بابا علم دین تجھے سلام


کورونا نے پچھلے نو مہینوں سے ایسا مصروف رکھا کہ کبھی خیال ہی نہ آیا کہ کہیں گھومنے ہی چلے جاٸیں ۔ لوگوں کی پریشانیوں نے سب کچھ بھلاٸے رکھا ۔ اب تو کام کام اور کام سے دل گھبرا گیا تھا اسلٸے تین دن پہلے ہم کراچی سے نکل آٸے ۔پہلا پڑاو ملتان ہوا تو اپنے پرانے میس ویٹر بابا علم دین سے بھی ملاقات ہوگٸی جو میس میں غصہ کرنے والے آفیسرز کو ضرور کہتے کہ صاب جی غصہ پر قابو پایا کریں یہ بھی جہاد ہے اور آپ تو جہاد کی علامت بھی ہیں ۔ کسی میس ویٹر سے کوٸی غلطی ہوتی تو اسے فوراً سمجھاتے کہ بیٹا اپنی غلطی مان لو اور آفیسر سے معافی مانگ لو تاکہ مسلہٰ ختم ہوجاٸے ۔

میں شام کو لان میں آ بیٹھا تو میرے پاس آ کھڑے ہوگٸے اور بہت ہی افسردہ لہجے میں مخاطب ہوٸے کہ صاب جی ہمارے فوجیوں اور سیاست دانوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ لڑلڑ کے مر رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے دشمن بن گٸے ہیں ۔ پہلے تو گھر کے چھوٹے ناسمجھ ہوتے تھے اب تو گھر کے بڑے زیادہ ناسمجھ ہو گٸے ہیں ۔ صاب جی انکو کون سمجھاٸے گا ۔ قوم ہار رہی ہے اور ملک ڈوب رہا ہے ۔

میرے قریب ہی گھاس پر بیٹھ کر کہنے لگا صاب جی کوٸی آپ میں سے چیف کو کہے کہ ٹی وی پر آکر اعلان کردے کہ آج کے بعد ہمارا سیاست سے کوٸی تعلق نہیں ۔ بس ہمیں قوم سے ویسی ہی محبتوں کی ضرورت ہے جو 1965 اور 1971 میں ملتی تھیں ۔ کوٸی عمران صاب سے کہے کہ غصہ نہ کریں لوگوں سے نفرت کی بات نہ کریں ۔ غدار غدار نہ چیخیں ۔ وہ بھی تو ملک کے بڑے ہیں پھر اتنے ناسمجھ کیسے ہیں ۔ کوٸی نوازشریف مریم نواز اور بلاول سے کہے کہ گلے شکوے بیٹھ کے کرلیں اپنی فوج کی عزت رہنے دیں ۔ کوٸی مولانا سے کہہ دے کہ اسلام کی اصل روح تو درگزر اور بھاٸ چارہ ہے ۔ تحمل کا دامن نہ چھوڑیں ۔

میں بابا علم دین کی باتیں سن کر حیران ہوا جارہا تھا کہ اگر ایک بزرگ میس ویٹر کو فوج اور ملک و قوم کی اتنی فکر ہے تو فوجی اور سول لیڈرشپ کی انا کیوں کوہ ہمالیہ پر ڈیرے ڈال بیٹھی ہے جن کے تکبر اور خود پسندی نے ہمیں بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے ۔ میں نے دل بڑا کرکے بابا علم دین سے فوجی اور سول قیادت کی طرف سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آپکی یہ فکر ان تک ضرور پہنچاوُنگا تاکہ وہ ہارتی قوم کو سہارا دینے کو مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش ترک کرکے قومی یکجہتی کی راہ ہموار کریں

برگیڈیربشیرآراٸیں