محسن انسانیت کی آمد

انسان اپنے سارے حواس سے کام لے کر بھی اس علم کو نہیں پہنچ سکتا جو اس کی روح کو شاد اور مطمئن کرسکے اس لیے اللہ تعالی نے انسانیت کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنے خاص و برگزیدہ بندوں کو مقرر فرمایا اور پھر ان ہی کے ذریعے نوع انسانی پر احسان عظیم فرماتے ہوئے ایک نظام عدل پیدا فرمایا جس پر چلتے ہوئے انسان مقصد حیات کی تکمیل و تعمیل پاتا ہے انہی برگزیدہ مقرر کردہ ہستیوں کو وحی و الحام کے ذریعے اپنے خاص اوصاف سے آگاہی فرمائی جس سے انسان کا اپنے خدائے وحدہ لاشریک سے محبت و اطاعت کا باب کھلتا ہوتا ہے انہی برگزیدہ ہستیوں کو ہم اپنی لغت میں نبی، یا پیغمبر اور خاص قسم کی اصطلاحات و معنی کے مطابق رسول کہتے ہیں جن میں سب سے بلند و بالا مقام پیارے حبیب سیدی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جنہیں خاتم الانبیاء یعنی آخری نبی اور امام الانبیاء یعنی سب نبیوں کے امام جیسے عظیم المرتبت القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے یہ سلسلہ روز اول سے لیکر یہاں تک کہ انسانیت کے ارتقائی مدارج علم کے اس دور میں داخل ہوگئے جو انسانیت اور دنیا کا آخری دور تک جاری رہا اور یہ آخری دور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور رہتی دنیا تک جاری و ساری ہے انسان کی طلب و جستجو علم کی پیاس تکمیل انسانیت کے سارے راز انہی خاتم النییین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں سمیٹ دیے گئے ماہ مقدس ربیع الاول برکتوں اور رحمتوں کا وہ عظیم مہینہ ہے جس میں سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دنیا کو امن و سلامتی سے بھر دیا حضور صلی اللہ علیی وآلہ وسلم کے وجود اور آپ کی توصیف و تعریف سے کائنات کی بقاء و امن سلامتی کا معیار قائم ہے اور آپ ہی کے عظیم اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ کامیابی و ہدایت کی شمع ہےجو کہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے ہی حاصل ہوتی ہے اس کا حقیقی پیروکار بننے کے لیے ہمیں سیرت النبی اور تعلیمات قرآن کو عملی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا معاشرے کے معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے مواخات مدینہ اور ریاستی تحفظ اور دوسرے مذاہب کے ساتھ زندگی گزارنے کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے ہی حاصل کرنا ہو گا جس کی ایک بہترین مثال میثاق مدینہ اور پھر خطبہ حجة الوداع ہمارے سامنے موجود ہے ماہ ربیع الاول شریف انسانیت کے لیے موسم بہار اور فضل ربیع کا مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسی پیغمبر اعظم شفیع امت کی ولادت باسعادت کا بھی متبرک و مقدس مہینہ ہے جس کی بارہ تاریخ کو انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا محسن دوراں غم خوار امت آقا کریم علیہ الصلوة والسلام داعی و مبلغ بن کر اس دنیا میں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی زندگی اور آپ کے اعمال و افعال اور کردار و اخلاق بھی پوری انسانیت کے لیے نمونہ حیات ہے آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت کے کام کو پوری ذمہ داری کے ساتھ عام کیا جائے لوگوں کو آپ کی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے کیونکہ آپ کی تعلیمات اور پیغام ہی سے سماج ، معاشرہ یا سوسائٹی کو امن و امان کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے اور کرپشن و جھوٹ چوری اور دیگر جرائم سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے افسوس کہ ہم مسلمان صرف جلسے جلوس نعتیہ مشاعرے منعقد کرنے پر ہی اکتفاء کر چکے جب کہ اس معاملے میں ہر انسان پر فردا فردا ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام بحسن خوب و امانت داری سے انجام دے اور جو پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق ہے اس کا احسان اپنے شانوں اور علم پر محسوس کریں آپ نے پوری امت پر جو عظیم احسان فرمایا اس کا بلاشبہ کچھ نعم البدل ممکن ہی نہیں پس ہم پر لازم ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اپنائیں اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں اللہ کی مخلوق کو عزت و احترام دیں آج ہم دنیا کو دیکھانے کے لیے عظیم الشان محافل کا اہتمام تو کرتے ہیں نعت خوانوں پر نوٹوں کی بارشیں تو کرتے ہیں لیکن کسی مفلس و غریب بے سہارا کی مدد نہیں کرتے کیونکہ ایسے لوگوں کی مدد سے نا تو اس کی امیری کا چرچا ہوگا اور نا ہی اس کی یہ نیکی کسی اخبار یا ٹی وی کی زینت بنے گی یہ مہینہ محسن انسانیت آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں آمد کا مہینہ ہے اس مہینے کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم سرور کائنات کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی اور آخرت کو سنوار لیں #####