پاکستان میں پاکستان کے نامراد‘ نا خلف شہری پاکستان کو توڑنے اور صوبوں کو آزاد ریاستیں بنانے کے بیہودہ مطالبات کررہے ہیں ‘نعرے لگا رہے

پاکستان میں پاکستان کے نامراد‘ نا خلف شہری پاکستان کو توڑنے اور صوبوں کو آزاد ریاستیں بنانے کے بیہودہ مطالبات کررہے ہیں ‘نعرے لگا رہے ہیں اور قومی سلامتی اور قومی مفادات کے حامل منصوبوں کو بند کرنے کی باتیں سرعام‘ بے دھڑک کرنے لگے ہیں ۔افواج ِپاکستان کے سپہ سالار اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو جلسے جلوسوں میں چارج شیٹ کیا جارہا ہے‘ بغاوت کی دعوت ہی نہیں دی جارہی بلکہ کہا جارہا ہے کہ بس اپنے اپنے اداروں کے سربراہوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔نفرت آمیز اور زہرآلود زبان استعمال کی جارہی ہے‘ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پاکستان میں نہیں بلکہ دشمن ملک میں بیٹھے ہیں اور بی جے پی کے رہنماؤں کی تقریریں سن رہے ہیں اور انڈیا کے ٹی وی اخبارات دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ وطنِ عزیز کے خلاف بات کرنے والے دشمن ملک کی زبان بول رہے ہیں ‘وہی زبان جو مودی‘ ایڈوانی‘ بال ٹھاکرے‘راج ناتھ سنگھ‘ امیت شاہ اوراجیت دوول پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے خلاف بولتے تھے اور بول رہے ہیں ۔ وطن عزیز میں یہ نا خلف اور نامراد لوگ وہ مطالبات کررہے ہیں جو دشمن ملکوں کی ایجنسیاں کرتی ہیں۔ ان بے مروت اور بد لحاظ احسان فراموشوں کی قیادت کچھ ایسے خاندان کررہے ہیں جنہیں پاکستان کے عوام نے ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا‘ عزت دی‘ اقتدار دیا‘ لیکن جب وہ خاندان دھرتی ماں میں چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے‘ مال دوسرے ملکوں سے برآمد ہوا توملزم سے مجرم ٹھہرے ‘سزا ہوئی اورجیل گئے ‘لیکن پھر چونکہ وہ سسٹم کے لاڈلے تھے‘ بڑے پیار اور محنت سے یہ بت برسوں پہلے تراشے گئے تھے اس لیے انہیں جیلوں میں بھی بڑی شان و شوکت سے رکھا جاتا ہے اور پھر ان کی خواہش پر بیرون ملک بھی روانہ کردیا جاتا ہے اور ایسا بار بار ہوتا رہا ہے اورپھر واپسی شاہی طیاروں پر ہوتی ہے‘ ساتھ نان ونفقہ بھی بھیجا جاتا ہے تاکہ چند برسوں میں جو مالی نقصان ہوا اس کی تلافی ہوسکے ۔یہ خاندان تجربے کے اعتبار سے سب سے سینئر ہیں۔ جانتے ہیں کہ نقب کب‘ کہاں اور کیسے لگانی ہے اور برائے فروخت مال کہاں کہاں دستیاب ہے اور وہ کون سا انمول مال ہے جو پیسوں کے عوض نہیں بلکہ منصب کی پیشکش سے اپنی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ خاندان سب سے بڑے خریدار ہیں ‘ یہاں تک کہ دانش خریدنے کا سلسلہ بھی انہی لوگوں نے شروع کیا تھا اور آج تک جاری ہے‘ وہ سارے بیانیے ‘ساری تحریک‘ جلسے جلوسوں کے بد روح رواں ہیں اور پھر ان کے ہمنواؤں میں وہ خاندان بھی شامل ہیں جن کی اولادیں اپنے قد کاٹھ سے بڑی بڑی باتیں کررہی ہیں۔ قبائلی علاقوں کوضم کرکے قومی دھارے میں لانے سے متعلق قانون سازی ہو یا پاک افغان بین الاقوامی سرحد کو متنازع بنانا ‘گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی بات ہو یا سی پیک منصوبے‘ یہ تمام خاندان ان تمام قومی منصوبوں کے خلاف کھڑے نظرآتے ہیں ۔حالیہ تحریک کا آغاز گوجرانوالہ سے ہوا اور ایک سزا یافتہ مفرور و مطلوب مجرم نے ایک پراسیکیوٹر بن کر سپہ سالار کو چارج شیٹ کیا۔ وزیراعظم عمران خان کو چونکہ وہ اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے اس لیے ان پر طعن و تشنیع پر ہی اکتفا کیا۔ کراچی کے جلسے میں چونکہ میزبان آصف زرادری نے تقریر کی اجازت نہیں دی اس لیے باقی غصہ انہوں نے کوئٹہ کے جلسے میں نکالا اور صاف صاف بیان کیا کہ ان کا ہدف فوج کا ادارہ نہیں بلکہ چند کردار ہیں ۔
آخر یہ دونوں عہدے اس سزا یافتہ مفرور و مطلوب مجرم کے لیے ناقابل ِبرداشت کیوں ہیں؟ اگر یہ جرنیل ایسے ہی تھے تو پھر ان سے براہ راست اور گشتی ایلچیوں کے ذریعے رعایتیں کیوں مانگی گئیں؟ بیرونی دوستوں کے ذریعے دباؤ کیوں ڈلوایا گیا؟ پُرکشش ترغیبات کیوں دی گئیں؟ سات ستمبر سے پہلے تک یہ سب بہت اچھے تھے‘ بات چیت ‘رابطے‘ گپ شپ سب معمول کے مطابق تھا‘ ارشد ملک کی ریکارڈ کی گئی آڈیو ویڈیو ٹیپس کی دھمکی بھی کام نہ آئی اور گوجرانوالہ اور کوئٹہ میں انہیں مجرم ٹھہرایا گیا ۔ خصوصی ایلچیوں کے ذریعے ان ہاؤس تبدیلی میں فیور مانگی گئی‘ سزاؤں کو ختم کروانے اورنااہلی ختم کروانے کے لیے مدد مانگی گئی اور یہ دونوں ممکن نہ ہوں تو بیرون ملک جانے دیا جائے‘ جواب ملا کہ ایسا ممکن نہیں‘ اپنے معاملات خود حل کریں ‘ بوئے سلطانی میں مبتلا رہنے والے خاندان کو یہ بات پسند نہ آئی اور پھر جو زبان استعمال ہورہی ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔دوسری جانب موجودہ پارلیمانی جمہوری سیٹ اپ کو جعلی‘الیکشن دھاندلی زدہ اور سارے کے سارے نظام کو سلیکٹرز کی پیداوار کہا جارہا ہے‘ لیکن اگر ان کی بات مان لی جاتی یا مان لی جائے اوران ہاؤس تبدیلی کی صورت میں نیا وزیراعظم آجائے تو یہ سارے الزامات واپس اور جعلی الیکشن درست قراردیے جاسکتے ہیں، ”سلیکٹرز‘‘ سے صلح ہوسکتی ہے اور سول سپریمیسی بھی بحال ہوجائے گی‘ گویا معاملہ صرف ایوانِ اقتدار میں پہنچنا اور ان خاندانوں کا حقِ حکمرانی تسلیم کرنے کاہے نہ کہ سول سپریمیسی اور عوام کے حقِ حکمرانی کا۔
اب حکمت عملی کیا ہے؟ منصوبہ بندی کیا کی گئی ہے؟ مخبروں کی اطلاع کے مطابق بھرپور مہم چلائی جائے گی‘ عوامی حمایت میسر آجانے کی صورت میں ہدف کے حصول میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی‘ بقول رازدانوں کے نواز شریف کو سوشل میڈیا مہم کے ذریعے” سیاسی امام‘‘ اور کارکنوں کے لیے ”سول سپریمسی کا روحانی پیشوا‘‘ بنا کر پیش کیا جائے‘ جس کا اظہار بھی کیا گیا کہ جب تحریک زور شور سے چل پڑے اور اس تحریک میں اگلے مرحلے میں تاجروں‘ ٹریڈ یونینز‘ پریشر گروپس اور صحافیوں کو بھی شامل کیاجائے اور ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ ٹاپ تھری استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آیت اللہ خمینی یا کم از کم محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح لاہور کے ایئرپورٹ پر اترا جائے اور یہ عوامی سمندر سب کو بہا کرلے جائے‘ پھر سب کا آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل کیا جائے ‘کارگل سے لے کر سات ستمبر کی آخری ملاقاتوں میں کئے جانے والے انکار تک کا حساب لیا جائے۔یہ اہداف ہیں نئے بیانیے کے بعد اور ان اہداف کے حصول میں فنڈز کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘ بیرونی حمایت اور دباؤ بھی بڑھتا رہے گا‘ اس کے تمام ثبوت بلیک اینڈ وائٹ موجود ہیں۔ اہم ملکوں کے سفارتکار اندرون و بیرون ملک کن کن سے ملاقاتیں کررہے ہیں‘ پیغامات کا تبادلہ ہورہاہے‘ حکمت عملی کے تحت سب ایک منظم انداز میں ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں سپاٹ فکسر کہاں کہاں پائے جاتے ہیں‘ یہ پتا لگانا حکومت اور اداروں کا کام ہے کیونکہ اجیت دوول اور انڈین تجزیہ کار اور سیاسی اور فوجی حکام کے بیانات ان تمام اطلاعات کو تقویت دے رہے ہیں کہ ایجنڈے ‘ بیانیے اور اہداف میں مماثلت محض اتفاق نہیں ہے بلکہ کچھ تو ہے جو اتنی جارحیت دکھائی جارہی ہے۔ حکومت اور ادارے تاحال خاموش ہیں‘ ان حالات میں خاموشی کی نہیں بلکہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘ پاکستان کے عوام فرنٹ فُٹ پر کھیلنے کو پسند کرتے ہیں۔اُدھرفرانس کا صدر انتہا پسندی اور مذہبی دہشت گردی کی طرف گامزن ہے‘ کیا باقی مسلم ممالک بھی پاکستان‘ ترکی اور کویت کی طرح جرأت کا مظاہرہ کریں گے یا پھر اپنے معاشی مفادات ہی کے اسیر رہیں گے؟

Courtesy roznama duniya