بڑوں کی لڑائی


شازار جیلانی

—————–
سیاست کی تعریف، ’اقتدار کی جنگ‘ کی تنگنائی میں مقید ہو جائے تو پھر جنگ اور محبت کی طرح، اقتدار کی جنگ میں بھی سب جائز ہو جاتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں باوجود شدید قسم کے تحفظات کے مسلم لیگ نون، شہباز شریف کی معیت میں اسمبلیوں میں، ’کسی کے آسرے پر، براجمان ہوئی، تو وہ‘ جمہوریت کے خاطر، تھا۔ مریم نواز اس کے کچھ دنوں بعد گرجنے لگی۔ تو وہ قومی مفادات کا تقاضا تھا اور پھر چپ کا روزہ رکھنا پڑا تو وہ حالات کا ’تقاضا‘ تھا۔ اور اب پھر کفن پھاڑ کر بولنا عین قومی مفاد میں ہے۔

گرگ باراں دیدہ نے بہتیرہ سمجھایا تھا کہ اس جال میں نہ پھنسیں لیکن بنیا کا بیٹا کچھ دیکھ کر گرتا ہے۔ مقتدرہ نے خود کو غیر جانبدار بتا کر عمران خان کی اسمبلی اور حکومت کو قانونی حیثیت دلادی۔ وہ تو اس حکومت کی اپنی نا اہلی ہے۔ جس کی وجہ سے آج قدم اٹھانے اور منہ دکھانے کی قابل نہیں رہی اگر چہ مشیران غوغا کناں کی کوئی کمی نہیں اور اگر ہے تو وہ قحط رجال ہے۔

جس طرح شہباز شریف اور نواز شریف گڈ کاپ اور بیڈ کے کردار ادا کرنے میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح مقتدرہ اور عمران خان نے بھی گڈ اور بیڈ کاپ کی کمال کی فرمارمنس دی ہے۔ جب بھی آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے اور جہموری اصولوں کی پامالی کا موقع ملا، شریف برادران رقیبوں کی ٹولی میں نظر آئے۔ خواہ وہ حکومت کی وقتی ٹینشن ہو یا مقتدروں کی ایکسٹینشن، اسی عطار کے لونڈے کی دواء پر اکتفا کیا گیا۔ ماضی میں جب بھی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی شریفوں نے ایڑی سے ایڑی ملا کر سلام کیا۔ حزب اختلاف نے ٹی وی ٹاک شوز میں جوتے رکھے اور وزیراعظم نے ان کی اس تعاون کو جوتے کے نوک پر رکھا۔ لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔

شریفوں سے پہلے بین الاقوامی مقتدرہ نے شریفوں سے ہاتھ کیا جب ان کو یقین دلایا گیا کہ سی پیک شریفوں کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے۔ کیونکہ شریف برادران چین کے نہ چاہنے کے باوجود سی پیک کا ڈھول بہت زور زور سے بجا رہے تھے۔ تبدیلی آئی تو گڈ کاپ بن کر جس مقتدرہ نے اندرونی مضبوطی کی خاطر شہباز کو اپنی کلائی پر بٹھائے رکھا۔ اسی نے بین الاقوامی مقتدرہ کو بھی لارے لپے دلائے، لیکن تابکہ۔ آخرکار پیمانہ صبر لبریز ہوا۔ وعدے وعید قابل اعتبار نہیں رہے۔ سی پیک سول حکومت سے براہ راست فوجی مشیروں اور جرنیلوں کی نگرانی میں چلا گیا تو سب کو یقین ہو گیا کہ ’خرابی‘ کہاں ہے؟ دوبارہ رابطے قائم ہوئے۔ نئے سرے سے تعلقات استوار ہوئے۔ خاموشی کا روزہ توڑہ گیا۔ اور فرنٹ پر بیٹنگ شروع ہوئی۔

حکومت کو جب بھی کوئی سن گن ملی۔ فوری جواب دیا گیا۔ کبھی اسمبلی میں ’غلطی‘ سے اسامہ کو شہید کہا گیا تو کبھی ’برادر اسلامی ملک‘ پر کشمیر کے مسئلے پر بے وفائی اور بے اعتنائی کے الزامات لگائے گئے۔ اور بعد میں اس کو وقتی ابال اور ذاتی تبصرہ سمجھایا گیا۔ تو کبھی تقریروں میں خمینی کی مثالیں دی جانے لگیں اور کبھی ترکی ڈراموں کے ذریعے اپنی پسند ناپسند اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ چونکہ قرض کی مے پینے والے کبھی در میخانے کو لات مار کر نہیں کھول سکتے اس لیے اتنا ہی کافی سمجھا گیا۔ تیلیوں نے بھی یہی اندازہ لگایا تھا کہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اس لیے تیل کی دھار سے خنجر خاردار کا کام لیا جا رہا ہے۔

مقتدرہ کے پاس اب اندرونی معاملات کو قابو کرنے کے لئے زیادہ چوائس موجود ہیں نہ بیرونی حالات دو سال پہلے جیسے موافق ہیں۔ افغانستان سے حکمت یار جیسے چلے ہوئے کارتوس مہمان بنائے جا رہے ہیں۔ امارات میں پاکستانیوں کے لئے مزدوری مشکل بن رہی ہے۔ تو سعودیہ میں مقیم پاکستانی بھی کسی ناگہانی آفت کا شکار بن سکتے ہیں۔ کیونکہ شہزادہ سلیمان کے آنے کے بعد زلف آیاز میں وہ پیچ و خم ہی نہیں۔ اب سیدھا سادہ اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے کا سودہ ہے۔ نہ وہ پرانے نیاز مند ہیں نہ نیازمندی۔

ن لیگ کی اٹھان موقع پرستی اور اقتدار پرستی رہی ہے۔ یہاں اول و آخر اصول ہی اصول ہیں۔ اقتدار کی خاطر پیر پکڑنا بھی اصول پرستی ہے اور اقتدار کی خاطر شیروانی پہن پر مخالف کو عدالت کے ذریعے مقتدرہ کی خوشی کے لئے نا اہل کرانا بھی اصول پرستی ہے۔ خاموشی بھی اصولوں کی خاطر اور خاموشی توڑ کر بولنا بھی۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

مقتدرہ کے پاس کم سے کم تر ہوتے ہوئے آپشنز کے باوجود پیپلز پارٹی کے ساتھ راز و نیاز جاری اور رابطے قائم ہو رہے ہیں۔ گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل جاری ہے۔ سیاست کی طوائف تماش بینوں کے درمیان گری ہوئی ہے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا ہے۔ کہ سیٹنگ جرنیل کو پنجاب کا ایک سیاستدان للکار رہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ اداروں کو اشاروں کنایوں اور تمثیلی القابات کی بجائے سہل ممتنع میں یاد کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ بظاہر ایک جمہوری حکومت کو جرنیلوں کی صفائی ایک سیاسی احتجاجی تحریک کے سامنے دینی پڑ رہی ہے۔

سیاسی اتحادی تحریک میں بھی گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل جاری ہے۔ کسی نے حکومت کو اور کسی نے حکومت کے پیچھے بیٹھے ہوئے مقتدرہ کو اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔ لیکن سب سے دلچسپ کردار مسلم لیگ نون کا ہے۔ نواز شریف ایک بزنس مین کا بیٹا اور سود و زیاں سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ نہ کوئی محروم بلوچ نہ سرپھرا پشتون اور نہ مظلوم سندھی ہے۔ جو یوں طوفان نوح میں اپنے زور بازو پر تیرنے نکلے۔

کیا مسلم لیگ نون واقعی مایوسی کے کنارے پہنچی ہوئی ہے کہ اپنی ساری کشتیاں جلانے پر تیار ہوئی ہے یا ان کو سرنگ کے آخری دھانے پر کہیں سے روشنی نظر آ رہی ہے؟ کوئی آسرہ کوئی وعدہ ہے؟ آخر کوئی تو تھا جس نے نواز شریف کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود برطانیہ پہنچا کے چھوڑہ؟ سب سے نازک صورتحال سے مقتدرہ دوچار ہے۔ جو اپنی غیر جانبداری کی جتنی کوششیں کرتی ہے۔ اتنی ناکامی کا شکار ہو رہی ہے۔ کیونکہ حکومت کی بوجھ بڑھتی جا رہی ہے۔

غوغائے مشیران مہنگائی کا حل نہیں۔ لفاظی اور بقراطی نجات کا راستہ نہیں رہا۔ تبدیلی ننگی ہو گئی ہے۔ تقریریں الفاظ وعدے ارادے خواب سب بے وقعت ہیں۔ سیاست کا طالب علم ہونے کی بنا پر میں نے کبھی کسی جرنیل کو نجات دھندہ نہیں سمجھا۔ لیکن باجوہ صاحب کے لئے فیصلہ کن وقت آ گیا ہے۔ حل ان کے پاس ہے۔ پہلے بھی جرنیل ادارے پر پڑنے والی گرد کی خاطر ساری ذمہ داریاں اپنے سر لے کر حل کا حصہ بنے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی کچھ ہونا چاہیے۔ وقت کم ہے۔ کیونکہ یہ بڑوں کی لڑائی ہے اور بڑوں کی لڑائی میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیشہ نظر انداز کردی جاتی ہیں
————–from—Humsub—-pages—-