مغربی احساسِ کمتری کا شاخسانہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر
عبادالرحمان(عابی مکھنوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی دُنیا میں وقفے وقفے سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر حکومتی سرپرستی میں حملے کیوں کیے جا رہے ہیں ؟
بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ وہ مسلمانوں کی غیرت چیک کرنے کے لیے یہ گھناؤنی حرکتیں کرتے ہیں ۔
میں غلط ہو سکتا ہوں لیکن یہ بہت بڑا مغالطہ ہے ۔
مسلمانوں کی غیرت تو وہ بہت سے میدانوں میں چیک کر چکے ہیں ، سوائے افغانستان کے انہیں آج تک کہیں مایوسی نہیں ہوئی ۔
یہ بہت تفصیلی بحث ہو سکتی ہے لیکن اشارتاً عرض ہے کہ قبلہ اول ، شام ، عراق ، یمن ، لیبیا اور کشمیر جیسے میدانوں میں ہماری غیرت کافی سے زیادہ ٹیسٹ ہو چکی ہے ۔
پنجاب میں ایک اصطلاح ہے ” ڈنکی لگانا ” جس کا مطلب ہے کنٹینروں میں بند ہو کر ، لاکھوں روپے ادا کر کے براستہ ایران ، ترکی یورپ پہنچنے کی کوشش کرنا اور پھر وہاں دوسرے درجے کے شہری والی زندگی گزارتے ہوئے روشن مستقبل کی تعمیر کرنا ۔
مسلمانوں بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کی غیرت وہ جنرل مشرف کے ذریعے اور دیگر دیسی جمہوروں کے توسط سے بھی ایک عرصے سے چیک کرتے چلے آ رہے ہیں ۔
تو مسلمانوں کی غیرت تو کوئی معمہ نہیں کہ جسے حل نہ کیا جا سکے اور مغربی دنیا کی طرف سے کوشش ہو رہی ہو ۔
میں ابھی مسلم ممالک میں رائج کفریہ اور ظالمانہ نظام کی تو بات ہی نہیں کر رہا کہ جس کو ہر مسلم ملک کے شہری خوشی خوشی گلے لگا کر زندگی گزار رہے ہیں ۔
نہ میں ویران مساجد اور آباد سینما گھروں کا ذکر کروں گا ۔
میں قرآن پر جمی گرد اور چمکتے دمکتے موبائلوں کا ذکر بھی نہیں کر رہا ۔
باقی جو کچھ مسلمان بناتے اور بیچتے ہیں ، اُسے بھی رہنے دیں ۔
تو یہ دشمنی مسلمان دشمنی تو بالکل بھی نہیں ۔
یہ دراصل مغربی نظریات کی محمدی نظریات کے مقابل پسپائی سے متعلق احساس کمتری کا شاخسانہ ہے ۔
بڑے بڑے مغربی اسکالر جب سیرتِ محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ سائنسی بنیادوں پر بھی محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے کردار اور کارناموں پر انگلی اٹھانے سے معذور ہو جاتے ہیں ۔
یہ معلومات کی دنیا ہے ۔ آج سے ڈیڑھ دو سو سال قبل تک مغرب نے بالخصوص نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو خود ساختہ کہانیوں کی دھند میں چھپا رکھا تھا ۔
اب جب معلومات کا سیلاب آیا ہے تو مغربی عوام تک سیرتِ طیبہ کی شفاف جھلک پہنچی ہے اور وہ انگشت بدنداں ہیں کہ یہ تو مذہب کی اُس تعریف سے بالکل ہٹ کر ہے جس سے آزادی حاصل کر کے انہوں نے مادی ترقی حاصل کی ۔
اُس مادی ترقی کے حصول کے دوران جو روحانی قباحتیں مغربی سوسائٹی کا حصہ بن گئیں اُن کا علاج اُن کی مادی ترقی کو روکے بغیر محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دراقدس سے ملتا ہے ۔
اب یہ بڑی گھمبیر صورتحال تھی ۔
اسے کیسے ہینڈل کیا جائے ؟
اسے ہینڈل کرنے کے لیے انہیں اپنی ہی اقدار کے خلاف جانا پڑا ۔
فریڈم آف ایکسپریشن کا جس انداز سے اس وقت مغربی حکومتیں اظہار کر رہی ہیں یہ اُن کے اپنے اصولوں سے متصادم ہے ۔
صدر ایردوآن نے میکرون کو محض دماغی مریض کہا تو یہ سفارتی بے ادبی کہلائی ۔
حالانکہ یہ فریڈم آف ایکسپریشن ہی تو ہے ۔
کوئی صحافی کسی پریس کانفرنس میں میکرون سے یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ کیا آپ کو اپنے باپ کا نام معلوم ہے ؟
اس کا سیدھا سا جواب ہونا چاہیے کہ ” جی معلوم ہے ” لیکن وہ اسے بے ادبی کے زمرے میں لے جائے گا ۔
چند احباب کا اصرار رہا کہ آپ کی کوئی احتجاجی پوسٹ نہیں آئی ۔
دیکھیں ! یہ بہت نازک موضوع ہے ۔ میں دل کی بات لکھوں گا تو مجمع شاید مجھے ہی کسی چوک پر گستاخ کہہ کر مار دے ۔
دنیا کا سب سے آسان کام شور میں شور ملانا ہے ۔
اور مشکل ترین کام گہری اندھیری رات کے سناٹے میں کوئی دیا ہاتھ میں سنبھال کر کسی چوک چوراہے پر بیٹھنا ہے ۔
یار !!! عشق بہت مشکل کام ہے ، اسے اتنا آسان مت بناؤ !
آپ نے کبھی فجر کی اذان کے بعد پاکستان کے کسی محلے میں ہلچل دیکھی ہے کہ گھروں میں روشنی ہو رہی ہو ، بچے ، جوان اور بوڑھے جوق در جوق مسجد کی طرف رواں دواں ہوں ۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے وصال سے قبل جن چند چیزوں کا خیال رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی اُن میں ایک نماز بھی تھی ۔
کم از کم میرے محلے پر تو اسرائیل کا قبضہ ہے ۔ فجر میں سو فیصد سناٹا ہوتا ہے ۔
گرم بستر چھوڑنے کا نام عشق ہے ۔
دھوکا دینے سے اس لیے باز آ جانا کہ میں محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا امتی ہوں ، یہ عشق ہے ۔
ایک طویل فہرست بن سکتی ہے ۔
اب ایمان کے کم ترین درجے کو ڈی پی چینج کرنے تک لے جانا اگر عشق ہے تو اس عشق سے میکرون اور اُس کی لابی کو کاہل اور سست مومن ہی نظر آئیں گے ۔
وہ ہمیں جس روپ میں اپنی پبلک کو دکھانا چاہتے ہیں ، ہم وہ روپ انہیں عشق کے عنوان سے پیش کر دیتے ہیں ۔
میں نے بہت غور کیا ، میرے گھر میں اتفاق سے فرانس کی کوئی چیز استعمال نہیں ہوتی ۔
مجھے ” ٹوٹل پیٹرول پمپ ” سے متعلق خبر ملی کہ فرانس کا ہے تو میں نے وہاں سے پیٹرول کی خریداری تا حیات ترک کر دی ہے ۔
لیکن میرے لیے یہ عشق نہیں ہے ایک انتہائی آسان اور معمولی سا کام ہے ۔
آسٹریا اور جرمنی سمیت چند دیگر ممالک بھی فرانس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ڈھونڈ رہا تھا کہ اِن کی کوئی پراڈکٹ تو میرے گھر میں کہیں استعمال نہیں ہوتی ۔
اب اصل مسئلہ کہ مغرب محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مقابل احساسِ کمتری میں کیوں مبتلا ہے ۔
اُن کے پاس بہترین یونیورسٹیاں اور پروفیسرز ہیں لیکن وہ اپنی نوجوان نسل کو محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کی شخصیت اور تعلیمات کی کشش سے دُور نہیں رکھ پا رہے ۔
ایک ہی حل بچتا ہے اُن کے پاس کہ ہمارے لسانی ، قومی ، فرقہ وارانہ تعصب سے لبریز معاشروں کی تصویر مغربی عوام کے سامنے پیش کر کے ملبہ اسلام پر گرایا جائے ۔
اللہ رب العزت کے قرآن مجید میں بہت سے وعدے ہیں ۔
کچھ غیر مشروط وعدے ہیں اور چند مشروط وعدے ہیں ۔
غیر مشروط وعدوں میں دو عدد وعدے سرفہرست ہیں ۔
نمبر ایک کہ قرآن مجید کی حفاظت میں کروں گا ۔
قرآن مجید مکمل محفوظ ہے ۔
دوسرا وعدہ ہے کہ میں نے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کر دیا ہے ۔
درج بالا دونوں وعدے غیر مشروط ہیں اور خالصتاً اللہ رب العزت نے دونوں کام اپنے ذمے لیے ہیں اور صدیاں گواہ ہیں کہ دونوں وعدے ایفا ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔
ایک تیسرا وعدہ ہے ۔
مفہوم ہے کہ اگر تم مومن ہوئے یا رہے تو غالب رہو گے ۔
یہ مشروط وعدہ ہے ۔
غلبے کے ساتھ مومن ہونے کی شرط ہے ۔
کیا ہم غالب ہیں ؟؟؟؟؟
کیا ہم مومن ہیں ؟؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔