بیوی سے اپنا رشتہ ثابت کرنے میں مشکل ہوتی ہے: کیلاشی خاوند

کیلاش قبیلے کے لوگ پرامید ہیں کہ رواں سال کے آخر تک شادی ایکٹ نافذ ہونے کے بعد ان کے شادی بیاہ کے معاملات لکھت میں آ جائیں گے۔

سید اولاد الدین شاہ صحافی
—————————–
پاکستان کے شمالی ضلع چترال میں بسنے والے کیلاش قبیلے کے لوگ پرامید ہیں کہ ان کے لیے مخصوص شادی ایکٹ رواں سال کے آخر تک نافذ ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق کیلاش قبیلے میں اب تک زبانی کلامی شادی کے معاملات طے پاتے تھے لیکن اب اسے قانونی شکل مل جائے گی۔ اس حوالے سے ایکٹ کی ڈرافٹنگ کا عمل شروع ہو چکا ہے، جسے دسمبر تک اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔

رہائشی فتح کیلاش کہتے ہیں: ’یہ ایک خوش آئند بات ہے، ہماری شادی بیاہ بھی لکھت میں ہوگی اور قانونی تحفظ ملے گا۔ اب تک شادی قانونی تو ہوتی تھی لیکن زبانی کلامی، اس اقدام سے ہماری بھی شادی رجسٹرڈ ہوگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون سازی پر کیلاش قبیلے سے رائے ضرور پوچھنی چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش وادی میں شادی بیاہ میں پیچیدگیاں بہت ہیں۔ کچھ لڑکیاں قبیلے سے باہر شادی کرتی ہیں اور طلاق ہونے کی صورت میں وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتی ہیں اور انہیں سابق شوہر سے کچھ نہیں ملتا۔

فتح نے تجویز دی کہ شادی ایکٹ میں والدین یا سرپرست کی موجودگی کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنے مطالبات رکھ سکیں۔

کیلاش قبیلے کے چیف قاضی شیر زادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’یہ ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ ہمارے لیے بھی قانون ہو اور ہماری شادیاں قانونی اور لکھت میں ہوں۔ ہم چترال سے باہر اپنی فیملی کو لے کر نہیں جا سکتے اور بعض اوقات بیوی کے ساتھ اپنا رشتہ ثابت کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ شادی سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی مسائل سے دوچار ہیں، شادی صرف زبانی کلامی ہوتی ہے اور جب کوئی تنازع ہوتا ہے تو پھر راضی نامہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر شادی کے وقت ہی شرائط طے ہوں تو مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔

نابیگ شراکٹ کیلاش ایڈوکیٹ نے واضح کیا کہ ان کے لیے کوئی نیا قانون نہیں بن رہا بلکہ پہلے سے موجود قانون کو لکھت میں لایا جا رہا ہے، جس کے لیے تین وادیوں کے 70 سے 74 قاضیوں کی رائے لی جا رہی ہے۔

’ان قاضیوں میں مردوں کے علاوہ خواتین قاضی بھی ہیں۔ قانون کو بنانے میں خواتین کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا اور دسمبر کے آخر تک ڈرافٹ مکمل کرکے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پہلے میرج سرٹیفیکیٹ قاضی جاری کرتا تھا، جس پر اس کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ ’اب جب یہ قانون اسمبلی سے پاس ہوگا تو حکومت پاکستان کی طرف سے سرٹیفیکٹ جاری ہوگا۔ ہمارے ہاں جہیز اور مہر وغیرہ کا تصور نہیں، شادی کے بعد لڑکے پر لازم ہے کہ وہ لڑکی کے علاوہ اس کے گھر والوں کا بھی خیال رکھے، یہ معاملہ زندگی بھر چلتا رہتا ہے۔‘

اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کے رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔
————-from—-IndependentUrdu—-pages—-