انصاف آزاد بھی ہو اور فوری بھی

تحریر: سہیل دانش

1972کی ایک رات تھی ایک مصری جوڑا جدہ سے مکہ کی طرف محو سفر تھا ہنی مون کے بعدیہ دونوں میاں بیوی عمرہ کی غرض سے قاہرہ سے جدہ پہنچے تھے۔ ہائی وے پر دو شہزادوں سمیت ان کے دوستوں نے ان کی گاڑی روکی اور اس جوڑے کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب خبر رسانی اور سیکوریٹی کا اتنا کڑا جدید نظام نہیں تھا۔ ان لوگوں نے خاتون کو تین دن تک زیادتی کا نشانہ بنا یا اور پھر انہیں ایک سنسان علاقے میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ متاثرہ میاں بیوی نے جدہ پہنچ کر اس وقعہ کی رپورٹ درج کرائی۔ سعودی حکومت نے انہیں فوری طبی امداد اور سیکوریٹی فراہم کیا اور ان سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں ملزمان کو گرفتار کرنے اور سزا سنانے تک وہ جدہ میں قیام کریں۔ خبر انٹر نیشنل پریس تک پہنچ گئی اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سعودی فرمانروا جلالۃ الملک شاہ فیصل بن عبد العزیز نے 72گھنٹے میں ملزمان کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ تمام سیکوریٹی ادارے اور پولیس حرکت میں آئی اور یہ تمام با اثر نوجوان گرفتار کر لئے گئے۔ عدالت لگی اور جرم ثابت ہونے پر قاضی نے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ فیصلے کے بعد شاہ فیصل نے خانہ کعبہ کے امام اور مفتی اعظم سے مشاورت کے بعد عدالت سے سزائے موت کو سنگسار کرنے کی سزا میں تبدیل کرنے کی درخواست کی۔ پوری سعودی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ سعودی بادشاہ نے عدالت سے سزا میں ردو بدل کی درخواست کی ہو۔ شاہ فیصل کی دلیل یہ تھی کی کہ آقائے نامدار محمد عربی ﷺ کے حکم کی تعمیل اور تقلید ہماری ذمہ داری ہے۔ شاہ فیصل نے تمام دباوء اور اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سزاؤں پر عمل درآمد کا حکم دیا اور پھر چار فٹ کے گڑھوں میں ان سب مجرموں کو گاڑ کر سنگ باری کے ذریعے انجام تک پہنچا دیا گیا۔
اب میں آ پکو ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ 3فروری1998 کی صبح جب آدھی سے ذیادہ دنیا گرم بستروں میں خواب خرگوش کے مزرے لوٹ رہی تھی۔ ٹیکساس کی ایک38 سالہ کار لانے ٹکر کو زہریلا انجکشن لگا کر سزائے موت دے دی گئی۔ اس کی ماں طوائف تھی، لہذا وہ گندے ماحول اور عدم توجہی کے باعث ۸ سال کی عمر میں سگریٹ نوشی کی عادی ہو گئی، پھر وہ انہی راہوں پر چل نکلی۔ 1983 میں ایک رات اس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر ایک جوڑے سے موٹر سائیکل چھیننے کی کوشش کی، مزاحمت پر وہ طیش میں آ گئے اور انہوں نے گنتیوں سے اس جوڑے کے سینے کچل دیئے اور فرار ہو گئے لیکن چند ہی ہفتوں میں پولیس نے انہیں آ لیا۔ان پر مقدمہ چلا اور ٹیکساس کی عدالت نے انہیں سزائے موت دیدی۔ جس کے بعد اپیلوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا، ا س کا بوائے فرینڈ جیل میں بیمار ہو کر انتقال کر گیا اور وہ تنہا رہ گئی۔پھر جیل میں اس کی زندگی میں ایک نیا انقلاب آ گیا، اس انقلاب کے بعد اس کا نیا جنم ہوا اور یہ طوائف زادی اور قاتلہ کی جگہ ایک مبلغہ بن گئی۔ نفسیاتی سطح پر بیمار خاتون اللہ اور مسیح کے سوا کسی کا نام نہیں لیتی تھی،مگر پھر اس نے تبلیغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ وہ پارسائی اور عبادت کے راستے پر چلنے لگی، اس کی شخصیت میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور جیل میں کی اسکے تبلیغ کے اثرات اور چرچے ہونے لگے۔پھر یہ چرچے جیل سے باہر پہنچے تو اخبار کے رپورٹر جیل پر ٹوٹ پڑے اور اسکے انٹرویو دنیا کے تمام بڑے اخبارات اور رسائل میں شائع ہو ئے جس سے امریکہ کی معاشرتی زندگی میں ایک بھونچال آ گیا۔ پھر ہر کوئی اس کی سزا معاف کرنے کا مطالبہ کرنے لگا اور اس کی رہائی کے لئے تحریکیں شروع ہو گئیں۔ اپیلیں کی گئیں، احتجاج کی دھمکیاں دی گئیں لیکن قانون کے بہرے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یہاں تک کہ پوپ جان پال نے زندگی میں پہلی بار عدالت میں کسی قاتلہ کی سزا معاف کرنے کی درخواست دی لیکن نتیجہ وہی انکاررہا۔سزائے موت سے پندرہ روز قبل جب لیری کنگ جیل میں ٹکر کا انٹریو کرنے گیا تو دنیا نے سی این این پر ٹکر کا ایک مطمئن اور مسرور چہرہ دیکھا، جو پورے اطمینان سے ہر سوال کا جواب دے رہی تھی۔ لیری نے پوچھا تمھیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا، ٹکر نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور اپنی عمیق نظریں کیمرے پر گاڑکر بولی نہیں! مجھے صرف اور صرف موت کا انتظار ہے۔ میں جلد اپنے رب سے ملنا چاہتی ہوں اور اپنی کھلی آنکھوں سے اس ہستی کا دیدار کرنا چاہتی ہوں، جس رب نے میری ساری شخصیت بد ل کر رکھ دی یہ انٹرویو نشر ہونے کے اگلے دن پورے امریکہ میں شور مچ گیا۔ جس ٹکر نے دو معصوم شہریوں کے سینے کچلے تھے، وہ ٹکر ا نہیں ایک فرشتہ نظر آ رہا تھا ۔ انکے خیال میں ایسا فرشتہ صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے اور ایسے فرشتوں کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے فرشتے کو سزا دینا انصاف نہیں ظلم ہے۔ اس لئے رحم کی اپیل ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول کے سامنے پیش ہوئی مگر بورڈ کے تمام اراکین نے سزا معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ بورڈ کا فیصلہ سن کر عوام سڑکوں پر آ گئے اور ٹکر کی معافی کی درخواست لیکر ٹیکساس کے گورنر جارج بش کے پاس پہنچ گئے۔ امریکہ کے معزز ترین پادری جیسی جیکسن نے بھی ٹکر کی حمایت کر دی پھر گورنر نے درخواست سنی لیکن گورنر نے جیسی جیکشن اور ہجوم سے اظہار ہمدردی تو کی لیکن یہ کہہ کرٹکر کی سزا معاف کرنے سے معذرت کر لی کہ مجھے قانون پر عمل در آمد کرنے کے لئے گورنر بنایا گیا، مجرموں کو معاف کرنے کے لئے نہیں اور اگر یہ جرم اصلی فرشتے سے بھی سرزد ہوتا تو میں اسے کبھی معاف نہ کرتا۔
موت سے دو روز قبل ٹکر کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ میں پہنچی تو چیف جسٹس نے یہ لکھ کر درخواست واپس کر دی کہ اگر آج پوری دنیا کہے یہ یہ عورت کارلانے ٹکر نہیں ایک مقدس ہستی ہے تو بھی امریکہ کے قانون میں اس کے لئے ریلیف نہیں ہے کیونکہ جس عورت نے قتل کرتے ہوئے دو بے گناہ شہریوں کو کوئی رعائت نہیں دی، اسے دنیا کا کوئی منصف رعایت نہیں دے سکتا۔ ہم خدا سے پہلے ان دو لاشوں کے سامنے جواب دہ ہیں جنہیں اس عورت نے ناحق مار دیا۔ ۴ فروری کو جب ٹکرکے موت کی خبر نشر ہورہی تھی تو میرے ذہن میں حضرت علی ؓ کایہ قول زریں چمکنے لگا کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں۔
اب ہم ذرا اپنی طرف دیکھیں لاہور موٹر وے کا سانحہ ۶ ستمبر کی صبح تین بجے پیش آ یا۔ عابد علی عرف عالی اور شفقت علی عرف بگانے خاتون کو لوٹنے کے بعد ذیادتی کا نشانہ بنایا۔ خاتون کو پہلے عابد نے ریپ کیا اور اس دوران شفقت پستول تانے کھڑا رہا،پھر اس کے بعد عابد پستول تانے کھڑا ہو گیا اور شفقت نے خاتون کا ریپ کیا۔ عابد علی دوسری مرتبہ ریپ کر رہا تھا کہ پولیس کی آواز آئی تو یہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے۔ شفقت دوسرے دن دھر لیا گیا لیکن عابد علی ایک ماہ تک پولیس کے خوف سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھاگتا پھرتارہا۔پولیس موسٹ وانٹڈ مجرم کا تعاقب کرتی رہی، عابد علی نے گرفتار ہونا ہی تھا اور آخر کار یہ گرفتار ہو گیا۔ عابد علی ایک غریب نوجوان تھامگر کیا یہ ریاست کی نالائقی نہیں تھی کہ اس کے خلاف 14مقدمات درج تھے اور ان مقدمات میں یہ گرفتار بھی ہو چکا تھالیکن اس کے با وجود یہ ریاست کی نظروں سے اوجھل رہا۔ جب میں غور کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ اب روزمرہ کا معمول بن گیا ہے تو میں بڑا حیران اور پریشان ہوتا ہوں۔ہمارے ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے، سب حیران و پریشان ہیں، اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ ہمارے بعض دوست اس کی نفسیاتی وجوہات تلاش کر رہے ہیں، بعض بے روزگای، غربت اور افلاس کو جرائم کی وجہ قرار دے رہے ہیں اور بعض فرسٹریشن کا سبب بتا رہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے یہ سب ٹی وی ڈراموں اور اسمارٹ موبائل فون کا کیا دھرا ہے اور بعض عریانیت اور معاشرتی بے باکی کو اس راہ رواں کی وجہ قراردیتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمایئے کہ ہمارے ملک میں پولیس کو وہ اختیار بھی حاصل ہے جن کا چنگیز خان کے دور میں تصور بھی نہیں تھا۔ ہمارے حوالات جانوروں کے باڑوں سے ذیادہ بد تر اور غلیظ ہیں اور ہماری جیلوں کا حال غیر انسانی اور ظالمانہ ہے لیکن مجرموں کے ساتھ اس عبرتناک سلوک کے با وجود پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نہ صرف آبرو ریزی اور بچوں کے ساتھ ریپ جیسے وحشیانہ فعل سے لیکر قتل، فراڈ، ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم جیسے ہزاروں جرم ہوتے ہیں بلکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن میں وقت کے ساتھ ساتھ جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ اتنی خوفناک جیلوں میں اتنے سخت قوانین اور وارداتوں کے اتنے لرزہ خیز نتائج (جن میں پولیس مقابلے میں مرنے کے احکامات بھی ہوتے ہیں) کے با وجود جرائم کے تناسب میں اتنا اضافہ کیوں؟ اس کا جواب بھی بڑا سیدھا سادا اور واضح ہے، دراصل پاکستان میں قوانین تو شروع سے سخت بنائے گئے لیکن انصاف کا عمل اتنا نرم اور ڈھیلا اور طویل رکھا گیا کہ مدعیوں کی تین نسلیں فیصلہ سننے کی آس میں قبروں تک پہنچ جاتی ہیں لیکن سماعتیں، پیشیاں، گواہیاں، تاریخی ثبوت، اسٹامپ پیپر، شہادتیں، شناختی پریڈیں اور ڈی این اے ٹیسٹ میچنگ کا عمل طویل سے طویل ہوتا جاتا ہے،جسکی وجہ سے ملزموں کو معلوم ہو گیا کہ اگر ان کے پاس چند پیسے ہیں تو قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا،اسٹے آرڈر لینا، پیرول پر رہا ہوا اور ضمانت قبل از گرفتاری کا بندوبست کرنا کوئی مشکل کام نہیں، اس لئے ملک میں جرائم ہوتے رہے اورمجرم رہا ہوتے رہے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نظام عدل میں عدل کے علاوہ باقی سب کچھ ہے۔ اگر ہم نے یہ ملک چلانا ہے، اس سبز پرچم تلے زندگی گزارنی ہے اور اس شناختی کارڈ اور اس پاسپورٹ کے ساتھ رہنا ہے تو پھر ہمیں اس نظام کو بدلنا ہو گا اور ایسا نظام لانا ہوگا جس کے فیصلے آزاد بھی ہوں اور فوری بھی۔ اگر آ پکے عدل کا نظام آپ کو تحفظ نہیں دے سکتا، ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتا، مظلوم کو انصاف نہیں دلا سکتا تو پھر ایسے نظام اور اس کے ضابطوں کا کیا فائدہ ہے۔ قدرت کا قانون ہے جن معاشروں میں مظلوم کو انصاف نہیں ملتا انہیں زمین چاٹ جایا کرتی ہے۔اس لئے تساہلی نہ برتیں، ٹامک ٹوئیاں نہ ماریں اور اپنی تو جیحات و تشریحات پیش نہ کریں۔ خدا کے واسطے بچیوں کے ساتھ زیادتی اور خواتین کی بے حرمتی کے مجرموں کو تو سر عام پھانسی پر لٹکائیں اور ضرورت ہوتو اس معاملے پر قانون سازی کریں۔ عابد اور شفقت اور ان جیسے درجنوں بھیڑیوں کو پھانسی پر لٹکانے میں تکلف کس بات کا۔ اگر آب بھی ہچکچا ہٹ ہے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کو یاد رکھیں کہ عدل کے بغیر آپ مملکت کو بکھرنے سے نہیں روک سکتے۔