چیف سیکریٹری سندہ سید ممتاز علی شاہ صاحب آپ لوگ تو حکومت پالیسی پر جلد عمل کرتے ہیں لیکن آپ کے نچلے سطح کہ افسران اس پر عمل نہیں کرتے

چیف سیکریٹری سندھ فیس بک پیج پر دلچسپ تبصرے
———–

Zulfiqar -Ali- Khand—
چیف سیکریٹری سندہ سید ممتاز علی شاہ صاحب آپ لوگ تو حکومت پالیسی پر جلد عمل کرتے ہیں لیکن آپ کے نچلے سطح کہ افسران اس پر عمل نہیں کرتے اور وہ لوگ فوتی ملازمیں کی اولاد کو پریشان کرتے ہیں آرڈر کہ لیئے اس لیئے آپ سے اپیل ہیں کہ ہمارے کزن کا آرڈر سن کوٹا میں ہوا تھا وہ آرڈر ہمیں ملا دو سال پہلے پہر کچھ وقت لگا DRC میں پہر DRC بہی ہوگئی لیکن اب ہمارے ڈسٹرکٹ جیکب آباد میں کچھ عرصے سے ڈی ای او سیکنڈری اور پرائمری نہیں اور اس وجہ سے آرڈر رکا ہوا ہیں ڈی سی جیکب آباد نے بھی سیکریٹری تعلیم کو لیٹر لکھا کہ ہیں کہ کوئی افسر بیجھیں ۔ برائے مہربانی آپ کچھ کریں
———-

G- Akbar -Shar-
ماشااللہ غریبوں کے ھمدرد اور مسکینوں کا سھارا نھایت ھی شفیق انسان ھیں شاھ صاحب اللہ پاک شاھ صاحب کو سلامت رکھیں
————-

Abdul -Rehman -Kalhoro-
پولیس ڈپارٹمنٹ میں فوتی کوٹا پر 1 سال پہلے چیف سیکریٹری سندہ نے 137 پوليس کانسٹیبل کے امیدواروں کی ایپرول دی تہے جں کے فاٸیل ابہے تک سی پی او آفیس کراچی میں پڑے ہیں لیکن رینجز میں نہیں بہیجے جا رہے ہیں اگر سی پی او آفیس میں بیہٹے کلارکوں سے معلوم کرو تو بول رہے ہیں کے ہاءکورٹ بینچ کراچی سندہ نے فوتی کوٹا پر بین لگایا ہوا ہے ہم یتیم چیف جسٹس آف سندہ ہاءکورٹ احمد علی شیخ صاحب سے اپیل کرتے ہیں اس بات کا نوٹس لیا جاٸے اور یتیموں کے ساتھ جو ظلم ہاءکورٹ سندہ کر رہے ہے اس ظلم کے خلاف ہم سپریم کورٹ آف پاکستاں کے چیف جسٹس کو اپیل کرتے ہیں کے اس بات کا نوٹس لیا جاٸے اور ہاءکورٹ سندہ نے جو یتیموں کے ساتھ ظلم کرنا شروع کر دیا ہے نہیں تو ہم مجبورں سب یتیم راستوں پر نکلیں گے
————————–


Mohammad- Rashid-
کیا انکی تنخواہیں ہونگی ؟ جن کو فوتی کوٹہ پر نوکریاں ملی ہیں انکو 2 سال گذر گئے ہیں پر تنخواہ نہیں ہوئی اوقاف ڈپارٹمنٹ اور صحت اینڈ ھیلتھ ڈپارٹمنٹ میں اے جی آفس والے آبجیکشن لگا دیتے ہیں کہ انک پوسٹ کریٹ نہیں ہیں یہ کیا ماجرہ ہے ایک طرف نوکری دوسری طرف وہی زلت دفتروں کی چکر اور رسوائی جب تنخواہیں نہیں دے سکتے تو پھر یہ فوتی کوٹہ کا ڈرما کس لئے؟؟
—————-

Arif Chagarzai-
چیف سیکریٹری سندھ
محترم جناب
سید ممتاز علی شاہ صاحب
السلام علیکم
مضمون
معذور بچوں کو تعلیم دو کراچی کی آبادی کو دیکھ کر ہر ضلع میں اسپیشل ایجوکیشن اینڈ ریہیبلیٹیشن سینٹر کا قائم
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ کیماڑی اب ایک الگ ضلع بن گیا ہے ۔ اس ضلع کی آبادی کو دیکھ کر اور یہاں پر معذور بچوں کو دیکھ کر آپ کو کیماڑی میں ایک سینٹر کا افتتاح کرنا چاہیے اور معذور بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی کچھ الفاظ عنایت کرنے چاہیے اور پھر اکیلے سینٹر کا قیام ہی نہیں بلکہ وہاں باقاعدہ مانیٹرنگ کرکے اس کا فائدہ ہر اس بچے کو ملنا چاہیے جو معذور ہوں۔
کیونکہ میں نے لیاری میں آپ کے سینٹر کا دورہ کیا جہاں آپ کا پندرہ بندوں کا اسٹاف موجود ہے مگر وہاں پڑھنے کے لئے کوئی بچہ نہیں۔
آپ کے 15 بندوں کے اسٹاف میں میں ڈائریکٹر سے لے کر کلرک کسی نے اسپیشل ایجوکیشن میں کوئی ڈگری حاصل نہیں کی ورنہ عموماً ایسے بچوں کے لئے لئے اسپیشل ٹیچرز ہوتے ہیں جنہوں نے اسپیشل ایجوکیشن میں ماسٹر کیا ہوتا ہے۔
میں کراچی میں رہتا ہوں اللہ کا شکر ہے کہ روزگار بھی اچھا ہے وقت اچھا گزر رہا ہے۔
اور اللہ نے ایک اسپیشل بچے(فرشتے) سے نوازا ہے جو نہ سن سکتا ہے وہ بول سکتا ہے۔
جب میں نے اس کی تعلیم کے لیے کوششیں کی تو مجھے معلوم ہوا ہمارے پورے شہر میں تین ہی اسکول معذور بچوں کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے اور وہ اسکول مجھ سے اتنی دور کہ مجھے ایک گھنٹہ لگے گا کسی گاڑی میں اپنے بچوں کو اسکول لے جاتے ہوئے۔
میں نے مجبوراََ اسے نورمل بچوں کے اسکول میں ڈالا ہے اور اب اللّٰہ نے یہ کرم کیا کے ایک محترمہ جس نے اسپیشل ایجوکیشن میں ماسٹر کیا کراچی یونیورسٹی میں اور وہ میرے بچے کو ٹیوشن دیتی ہے۔
پر میری ہی گلی میں ایک ریڑھی والا ہے اس کی دو بیٹیاں ہیں جو نہ سن سکتی ہے اور نہ بول سکتی ہے کیا ان کو تعلیم کا حق نہیں ہے کیا وہ انسان نہیں ہے اس کے باپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی اور اسی طرح اس شہر میں اور معذور بچے ہونگے وہ بھی تعلیم کے زیور سے محروم ہے۔
میں اسپیشل بچوں کا سفیر بن کر کراچی کی سیاسی لیڈرشپ سے ملا پر یہاں لوگوں کے پاس ڈھکن کی ویڈیو بنانے کا ٹائم ہے اس ایشو پر بات کرنے کا ٹائم نہیں
میں نے پاکستان سیٹیزن پورٹل پر شکایت کا کہا وہاں بھی کر چکا ہوں SD061118-0193880 کوئی سنوائی نہیں ہے دو سال ہوگئے ہے۔
میرے شہر میں معذور لوگوں کا فنڈ چوری ہوا ہے۔
میرے شہر نے گونگے بہروں کو بھی نہیں چھوڑا۔
ہم سب اس فنڈ چوری میں شامل ہے۔
ممتاز علی شاہ صاحب آپ کی کوششوں سے کسی بے زبان کو زبان مل سکتی ہے معذور بچے بھی پڑھ لکھ کر اس معاشرے میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔۔۔!!!
عارف خان چغرزئی
ایک خوش نصیب باپ
————————-
Mohammad -Rashid-

اوقاف ڈپارٹمنٹ کے فوتی ملازمین کو 2 سال ہوگئے ہیں اور اے جی آفس والے انکی آئی ڈی اوپن نہیں کر رھے کیا اس حکم کو صرف کاغذی کاروائی تک ہی محدود سمجھیں یا پھر واقعے میں ملازمین کو رلیف ملیے گا ؟ آج تک تو صرف نوٹس لینے تک ہی کام ہوا ہے اے جی آفس میں آپ کچھ دوگے تو کام ہوگا ورنہ سی ایم کا حکم اور چیف سیکریٹری سندھ کا حکم صرف حکم تک ہی محدود رہا ہے یہ سارے حقائق ہیں مگر کوئی سنجیدہ ہی نہیں ہے پھر ایسی حکومت سے اچھا ہے آدمی چھولے بھیچے تو شام تک 500 کاما ہی لے گا
———–

Allah- Bux- Kunbher-
زبانی باتیں۔
سندھ کے نامور کہانی نویس نسیم کھرل نے سرکاری داد رسی اور مدد کے طریقہ کار کو برسوں پہلے 34واں دروازہ کے نام سے لکھی گئی کہانی میں پیش کیا تھا یہ کہانی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے تمام طلباء کو انگلش کے سبجیکٹ میں پڑھائی جاتی ھے اور کمیشن کا امتحان پاس کرکے ریاست کی خدمت کے واسطے اھم عھدون پر بیٹھنے والے افسران یہ کہانی پڑھ کر اس میں موجود پیغام کو سمجھ کر پھر عھدے پر بیٹھتے ہیں۔ برسوں پہلے لکھی گئی کہانی کے بعد آج بھی سرکاری داد رسی کا طریقہ کار نھیں بدل سکا۔ گزشتہ برس اگست کے مہینے میں انی والی بارشوں میں تباھی کے باعث وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب نے وزراء اور منتخب عوامی نمائندوں کے ساتھ حیدرآباد شہر کا دورہ کیا اور میڈیا سے بات چیت میں عوام کے نقصان کا ازالہ کرنے کی بات بھی کی اور تکلیف میں مبتلا عوام کو تسلی دی گئی۔ دو دن پہلے ایک متاثر شخص اپنی تکلیف دہ کہانی میڈیا میں خبر کی صورت میں دینے کے واسطے میرے پاس آئے اور ایک بڑا فائیل بھی لے آیا بارشوں میں تباھی کی تمام تصاویر اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب کے اخبارات میں چھپنے والے بیان بھی ساتھ میں لے آیا۔ متاثرہ شخص نے بتایا کہ گزشتہ برس اگست میں انھوں نے نقصانات کے تفصیلات کے ساتھ ڈپٹی کمشنر حیدرآباد کے آفس میں تمام ثبوتوں کے ساتھ درخواست جمع کروائی۔ پھر آفس کے چکر لگاتا رھا اور مختلف باتیں سنتا رھا ان کو یقین تھا کہ داد رسی ضرور ھوگی ۔ 10 مھینے کے بعد ان کو اسسٹنٹ کمشنر قاسم آباد کی آفس بھیجا گیا جسکے بعد مختیار کار اور پھر نیچے کا عملہ آخر کار رپورٹ تیار کی اور ڈپنی کمشنر کے آفس نے ان کو لیٹر کے ساتھ رلیف کمشنر کے آفس بھیجا اس آفس تک ان کا 15 ھزار روپے تک کا خرچہ بھی آ چکا تھا۔ رلیف کمشنر کے آفس سے جواب دیا گیا کہ بارش متاثرین کے نقصان کے ازالے کے لیئے حکومت نے فنڈ نھیں رکھا ھے۔ میں نے اخبار میں خبر کے ساتھ اس متاثر شخص کی مدد کے لیئے کوشش کی اور رلیف کمشنر کے پاس ساتھ گیا تمام ثبوت اور دلائل دیئے تو اعلیٰ اختیاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ صاحب جو بات کرتے ھیں ان کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ھے ھم قانون کے پابند ھیں اور قانونی اقدامات کو دیکھتے متاثرین کو لیٹر کی کاپی دے دی ھے پیسے ھیں نھیں تو کہاں سے دینگے۔وزیر اعلیٰ صاحب باتوں میں مدد کرنا چاھتے ھیں اور متاثرین مدد کے طلبگار ہیں مگر ریاست کے خادموں کے کاغذات میں فلاح غائب ھو گیا ھے جس کو محسوس تو کیا جا سکتا ھے مگر نظر نھیں ا رھا بئراج کے 66 دروازوں میں 34 دروازہ موجود ھوتے ھوئے بھی نھیں مل رھا ۔ فلاحی ریاست کا فلاح بیوروکریسی اور جمہوری حکمرانوں کے اختیارات کے درمیان موجود تو ھے مگر پھر بھی نظر نھیں ا رھا ۔ پاکستان ذندہ باد۔
————————
Hafiz- Asadullah-
بخدمت جناب قابل احترام ڈپٹی کمشنر صاحب دادو سندھ پاکستان ۔
اسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ جناب اعلی
آج میں نے غلام الرسول پنھور اسسٹنٹ کمشنر میھڑ سے آفیس میں ملنے گئے تو مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا اور اپنے گارڈز کو حکم فرمایا کہ انہیں اندر نہ آنے دیں تو اچانک کچھ صحافی حضرات سندھ پریس کلب کے صدر منیر لاشاری اور دیگر آئے اور میں نے ان سے حقیقت کی کہ یہ صاحب مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے تو انہوں نے اے سی سے بات کی جس وجہ سے مجھ سے ملا میں نے اپنی شکایات سننیں کی اجازت مانگی تو اے سی میہڑ شکایات سننےسے انکار کر دیا پہر صحافیوں کے اصرار پر موقف سنا ۔میں نے تپیدار کی شکایت کی کہ تپیدار سیل سرٹیفکیٹ کے لئے اب 15000 ھزار روپیہ رشوت مانگ رہا ہے ۔اور تپیدار کہتا ہے کہ اللہ بخش مگسی مختیار کار میھڑ 5000روپے لیتا ہے اور غلام الرسول پنھور اسسٹنٹ کمشنر میھڑ سگنیچر کرنے کے لیے 3000 ھزار روپیہ لیتا ہے اور سپروائیزنگ تپیدار 1000 روپے سگنیچر کرنے کا لیتا ہے اور 500 روپے رپورٹ فارم والا لیتا ہے اور 300روپیہ مختیار کار کا مقرر شدہ آئوٹ ورڈ لگوانے والا لیتا ہے اور 200روپے مختیار کار کا اسٹیمپ لگوانے والا لیتا ہے اور 300روپے اے سی کے آفس میں آئوٹ ورڈ لگوانے والا لیتا ہے اور 200 روپے اے سی کا اسٹیمپ لگوانے والا لیتا ہے اور 100 روپے نائب قاصد لیتا ہے اور 300 روپے دستوری فیس سرکاری جمع کیا جاتاہے باقی جو بچا وہ تپیدار کا بنتا ہے ۔
یہ ہے ھمارے حکمران جو لاکھوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات لینے کے باوجود بھوکے جانوروں جیسے ھمیں زبردستی اپنی کرسی کے بلبوتے پر ھراسان کرکے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ھم غریب عوام کا خون چوس کر رشوت لیکر نئی گاڑیاں خرید کر ٹہاٹہیں مار رہے ہیں ۔
لیکن اے سی میہڑ نے کوئی تردید نہیں کی ۔اور فورن کہا کہ پیسوں کا معاملہ ہے ڈپٹی کمشنر صاحب دادو کو کہیں میں کچھ نہیں کرسکتا ۔
اور سر نیچے والی وائیس سنیں تپیدار صاحب سیل سرٹیفکیٹ پر خرچ تفصیل سے بتا رہے ہیں ۔
سر میں مجبورن ان راشیوں کی وڈیوز اور کالیں بھرتا ھوں کیونکہ یہ جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ ھمیں انہوں نے پیسے نہیں دییے ھیں ۔
صرف اس وجہ سے ۔
سر یہ ایسا دور آیا ہے کہ کوئی حقیقی گواھی دینے سے بھی ڈرتے ہیں ۔
اب ملاحظہ فرمائیں ۔
سر کیا آپ صاحب ان سفید پوش لٹیروں کو لغام دینے سے قاصر ہیں ؟
کیونکہ یہ سارے لاڈلے سیاسی افسران ہیں کیااس وجہ؟
ان پر گرفت مضبوط نہیں ہوتی ؟
حافظ اسد اللہ بروھی ساکن بسم اللہ کالونی وارڈ نمبر 2سٹی میھڑ ضلع دادو سندھ پاکستان ۔
——————
Jafar- Lashari-
لیکن آر او پلانٹس ملازمین کو تنخواہیں نہیں دیں گے، جو بیچارے نو سال سے سراپا احتجاج ہیں سندھ حکومت کے کسی نمائندے کو غریب ملازمیں کا احساس نہیں کہ 15ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں اور ان پے کیا گزر رہی ہو گی؟ اس پے کبھی نہیں سوچا سندھ حکومت نے؟