حق رائے دہی کے لیے عورتوں نے ”اصلی عورت“ کے ”نیک اور تابع فرمان بیوی اور ماں“ کے روایتی تصور کو چیلنج کیا

آج کی تاریخ تک کورونا کی جان لیوا وبا نے دنیا کے تیرہ لاکھ افراد کو شہر خموشاں میں دھکیل دیا ہے۔ اگرچہ ان مرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد امریکی شہریوں کی ہے، اس کے باوجود نومبر 2020ء میں ہونے صدارتی انتخابات نے ملک میں زندگی کی رمق سی پیدا کر دی ہے۔ مستقبل کے صدر، نائب صدر اور بقیہ نمائندوں کو چننے اور ووٹ دینے کا حق عوام میں طاقت پیدا کرتا ہے۔ یقیناً جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مردوں، عورتوں، معذوروں غرض ہر بالغ فرد کے لئے اپنے نمائندے کو چننے کا حق۔ لیکن کیا ہمیشہ ایسا ہی تھا؟ ہرگز نہیں۔

ازل سے آج تک مظلوم کو حقوق غضب کرنے والے طاقتور سے اپنا حق مانگنا ہی نہیں، چھیننا بھی پڑتا ہے۔ معاملہ نسلی، مذہبی تفریق یا معذوروں کی حق تلفی تک محدود نہیں، صنفی تفریق کی بنا پہ عورتوں کو ایوان بالا تک اپنی آواز کی شنوائی کے لیے ایک طویل جنگ لڑنی پڑی ہے۔ اس طرح سالہا سال کی صبر آزما جدوجہد کے بعد ہی انہیں قانونی طور پہ اپنی رائے دینے کا حق ووٹ کی صورت ملا ہے۔

گو عورتیں ہمیشہ ہی سے ہر قسم کے کاموں کی اہلیت رکھتی ہیں لیکن ایک صدی قبل تک مشرق ہی نہیں، مغرب کا پدر سری معاشرہ بھی ان کی صلاحیتوں کا قائل تھا اور نہ معترف۔ ان کی ذمہ داری گھر، بار اور شوہر کی اطاعت تک محدود تھی۔ معاشی محکومی کے سبب ان کی رائے سیاسی اور دوسرے اہم ملکی معاملات میں اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اور ووٹ دینے کا حق اس ناانصافی سے براہ راست تعلق رکھتا تھا۔

تاریخ میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو قدیم یونان اور روم ری پبلک میں بھی رائے دہی کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ مردوں میں بھی اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک رائے دہی کا حق اچھی آمدنی کی بنیاد پہ تھا۔ پھر خواندگی کی شرط کے علاوہ ووٹ کے حق کو مخصوص نسلی اور علاقائی گروپس تک محدود رکھا گیا۔ مثلاً جنوبی افریقہ اور امریکہ کے جنوب میں کالوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔

مردانہ سماج میں اپنی حق تلفی کا ادراک کرتے ہوئے انیسویں صدی کی وسط تک خاص کر یو ایس اور برطانیہ میں حق رائے دہی کے لیے عورتوں نے ”اصلی عورت“ کے ”نیک اور تابع فرمان بیوی اور ماں“ کے روایتی تصور کو چیلنج کیا۔ انہوں نے اپنے حق رائے دہی کی جدوجہد کے لیے تنظیمیں بنائیں اور تقریباً ایک صدی پہ مبنی مخالفتوں اور قید و بند کے بعد بالآخر اپنا حق حاصل کر لیا۔ آج دنیا کی تمام عورتیں اس حق کو استعمال کر رہی ہیں حتی کہ دسمبر 2015ء سے سعودی عرب جیسے دقیانوسی ملک میں، جہاں عورتوں کو کار چلانے کی آزادی بھی بمشکل ہی ملی، اب نہ صرف گاڑی چلا رہی ہیں بلکہ ووٹ دینے اور حکومت چلانے کی بھی حقدار بن رہی ہیں۔

گو امریکہ میں قومی سطح پہ عورتوں کی تحریک کے سالانہ کنونشن کا سلسلہ 1850ء سے جاری تھا۔ لیکن جب امریکہ میں 1863ء میں انتھک جدوجہد کے بعد تمام انسانوں کے برابری کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے، غلامی کے اختتام کا اعلان ہوا تو اس نے عورتوں کی جدوجہد کی تحریک کو بھی مہمیز دی۔ حق رائے دہی کی جدوجہد کی شروعات میں انیسویں صدی کی وسط میں خاص کر یو ایس اور برطانیہ میں عورتوں کی تنظیموں نے جنم لیا۔

1869ء میں دو خواتین لیی کریشیا موٹ (Lucretia Mott) اور الیزبتھ کیڈی اسٹنسٹسن (Elizabeth Cady Stanton) نے نیشنل ویمن سیفریج ایسوسی ایشن کی نیویارک میں بنیاد رکھی جس نے عورتوں کے طلاق کے حقوق، حق رائے دہی، ملازمت اور تنخواہوں میں تفریق کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ دونوں خواتین ایک دوسرے سے 1840ء میں انگلینڈ میں دنیا سے غلامی کے خلاف ہونے والی کنونشن میں ملی تھیں اور پھر ساتھ مل کر عورتوں کے حقوق پہ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

1851ء میں سوزن انتھونی (Susan Anthony) بھی جدوجہد کا حصہ بن گئیں۔ اس طرح 1880ء میں عورتوں کی پہلی بین الاقوامی تنظیم کا آغاز آئی سی ڈبلیو یعنی دی انٹرنیشنل کونسل آف ویمن کی بنیاد واشنگٹن ڈی سی میں پڑی۔ جس کا منشا تمام ممالک کی خواتین جماعتوں کے ساتھ مل کر سماجی حقوق، مساوات، انصاف اور امن کی بحالی کے لیے کام کرنا تھا۔ جس میں حق رائے دہی کی جدوجہد بھی شامل تھی۔ جلد ہی مزید ایک اور کچھ کم ریڈیکل گروپ امریکن ویمن سیفریج ایسوسی ایشن کا بھی آغازہوا۔ تاہم 1880ء کی دہائی میں اندازہ ہوا کہ مشترکہ مقاصد کی تحریکیں ضم ہو کر ہی موثر کام کر سکتی ہیں۔ اس طرح دنیا میں فرسٹ ویمن رائٹس کنونشن 1884ء میں منعقد پائی۔

ویسے تو 1914ء کی عالمی جنگ جان و مال کی تباہی کا پیغام لائی لیکن مردوں کے میدان جنگ میں لڑنے کے لیے روانہ ہونے کے بعد عورتوں کو گھر کے اندر، خاندان میں، صنعتی مارکیٹ اور جنگ کے محاذوں پہ اپنا غیر روایتی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ جس نے انہیں اقتصادی اور ذہنی طور پہ خود مختاری کا احساس دیا۔ اس اعتماد نے عورتوں کے حقوق کی آواز اور جدوجہد کو مزید توانائی دی، جس سے ایک ایک کر کے عورتوں کے حقوق کے مقفل کواڑ کھلنے ہونے لگے۔ اب عورتیں ملک کی معیشت میں حصہ دار بننے لگی تھیں۔ ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جانے لگا۔

عورتوں کے ووٹ کا حق یورپ میں سب سے پہلے نیوزی لینڈ میں 1893ء، جنوبی آسٹریلیا میں 1894ء، آسٹریا میں 1902ء، فن لینڈ میں 1906ء اور ناروے میں 1913ء میں ملا۔ 1918ء میں برطانیہ میں ویمن ایکٹ کے تحت بالآخر عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ اس طرح 1914ء سے 1939ء تک اٹھائیس مزید ممالک میں برابری کی بنیاد پہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ امریکہ میں قومی سطح پہ ووٹ دینے کا حق انیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد اگست 1920ء میں منظور ہوا جس کے تحت جنسی تفریق کی وجہ سے ووٹ کا حق مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

گو اسلامی شریعت کے تحت عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کو اپنے ریپ تک کا ثبوت دینے کے لیے بھی چار بالغ مرد گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی باوجود سب سے پہلے اسلامی ملک کا نام The Crimean People ’s Republic تھا۔ جہاں 1917ء میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا۔ جبکہ دنیا کا آخری اسلامی ملک سعودی عرب (2015 دسمبر) ہے۔ پاکستانی خواتین کی زندگی آج کے سماج میں اجیرن سہی مگر انہیں ووٹ کا حق پہلے آئین کے ساتھ 1956ء میں ملا تھا۔

آج دنیا کی نگاہیں امریکہ کے نومبر 2020ء کے قومی الیکشن پہ لگی ہیں جہاں خاتون کملا ہیرس نائب صدر کے لئے کھڑی ہوئی ہیں۔ 2016ء میں صدارت کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہوں یا موجودہ امریکی نائب صدر کی نامزد امیدوار کملا ہیرس، ہم جانتے ہیں کہ عورتوں کو ووٹ کا حق حاصل دلانے سے لے کر قومی سطح پہ اہم عہدوں کی نامزدگی تک کی جنگ آسان نہ تھی۔ مثلاً 1872ء میں صدارت کے لیے وکٹوریہ ووڈ ہل اپنی ایکول رائٹس پارٹی کی جانب سے امیدوار تھیں۔ غربت میں آنکھ کھولنے والی سماجی مساویانہ حقوق کی لیڈر، وال اسٹریٹ بروکریج فرم کو چلانے اور کارل مارکس کو متعارف کرنے والی نامور پبلیشر اور پراعتماد لیڈر۔ گو وہ منتخب نہ ہو سکیں لیکن ان کا اس زمانہ میں مرد کے مقابل کھڑا ہونا سماج میں عورتوں کی نمائندگی کی اہم پیش رفت تھی۔

آج 2020ء کے الیکشن میں جب ہم نائب صدر کی امیدوار کملا ہیرس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی اپنی پیشرو کی طرح منصفانہ قیادت کی صلاحیتں نظر آتی ہیں۔ پڑھے لکھے امیگرنٹ والدین کی چھپن سالہ کملا ہیرس جن کے خون میں افریقہ اور ہندوستان کی آمیزش ہے ایک نامور وکیل ہونے کے ساتھ تین کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی کملا ہیرس ریاست کی اٹارنی جنرل کے عہدے کے بعد سینیٹر بھی منتخب ہوئیں اور اپنی ملازمت کے دوران صحت، تعلیم، خاص کر مہاجروں کے حوالے سے، ہتھیاروں کے خلاف قانونی اہم منصوبے انجام دیے۔ ان کی شہرت ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ جارحانہ اور مدلل سوالات کے لحاظ سے اہم ہے۔ یقیناً کسی سماج میں انصاف کی بقا کے لیے سماج کو منصفانہ قیادت چاہیے۔ اور یقیناً انصاف کا اطلاق صنف اور جنس کی قیود سے آزاد ہے۔

————–گوہر تاج ———

—from—-humsub—-pages—–