زبان دراز موسم

گوجرانوالہ، کراچی کے بعد کوئٹہ جلسہ بھی ہوگیا، 11جماعتی اتحاد، 26نکاتی منشور، 3جلسے، کیا نہ کہا گیا، فوج مجرم، سی پیک برائیاں،اردو زبان پر تنقید، افغان بارڈر کو نہیں مانتے، مزارِ قائد پر جوتوں سمیت چڑھائیاں، ایک صاحب کی زبان پھسلی، آزاد بلوچستان کا مطالبہ کردیا، عجیب زبان دراز موسم، کہیں زبان پھسل رہی،کہیں زبان واپس منہ میں جانے کا نام ہی نہیں لے رہی، کوئٹہ جلسے میں سب کچھ کہاگیا، بات نہ ہوئی تو کلبھوشن کی، کسی نے بھولے سے یہ ذکر بھی نہ کیا کہ کلبھوشن بلوچستان سے پکڑا گیا، کوئٹہ جلسے میں سب کچھ کہا گیا، بات نہ ہوئی تو ’را‘ کی بلوچستان مداخلت پر، کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی پر چند رسمی فقرے بول دیتا، کوئٹہ جلسہ، قول وفعل کا تضاد عروج پر نظر آیا، مریم نواز نے اپنی تقریر میں کہا’’جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس بدنیتی پر مبنی نکلا‘‘حالانکہ ایک دن پہلے آئے 224صفحاتی ریفرنس فیصلے میں صاف لکھا ہوا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی نہیں، مریم نواز نے تقریر میں فرمایا’’میں سلیکٹرز سے کہتی ہوں، سیاست سے دور رہو‘‘۔ اب ایک طرف 11جماعتی اتحاد کا اہم نکتہ سویلین بالادستی مطلب فوج کا سیاست سے کردار ختم کرنا، اب ایک طرف نواز شریف ہر تقریر میں ہر برائی فوج کے کھاتے میں ڈال رہے اور ایک طرف مریم نواز کافرمانا، سلیکٹرز سیاست سے پرے ہٹ جائیں، جبکہ دوسری طرف کوئٹہ جلسے سے پہلے اور کراچی جلسے کے بعد لیگی ترجمان مریم اورنگزیب کہہ رہی تھیں، آرمی چیف مریم نواز ہوٹل کمرے کا دروازہ توڑنے کی تحقیقات کروائیں، کیوں کیسی رہی یہ سویلین بالادستی؟ سندھ حکومت نہیں، وفاقی حکومت نہیں، پولیس، ایف آئی اے نہیں، کوئی سویلین ادارہ نہیں، آرمی سربراہ سے درخواست ہورہی تحقیقات کی، اُسی آرمی چیف سے درخواست جسکی جھولی میں ہر برائی ڈالی جارہی، جسے تقسیمِ ہند سے پہلے کے کاموں کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا، ایک طرف جس سے شکایتیں دوسر ی طرف اُسی سے درخواستیں، پیارے بچو، یہ ہوتی ہے سچی تے سُچی سویلین بالادستی۔

مریم نواز مسنگ پرسنز کے لواحقین کے ساتھ بیٹھیں، ان کے دکھ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آئے، میری دل سے دعا، ﷲ کرے اس ملک میں کوئی مسنگ پرسن نہ ہو، کوئی مسنگ پرسن نہ رہے، مگر پوچھنا یہ، 5سال لیگی حکومت رہی، مریم نواز کبھی کسی مسنگ پرسن کیمپ میں بیٹھی ہوں،کبھی اس درد، اس جوش، اس ولولے کے ساتھ کسی جلسے جلسوس میں مسنگ پرسن کا مدعا اُٹھایا ہو، کبھی اس سے پہلے مسنگ پرسن کے دکھوں پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکلے ہوں؟ یہاں محمود اچکزئی بھی یاد آرہے، جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، مجبور نہ کیا جائے کہ افغان بارڈر باڑ اکھاڑ پھینکیں، اب محترم اچکزئی کو یاد نہیں رہا، باڑ منظوری اور ابتدائی کام نواز شریف دور میں شروع ہوا، تب اچکزئی صاحب ان کے حکومتی پارٹنر تھے، تب کیوں چپ رہے؟ نجانے اچکزئی صاحب کی گزرے سالوں میں باڑ پر نظر کیوں نہ پڑی، مگر کیا کریں، یہی ہماری سیاست، کوئٹہ جلسے میں مریم نواز اپنی تقریر میں ثناء ﷲ زہری حکومت گرانے کا یاد کروا رہی تھیں جبکہ اسٹیج پر پی پی بھی موجود تھی، جن کی پھونکوں سے یہ حکومت گری، پھر مولانا صاحب، مندوخیل صاحب، اختر مینگل جن کے دستخطوں سے زہری حکومت گئی، وہ سب بھی اسٹیج پر موجود تھے، مگر کس کے پاس اتنی فرصت کہ یہ سوچے، کس کے پاس اتنا وقت کہ وہ یہ یاد رکھے، یہاں ذاتی مفاد ہی سب کچھ، جب مفاد میں ہوا’برے کو برا‘ کہہ دیا، جب مفاد میں ہوا’برے کو اچھا‘ کہہ دیا۔یہی 73 سالہ المیہ، جو کچھ ہوا، ذاتی مفاد کیلئے ہوا، اکثر سوچوں، ہمارے مسائل کیا، ہم کن چکروں میں، دشمن اکٹھے، ہم تقسیم، کورونا کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دوسری لہر دستکیں دے رہی، دشمن کی کوشش شیعہ سنی فسادات کروانا، مہنگائی، بے روزگاری، قرضے، معاشی بدحالی، ہم سب چھوڑ چھاڑ کر غداری سرٹیفکیٹ بانٹنے میں لگے ہوئے، کیا کریں، حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہوپارہی، اپوزیشن کے پاس مہنگائی کنٹرول کا کوئی متبادل پلان نہیں، بس تقریریں ہی تقریریں، گلاں ای گلاں، نواز شریف کے ہر دوسرے فقرے میں، آئین کی بالادستی کا عزم، خود اشتہاری، عدالتیں بلار ہیں، آنہیں رہے، آئین کی بالادستی پر اتنا کامل یقین تو آئین کی پاسداری کریں اور عدالت آکر سرنڈر کریں، وزیراعظم آئے روز فرمارہے، این آر او نہیں دوں گا، نہ دیں این آراو، مگر حضور غریبوں کو مہنگائی سے این آر او دلوادیں، بے روزگاری سے این آر او دلوا دیں، پولیس، پٹوار اصلاحات کرکے کروڑوں کو اس استحصالی نظام سے این آر او دلوا دیں، حکومتی سقراطوں کو یہ معلوم کہ لندن میں نواز شریف، کرزئی ملاقات میں کیا ڈسکس ہوا؟ نواز شریف کن کن ممالک کے کن کن لوگوں سے مل چکے، نواز شریف کے پیچھے کون، انکے آگے کون؟ مگر حکومتی سقراطوں کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں، کوئی شہباز شریف کی نیب حراست میں 3لیگیوں سے ملاقات کو لیکر بیٹھا ہوا ہے، کوئی پی ڈی ایم کے اندر خانے پکی کھچڑی کے ذائقے بتا رہا، کوئی وزیراعظم کی نجی محفلوں کی گفتگو سنارہا، مگر عوام کو ریلیف کب ملے گا،عوامی مسائل کب حل ہوں گے؟ کسی کوکوئی خبر نہیں۔

پچھلے دنوں دو وزیر اکٹھے بیٹھے مل گئے، جب وہ اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ، امریکی صدارتی انتخابات، ایک دوست ملک کی ناراضی اور اگلے 3ماہ کا منظر نامہ کھینچ چکے تو میں نے ایسے ہی پوچھ لیا،27ماہ ہوگئے آپ دونوں کو وزیر بنے ہوئے، 3تین کام جو کئے ہوں؟ ظاہر ہے اس کے بعد انہوں نے اپنی گھڑیاں دیکھنا تھیں، انہیں کام یاد آجانا تھے، محفل برخاست ہونا تھی، سو ایسے ہی ہوا اور ظاہر ہے، اس گستاخی کے بعد کافی، سینڈ وچز کا بل مجھے ہی دینا تھا، لہٰذا میں نے ہی دیا، ابھی پچھلے کابینہ اجلاس میں وزیراعظم بتارہے تھے کہ میں نے گندم بحران آتا دیکھ کر 11خط لکھے مگر بیوروکریسی نے ایک نہ سنی، اوپر ایماندار ہو تو نیچے سب ٹھیک ہوجاتا ہے، اوپر ایماندار ہو مگر نیچے سب بے ایمان ہوں تو کچھ نہیں ہو پاتا کے بعد تیسرا فارمولا حاضر ہے، خالی ایماندار نہیں، بندے کو عقلمند اور تجربہ کار بھی ہونا چاہیے، وزیراعظم کو کون سمجھائے جب ٹیم نکمی ہو تو بنے بنائے کام بگڑجاتے ہیں، وزیراعظم کو کون بتائے وقت گزرتا جارہا ہے، وقت کسی کا نہیں ہوتا اور وقت ایک سا نہیں رہتا

Courtesy jang news