگی خبر بنانے اور اسکے نکھارنے کے ہنر کو سیکھنے میں صرف کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آنکھیں بھی دے رکھی تھیں اور دماغ بھی۔ خبر، اسلوب اور انداز کے کتنے زاویے تھے جو عاصمی صاحب آزمایا کرتے تھے۔ خبر کی اہمیت کو بڑھانے کے لئے وہ الفاظ کے ایسے نگینے جڑ دیتے کہ مجھے ان کی صلاحیت کو دیکھ کر الطاف گوہر یاد آجایا کرتے تھے، جن کے الفاظ میں ایک جادو تھا اور وہی جادو سلیم عاصمی صاحب کی تحریر اور قلم میں نظر آیا کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھی مضمون نویسی میں بھی ایسے جوہر دکھاتے تھے کہ یقین جانیں واہ واہ کرنے کو دل چاہتا تھا۔ ان کی نثر پہاڑی ندی کی طرح تھی، جب اس میں طغیانی آتی تو وہ بہتی چلی جاتی تھی۔اپنے الفاظ کو احساس اور جذبے ڈھالناان کا ایک کمال تھا۔ ہم جیسے ناکارہ صحافیوں کے لئے ان سے سیکھنے کا بہت سامان تھا کہ اخبار کو خبر سے کس طرح سجایا اور نکھارا جاتا ہے۔


عاصمی صاحب بھی محترم احمد علی خان صاحب کی طرح خبر کی سچائی اور کریڈیبیلیٹی پر سمجھوتہ کرنے کے لئے کبھی تیار نہ ہوتے تھے۔سچی بات تو یہ تھی کہ وہ استادوں کے استاد تھے۔ کوئی نئی بات اور کوئی انوکھی واردات انکی خبر کا زیور بنتی۔ وہ نہ جانے کتنے نادر قلمکاروں، صحافیوں اور دانشوروں کے استاد، محسن اور بزرگ تھے۔ وہ ایک لیجنڈ اور ہمیشہ یاد رکھی جانے والی شخصیت ہیں۔ شکیل حسین کی صحافتی زندگی کا احاطہ کرنا ہو تو مجھے ان کی شخصی خوبیوں کی قوس و قزح ان کی پروفیشنل صلاحیت اور اہلیت پر حاوی نظر آتی ہے۔ انتہائی شریف النفس اور وضعدار انسان جن کی ہر کوئی عزت کرتا اور وہ ہر ایک سے محبت کرتے تھے۔ خبر کے کھوجی تھے لیکن خبر بنانے اورقلمی کاوشوں میں یہ احساس دلاتے کہ وہ ایک صحرا کے ٹیلوں سے مخاطب نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسانوں سے گفتگو کر رہے ہوں۔ خبر میں حقائق کبھی تروڑتے مروڑ تے نہیں تھے، خبر بنانے کے فن میں وہ میرے بہت ہی عزیز دوست یوسف خان مرحوم کی طرح کئی انداز اور کئی رنگ شامل کر دیتے تھے،جن کی خبر میں آپ نثر کا چسکہ لے سکتے تھے۔ حقائق کو بتانے اور سمجھانے میں سارے پردے الٹ دیتے تھے۔ ایسے نا بالغہ روزگار شخصیات اب ہم میں نہیں رہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے ہم سب کو پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔ اللہ ر ب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسی شاندار شخصیات کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین