فرانسیسی صدر جانتے بوجھتے مسلمانوں کو طیش دلا رہے ہیں، عمران خان

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئیٹس کے ایک سلسلے میں لکھا کہ ایک لیڈر کا کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو متحد کرے، جیسا کہ جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلس منڈیلا نے کیا تھا۔ عمران خان نے لکھا، ”یہ وقت ہے جب صدر ماکروں کو چاہیے تھا کہ وہ زخموں کو مندمل کرنے والے اور شدت پسندوں کو موقع نہ دینے والے اقدامات کرتے، اس کی بجائے کہ وہ زیادہ تقسیم پیدا کرنے والے یا کسی کو دیوار سے لگانے والے کام کریں جس کا نتیجہ لازمی طور پر شدت پسندی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

‘‘
پاکستانی وزیر اعظم نے مزید لکھا، ”یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ انہوں (ماکروں) نے اسلام کو نشانہ بنا کر اسلاموفوبیا کی حوصلہ افزائی کا راستہ چنا، بجائے اس کے کہ وہ ان دہشت گردوں کی بات کرتے جو تشدد کرتے ہیں، بھلے وہ مسلمان ہوں، گوری رنگت کی بالادستی کے حامی ہوں یا پھر نازی ذہنیت رکھنے والے ہوں۔

بدقسمتی سے صدر ماکروں نے اسلام اور ہمارے نبی کے خلاف توہین آمیز خاکوں کو چھاپنے کی حوصلہ افزائی کر کے جانتے بوجھتے مسلمانوں کو طیش دلانے کا راستہ چنا، جس میں ان کے اپنے شہری بھی شامل ہیں۔

‘‘
عمران خان نے اپنی ٹوئیٹس کے سلسلے میں مزید لکھا، ”اسلام کو ہدف بنا کر، واضح طور پر اس کو سمجھے بغیر، صدر ماکروں نے یورپ اور دنیا بھر میں بسنے والے کئی ملین مسلمانوں کو ہدف بنایا ہے اور ان کی دل آزاری کی۔‘‘

عمران کا اشارہ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں کی جانب سے بدھ 21 اکتوبر کو دیے گئے اس بیان کی طرف تھا جس میں انہوں نے اسلام پسندوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کے معاملے پر پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئیٹر پیغامات میں مزید لکھا، ”دنیا مزید تقسیم چاہتی ہے اور نہ ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ لوگوں کی طرف سے بے خبری پر مبنی بیانات سے مزید نفرت، اسلاموفوبیا اور شدت پسندوں کے لیے مزید جگہ پیدا ہو گی۔‘‘

رواں مہینے کے دوران فرانسیسی صدر ماکروں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جسے عالمی سطح پر بحرانی صورت حال کا سامنا ہے۔

ماکروں نے اسکولوں کی سخت نگرانی اور ایسی مساجد کے کنٹرول کو بہتر کرنے کی بھی بات کی، جنہیں غیر ملکی امداد فراہم ہوتی ہے۔
مقتول فرانسیسی ٹیچر کے لیے اعلیٰ ترین ملکی اعزاز

ماکروں کو دماغی معائنے کی ضرورت ہے، ایردوآن

’توہين برداشت نہيں کريں گے‘، فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا

خیال رہے کہ اس سے قبل ہفتہ 24 اکتوبر کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن بھی فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے اسلام مخالف بیانات کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

اپنی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے ایردوآن نے سوال اٹھايا، ”اس سربراہِ مملکت کے بارے میں کیا کہا جائے جو اپنے ہی ملک کے لاکھوں ایسے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک صرف اس لیے روا رکھے ہوئے ہے کہ ان کا مذہب مختلف ہے۔‘‘ ايردوآن نے سوال اٹھايا کہ ماکروں کو اسلام اور مسلمانوں سے مسئلہ ہے کيا؟ ترک صدر نے بعد ازاں اپنی تقرير کے دوران يہ بھی کہا کہ فرانسيسی صدر کو ‘دماغی معائنے‘ کی ضرورت ہے۔
ترک صدر کے اس بیان کے بعد فرانس نے انقرہ میں تعینات اپنا سفیر بطور احتجاج واپس بلا لیا ہے۔ فرانسيسی صدراتی دفتر سے گزشتہ روز جاری ہونے والے بیان میں کہا گيا، ”اپنے دائرہ اختيار سے باہر نکلنا اور بد تميزی درست طريقہ کار نہيں اور اس قسم کی توہين بالکل برداشت نہيں کی جائے گی۔‘‘ صدارتی دفتر کے بيان ميں مزيد لکھا ہے کہ ايردوآن کو اپنی پاليسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی، جو کہ ہر لحاظ سے خطرناک ہے