“رشتے بزنس تھوڑی ہوتے ہیں کہ اچھا چلتا رہے تو چلاتے جاؤ اور برا چلے تو بند کر دو

رپورٹ/ثناء بشير

تبصرہ ڈرامہ سیریل ثبات
از سارہ عمر
الریاض سعودی عرب.
———————-

“رشتے بزنس تھوڑی ہوتے ہیں کہ اچھا چلتا رہے تو چلاتے جاؤ اور برا چلے تو بند کر دو-”
گزشتہ روز ڈرامہ سیریل ثبات کی آخری قسط نشر کی گئی اور اس میں بولے گئے ڈاکٹر حارث کے یہ الفاظ دل میں اتر گئے-واقعی یہ رشتے زندگی کا انمول اثاثہ ہیں-جو محبت کرنے والے رشتوں سے محروم ہے وہ زندگی کی قیمتی دولت سے محروم ہے-
کسی بھی ڈرامے کی کامیابی میں کہانی کے ساتھ کرداروں کی اداکاری بھی بہت اہمیت رکھتی ہے-ڈرامہ سیریل “ثبات” پہلی قسط سے اب تک اپنی منفرد کہانی اور کرداروں کی بہترین اداکاری کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے-اس کو کاشف انور صاحب نے لکھا ساتھ ہی یاسر قریشی کے کردار میں اداکاری کے بھرپور جوہر بھی دکھائے-اس کے ڈائریکٹر شہزاد کشمیری صاحب ہیں-جیسے کے نام سے ہی ظاہر ہے،اس کہانی کا مرکزی خیال زندگی کی بے ثباتی کے متعلق ہے-اس دنیا میں کسی شے کو دوام نہیں سوائے رب کائنات کے-ہر شے فانی ہے اور ہر شے کو زوال ہے-اس خیال کو اس ڈرامے میں بہت اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے-ڈرامے کے کرداروں میں جہاں ایک جانب عنایہ عزیز(ماورا) جیسا مضبوط کردار ہے، دوسری جانب اس کے مدمقابل میرال فرید(سارہ شاہ) جیسا ضدی اور گھمنڈی کردار ہے جو اپنے آگے کسی کی ایک نہیں چلنے دیتا-
کہانی عنایہ اور حسن کی لڑائی سے شروع ہوتی ہے، جب عنایہ حسن کی دولت پہ ظنز کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر اس کے پاس باپ کا پیسہ نہ ہو تو وہ کچھ کر نہیں سکتا-اس بات کو حسن چیلنج سمجھ کر قبول کر لیتا ہے اور خود کچھ کر دیکھنے کا عزم کرتا ہے-تھوڑے دن ہی دھکے کھانے کے بعد وہ جان جاتا ہے کہ زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے-اس دنیا میں بہت سے لوگ بنیاد آسائشوں کے بغیر بھی جی رہے ہیں اور وہ خوش ہیں-خود اپنی کمائی سے کمائے گئے پیسوں سے خریدی ہر چیز کی نہ صرف قدر ہوتی ہے بلکہ ان کے استعمال سے خوشی بھی محسوس ہوتی ہے-اس وقت میں بھی میرال اور فرید صاحب حسن پہ طنز کرتے ہیں اور بارہا اس کو روکتے ہیں جبکہ میرال تو اس کا لیپ ٹاپ ہی توڑ دیتی ہے جس پہ حسن کے ساتھ ساتھ ناظرین کے دلوں کو بھی شدید دھچکا لگتا ہے مگر ایک اور دھچکا بھی ان کا منتظر ہوتا ہے جب میرال عنایہ کی شادی کی سیج کو آگ لگا دیتی ہے جس کو دیکھنا عنایہ کو نصیب بھی نہیں ہوتا-اس ڈرامے کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ اس میں ہر فنکار ہر سین میں اپنے کردار سے انصاف کرتا نظر آتا ہے-سیج توڑ کر آگ لگانے والے منظر میں میرال کی عنایہ سے نفرت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے مگر پھر یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے-حتیٰ کہ نند بھابھی کو سب اسٹاف کے سامنے تھپڑ بھی مار دیتی ہے-
بات کریں حسن اور عنایہ کی کیمسٹری کی تو ان کی جوڑی کو ایک ساتھ بہت پسند کیا گیا اور سب نے بے تابی سے ان کی شادی کا انتظار کیا-شادی کے بعد میرال کی وجہ سے جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر چھوٹے سے فلیٹ میں شفٹ ہوئے تو لگتا تھا کہ زندگی میں سکون آ جائے گا مگر جس کی میرال جیسی خود غرض اور انا پسند بہن ہو وہ کیسے کسی کو خوش دیکھ سکتی ہے-جہاں عنایہ اور حسن نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں وہیں میرال ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی بلکہ کاشف جیسے کیڑے کو ان دونوں کے پیچھے لگا دیتی ہے جو ان کے رشتے کی مضبوطی کو کھوکھلا کر دے اور بالآخر وہ اس مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے-
چھوٹے سے فلیٹ میں جہاں حسن کو زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے وہیں کاشف بار بار اس کے ذہن میں منفی خیالات اجاگر کرتا ہے-یہاں وہ کہاوت درست ثابت ہوتی ہے کہ
“انسان اپنے دوستوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے”
اگر دوست اس قدر منفی سوچ کا حامل ہو تو بالآخر آپ بھی منفی خیالات پر یقین کر ہی لیتے ہیں جیسے کہ حسن نے کاشف پہ کیا-حسن کا دوست کاشف جتنی منفی سوچیں اس تک منتقل کرتا ہے حسن انہیں بآسانی قبول کر لیتا ہے کیونکہ وہ عنایہ اور میرال کی نسبت کمزور کردار ہے جبکہ میرال کی دوست ایک بہت ہی مثبت سوچ رکھنے والی لڑکی دکھائی گئی ہے جو سارا وقت میرال کو صحیح غلط کا احساس دلاتی رہتی ہے مگر میرال ایک ضدی، انا پسند، خودغرض،اکھڑ قسم کی لڑکی ہے جسے اپنی بات ہمیشہ صحیح لگتی ہے اور وہ سب پہ اپنا حکم چلانا اپنا فرض سمجھتی ہے-سارہ خان اصل زندگی میں کافی نرم مذاج خاتون ہیں مگر اس ڈرامے میں ان کا کردار اس قدر منفرد ہے کہ شائقین بے اختیار نا چاہتے ہوئے بھی نفرت پہ مجبور ہو جاتے ہیں-یہی ولن کے کردار کی سب سے بڑی خاصیت ہے کہ ولن جس قدر طاقتور ہو گا، ہیرو اور ہیروئین کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنا ہی طاقت صرف کرنی پڑے گی-
کہانی آگے بڑھتی ہے اور کاشف کی محنتیں رنگ لے آتی ہیں جس دن عنایہ حسن کو ان کی ازدواجی زندگی کی سب سے بڑی خوشی بتانا چاہتی ہے اسی دن حسن اس کی کردار کشی کرتا اور عنایہ گھر چھوڑ دیتی ہے-یہاں عنایہ اس خبر کو سب سے چھپانے کا عہد کرتی ہے اور اس سلسلے میں آفس سے چھ ماہ کی چھٹی بھی لے لیتی ہے تاکہ حسن کو بھی اس خبر کے متعلق پتہ نہ چل سکے-مگر اب اس ڈرامے میں وہی صورتحال آ جاتی ہے کہ “جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے”
پھاپے کٹنی کا کردار ادا کرنے والے کاشف کو نہ صرف پتہ چل جاتا ہے کہ میرال پھوپھو بننے والی ہے بلکہ وہ پھوپھو کو بتاتا بھی ہے کہ پھوپھو جی یہ خبر ہے اب میرے لائق کوئی خدمت؟پھوپھو اسے اصلی پھوپھو بننے عنایہ کے گھر بھیجتی ہے کہ شاید وہاں کوئی چال چلی جا سکے مگر عنایہ اسے دروازے سے ہی چلتا کر دیتی ہے-
عنایہ کے والد کی وفات سے لے کر بچے کی پیدائش تک ہر خبر پہ کاشف نے نظر رکھی ہوئی ہے لیکن ایک بھی خبر حسن اور اس کے والدین تک نہیں پہنچتی-جہاں یہ ڈرامہ شائقین کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے وہیں اس کے اندر کچھ جھول بھی ہیں-جیسے حسن کی والدہ جانتی بھی ہیں کہ عنایہ بے قصور ہے مگر ایک سال میں وہ پلٹ کر عنایہ کی خبر بھی نہیں لیتیں، یہی وجہ ہے نہ وہ عزیز صاحب کے جنازے پہ آتی ہیں اور نہ ہی انہیں پوتے کے متعلق پتہ چلتا ہے-
عنایہ بھی جب پہلی بار ڈاکٹر کے پاس سے آتی ہے تو دس پندرہ دن بعد چھٹی کے لیے درخواست دے دیتی ہے-اب یقیناً اس چھ ماہ کی چھٹی میں نو ماہ مکمل تو نہیں ہوتے مگر بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ایک سین آتا ہے جس میں عنایہ دوستوں کے ساتھ کیک کاٹ رہی ہوتی ہے اور بچہ جو کہ سات آٹھ ماہ کا لگ رہا ہے، گود میں بیٹھا ہوتا ہے-کیک پہ ہیپی برتھ ڈے ابراهيم لکھا ہوتا ہے-یعنی بچہ ایک سال کا ہو گیا-یہ سین کافی الجھن کا باعث تھا، کیا واقعی بچہ ایک سال کا ہو گیا؟ کیا حسن اور عنایہ کو الگ ہوئے دو سال گزر گئے ہیں؟کیا کسی آفس میں ڈیڑھ سال کی چھٹی ملتی ہے؟
آفس جوائن کرنے کے بعد بھی وہ کولیگ کو کہتی ہے میں کراچی نہیں جا سکتی میرا بچہ بہت چھوٹا ہے-اس موقع پہ نہ کولیگ کو حیرت ہوتی ہے اور نہ ہی نئے باس یاسر قریشی کو جو آیا ہی عنایہ کو پریشان کرنے ہے-جس بات کو عنایہ حسن سے چھپا رہی ہے وہ بس تین لوگوں حسن، فرید صاحب اور ان کی بیگم سے ہی پوشیدہ ہے باقی میرال، کاشف، علی، یاسر قریشی، اور دیگر آفس والوں سب کو معلوم ہے-یہ بھی ایک واضح جھول ہے کیونکہ حسن جو اب تک زندگی کی طرف واپس نہیں پلٹا اور عنایہ کے غم میں تھا، عنایہ سے بالکل غافل رہا-بہرحال ڈرامے کی خوبصورتی یہی ہے کہ وہ ڈرامہ ہوتا ہے حقیقت نہیں-
گزشتہ روز اس کی آخری قسط منظرِ عام پر آئی
اور اسے شائقین کی بڑی تعداد نے سراہا-پاکستانی عوام نہایت جذباتی اور حساس قوم ہے،جو اصل کہانیوں میں بے شک سوتیلی ساس والا کردار ادا کرے مگر ڈراموں اور فلموں میں میاں بیوی میں دوری یا ہیرو ہیروئین میں علیحدگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی-اس کی واضح مثال “میرے پاس تم ہو” میں دانش کی موت کے وقت دیکھی جا سکتی تھی جب گھروں، سڑکوں، بازاروں میں دانش کی موت پہ ماتم کا سا سماں تھا-خواتین کے رونے کی بے تحاشا ویڈیوز وائرل ہوئیں اور خواتین نے اس وفات پہ اس قدر گریہ زاری کی کہ لگتا تھا کہ ان کے کسی قریبی کی موت ہو گئی-
اس ڈرامے میں منفی کردار، میرال کا اختتام اچھا دیکھایا گیا-جو کہ ایک مثبت اقدام ہے اور حقیقت قریب بھی-میرال کو جب اس کے کئے کی سزا ملی تو اس نے ناصرف سب سے معافی مانگی بلکہ اپنے گناہوں پر توبہ بھی کی-بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور انہیں اپنی رحمت سے معاف کر دیتا ہے-
میرال کے زوال کے متعلق اس کی نانی اسے آگاہ کرتی تھیں کہ ہر شے فانی ہے، کسی شے کو ثبات نہیں-میرال ایکسیڈنٹ کے بعد مفلوج ہو گی، تب اسے دوسروں کی زندگی خراب کرنے کی سزا مل گئی-دوسری جانب حسن کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے کاشف کی خوب دھلائی کی-وہ عنایہ کے پاس بھی معافی مانگنے گیا، مگر عنایہ نے اسے معاف نہیں کیا-اس وقت عنایہ کی والدہ کا کردار بھی ایک مثبت سوچ لے کر سامنے آیا کہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور حسن بچے کا باپ ہے، اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچے کے متعلق سوچو-یقیناً میاں بیوی کے رشتے میں اولاد ہمیشہ زنجیر کی طرح ہوتی ہے جو انہیں آپس میں جوڑے رکھتی ہے-
حسن اور عنایہ اتنی مشکلات کے بعد اچھے دنوں کا آغاز کرتے ہیں اور شائقین عنایہ اور حسن کو ان کے پیارے سے بیٹے ابراہیم کے ساتھ دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے-معصوم ابراہیم کی اداکاری بھی کمال رہی اور وہ شکل و صورت سے بھی عنایہ اور حسن کا بیٹا ہی لگا-بچے کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات نے یہ ثابت کر دیا کہ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے-
یہاں ڈاکٹر حارث کا کردار نبھانے والے عثمان مختار کی تعریف نہ کرنا بہت زیادتی ہو گی-میرال جیسی بدمزاج اور گھمنڈی عورت کا شوہر بے حد ٹھنڈے مذاج کا آدمی دکھایا گیا، جس نے بیوی کی ضد اور غصے کو نہایت صبر و تحمل سے برداشت کیا-جہاں ایکسیڈنٹ کی وجہ سے میرال کے غرور کا سر نیچا ہو گیا وہیں ڈاکٹر حارث کی توجہ اور محبت سے ان دونوں کا رشتہ ٹوٹنے سے بچ گیا-یہ تمام مرد حضرات کے لیے ایک بہترین سبق ہے کہ اگر وہ اپنی بیویوں کے غصے کو صبر و تحمل سے برداشت کریں تو یقیناً ان کا ازدواجی تعلق مضبوط ہو گا-اختتام پہ نہایت عمدہ الفاظ میں ڈاکٹر حارث اور میرال نے ہاتھ تھام کر زندگی بھر ساتھ نبھانے کا عہد کیا-کسی شدید منفی کردار کے ساتھ اس قدر انصاف شاید ہی پہلے کسی ڈرامے میں کیا گیا ہو-زیادہ تر ولن اور منفی کردار کا خاتمہ پاگل خانے،جیل یا مزار پہ بھیک مانگتے ہوئے دکھایا جاتا ہے-ڈرامے کا اختتام ان پر اثر الفاظ میں کیا گیا جو ڈاکٹر حارث کا حالِ دل سنا رہے ہیں-
یہ کڑی مسافت ہے
اس لیے یہ سوچا ہے
ہاتھ تھام کر تیرا
ساتھ چلتے جانا ہے
بت جو خود تراشے تھے
بن گئے خدا ہیں سب
ان کو زیر کرنا ہے
اب انہیں گرانا ہے
تم بدل گئے لیکن
میں وہیں پہ ٹھہرا ہوں
تیرے ساتھ باندھا جو
عہد وہ نبھانا ہے
روز میری ہستی سے
راکھ اڑتی رہتی ہے
کھو دیا جو تجھ کو جو
اور کیا گنوانا ہے
ڈرامے کا مرکزی خیال اچھا مثبت پیغام ہے کہ اپنی زندگی ایسے گزاری جائے کہ دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹنے والی ہو-یہ زندگی فانی ہے جس میں ہر کسی کے آنے اور جانے کا وقت مقرر ہے،آپ نے اپنا کردار زندگی میں جیسا نبھایا ہے ویسا ہی صلہ آپ کو ملے گا-اچھے کردار کا بھلا انجام اور برے کردار کا بد انجام-اس لیے دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں بھی اپنی زندگی میں مثبت کردار ادا کرنے والا انسان بننا چاہیے-اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں تقسیم کرنے والا بنائے آمین-
بے شک ڈرامہ سیریل “ثبات” کی طرح کے مثبت ڈرامے مدت تک یاد رکھے جائیں گے-مصنفین اور ڈائریکٹرز کو چاہیے کہ اس طرح کے سبق آموز ڈراموں پہ کام کرتے رہیں تاکہ معاشرے میں مثبت سوچ رکھنے والے کردار پروان چڑھیں-