توہین آمیزخاکوں کا ردعمل؛کویت میں فرانسیسی مصنوعات کا اجتماعی بائیکاٹ

العربیہ ڈاٹ نیٹ
فرانس میں اظہاررائے کی آزادی کے نام پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی توہین پر مبنی خاکوں کی ایک مرتبہ پھر تشہیر پر کویت میں سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ کویتی پرچون فروشوں نے فرانسیسی مصنوعات کا اجتماعی بائیکاٹ کردیا ہے اور انھوں نے اپنی دکانوں اور سپر اسٹورز سے فرانسیسی اشیاء ہٹا دی ہیں۔

کویت کی غیر سرکاری صارفین کوآپریٹو سوسائٹیز کی یونین نے جمعہ کو فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کے لیے ایک باضابطہ سرکلر جاری کیا تھا۔اس یونین میں کویت کی 70 سے زیادہ تنظیمیں شامل ہیں۔

اس کی اپیل پر دکان داروں نے اپنی دکانوں اور سپراسٹورز سے فرانسیسی کمپنیوں کی ساختہ مصنوعات بالخصوص بالوں اور چہرے کے تحفظ اور خوب صورتی کے لیے اشیاء کو شیلفوں سے ہٹا دیا ہے۔

یونین کے سربراہ فہدالکشتی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’’تمام فرانسیسی مصنوعات کو تمام صارف کوآپریٹو سوسائٹیوں سے ہٹادیا گیا ہے۔یہ آزادانہ فیصلہ فرانس میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی باربار توہین کے ردعمل میں کیا گیا ہے اور اس کا کویتی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

ان کوآپریٹو سوسائٹیوں میں بعض کویت شہر کی بڑی مارکیٹوں کے برابر ہیں اور یہ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے زر تلافی پرکویتیوں کو ارزاں اشیاء فروخت کرتی ہیں۔یہ بعض تعلیمی کورسز اور تفریحی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں ایک اسکول میں تاریخ کے استاد نے اپنی جماعت میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے دکھائے تھے۔اس پر ایک چیچن نژاد طالب علم طیش میں آگیا تھا اور اس نے گذشتہ جمعہ کو اس فرانسیسی استاد کا سرقلم کردیا تھا۔فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں نے مقتول استاد کی حرکت کا اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دفاع کیا ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے جمعہ کوایک بیان میں اس فرانسیسی استاد کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی اس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کسی بھی مذہب کی توہین کے جواز پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔

دریں اثناء کویتی وزیرخارجہ نے آج (اتوارکو) فرانسیسی سفیر سے ملاقات کی ہے۔انھوں نے 16 اکتوبر کے قتل کے جرم کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی قسم کی سرکاری یا سیاسی گفتگو میں کسی بھی انداز میں مذہب کی توہین سے گریزکیا جانا چاہیے تاکہ اس سے منافرت ،مخاصمت اور نسل پرستی پروان نہ چڑھے۔

کویت کے مرکزی شماریات بیورو کے مطابق اس نے 2019ء میں فرانس سے ساڑھے 25 کروڑ دینار (83کروڑ 47 لاکھ ڈالر) مالیت کی مختلف اشیاء درآمد کی تھیں۔2020ء کی پہلی ششماہی میں کویت نے فرانس سے آٹھ کروڑ 36 لاکھ دینار مالیت کی مصنوعات درآمد کی ہیں۔

ادھر عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب میں فرانسیسی سپرمارکیٹ ’کارفور‘ کے بائیکاٹ کے لیے ٹویٹر پر مہم چلائی جارہی ہے اور آج اس کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ دوسرے نمبر پر تھا۔

یادرہے کہ 2005ء میں ایک ڈینش اخبار نے سب سے پہلے توہین آمیز خاکے شائع کیےتھے۔اس کے ردعمل میں اسلامی دنیا میں ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی تھی۔ اس کے بعد فرانسیسی جریدے شارلی ایبڈو نے یہ خاکے دوبارہ شائع کیے تھے۔اس کے ردعمل میں 2015ء میں بعض مسلح مسلم نوجوانوں نے طنزیہ مواد شائع کرنے والے اس جریدے کے پیرس میں واقع دفتر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں کم سے کم دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اب ان توہین آمیز خاکوں کے دوبارہ منظرعام پر آنے کے بعد مسلم دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہے۔اس معاملے پر فرانس اور ترکی کے درمیان ایک نیا سفارتی تنازع بھی پیدا ہوگیا ہےاور فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے فرانسیسی ہم منصب عمانوایل ماکروں کے بارے میں اگلے روز کہا تھا کہ انھیں نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔انھوں نے فرانسیسی صدر کے اسلاموفوبیا سے متعلق ریمارکس اور اسلامی علاحدگی پسندی کے خلاف اعلان جنگ کے ردعمل میں یہ بیان جاری کیا تھا۔