پاپولیشن پلاننگ: پاکستانی سٹائل

چند روز پہلے میرے ایک دوست نے فون پر مبارکباد دی کہ پاکستان کا فی کس قرضہ کم ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا ’’کتنا کم ہوا ہے‘‘۔فرمایا’’ کافی کم ہوا ہے۔ پہلے ایک لاکھ بیس ہزار فی کس تھا۔اب صرف نوے ہزار فی کس رہ گیا ہے‘‘۔ ’’ یار یہ تو بہت خوشی کی بات ہے لیکن یہ بتائیں کہ یہ ہوا کیسے ؟کیا پاکستان نے قرض واپس کر دیا ہے یا کسی عالمی ادارے نے معاف کر دیا ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔بتایا : ’’ نہیں نہ تو ہم نے قرض واپس کیا ہے نہ ہی معاف ہوا ہے‘‘۔’’تو پھر یہ معجزہ کیسے ہو گیا؟‘‘ میں نے مزید پوچھا۔محترم نے تفصیل بتائی کہ ’’ دراصل پاکستان کی آبادی بڑھ گئی ہے اس لئے قرض ایک لاکھ بیس ہزار سے کم ہو کر نوے ہزار پر آگیا ہے۔ کرونا لاک ڈائون کا نتیجہ سامنے آنے دیں انشا ء اللہ مزید کم ہو جائیگا۔پاکستان کے پاس قرض اتارنے کا محض یہی طریقہ ہے‘‘۔اس پر ہم دونوں ہنس پڑے۔’’یار مذاق چھوڑو دعا کرو کہ یہ قرض اترے اور پاکستان میں مہنگائی کم ہو‘‘۔ میں نے کہا۔ ایسے تکلیف دہ مذاق مت کیا کرو‘‘۔’’ مذاق کیسا؟ اپوزیشن کی تحریک اگر کامیاب ہو جاتی ہے ۔پرانے سیاسی اور آزمودہ کار لیڈرز دوبارہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو اللہ کے فضل سے یہ قرضہ ڈبل ہو جائیگا۔فکر نہ کریں‘‘۔محترم دوست نے فرمایا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی آبادی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔جس تیزی سے یہ بڑھ رہی ہے اس تیزی سے وسائل تو میسر نہیں بلکہ وسائل تو دن بہ دن کم ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کی آبادی کے متعلق کسی نے ایک بڑا اچھا لطیفہ سنایا تھا۔ وہ یوں کہ جب امریکی چاند پر پہنچے تو انہوں نے وہاں زور سے ایک قہقہ لگایا کہ دنیا کی کوئی قوم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ہم دنیا کے پہلے لوگ ہیں جو چاند پر پہنچے ہیں ۔اتنی دیر میں ایک اور قہقہ سامنے سے بلند ہوا ۔امریکی بڑے حیران ہوئے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہم سے بھی پہلے یہاں موجود ہیں۔ پتہ چلا کہ یہ پاکستانی ہیں ۔امریکیوں نے پوچھا : ’’ ہم تو اپالو راکٹ کے ذریعے یہاں پہنچے ہیں آپ لوگ یہاں کیسے پہنچے ہیں؟‘‘ پاکستانیوں نے جواب دیا۔’’ بہت آ سانی سے۔ آدمی کے اوپر آدمی کھڑا کر کے ہم یہاں پہنچ گئے۔ اب ہم یہاں اپنے سیاستدانوں کیلئے پلاٹس تیار کررہے ہیں۔

جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو پاکستان کی کل آبادی (مشرقی اور مغربی پاکستان ملا کر) تقریباً چھ کروڑ تھی۔با الفاظ دیگر اندازاً تین تین کروڑ فی ونگ آزادی کی خوشی میں پھر ہماری آبادی نے جو بڑھنا شروع کیا تو اسے کوئی روک نہ سکا۔ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں نے ہم سے زیادہ محنت کی اور آبادی کا تناسب اپنے حق میں بدل دیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی چوون فی صد ہو گئی۔مرحوم صدر ایوب خان نے آبادی کنٹرول کرنے کی کافی کوشش کی ۔خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ قائم کیا۔دیہاتی خواتین کی راہنمائی کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں۔ اس دور میں ایک پاپولر نعرہ ہوا کرتا تھا۔’’ وقفہ بہت ضروری ہے‘‘۔لیکن بد قسمتی سے مولانا حضرات اس پالیسی سے مطمئن نہ ہوئے ۔ان کی نظر میں رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ وہ دنیا میں آنے والی ہر روح کیلئے رزق کا بندوبست اسکے زمین پر پہنچے سے بھی پہلے کر دیتا ہے۔ لہٰذا حکومت کیوں روزی رزاق بننے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا حضرات کی باتیں زیادہ پر اثر ثابت ہوئیں اور ایوب خان کی کوشیش کوئی خاص رنگ نہ لا سکیں۔لہٰذا یہ محکمہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔
1971 میں جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحٰدہ ہوا تو مشترکہ پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ سے کچھ زیادہ تھی۔ مغربی پاکستان کی آبادی تقریباً چھ کروڑ تھی اور مشرقی پاکستان کی آبادی چھ کروڑ سے کچھ زیادہ۔ مشترکہ پاکستان کی آبادی بڑھنے کا تناسب تقریباً تین فیصد تھا۔ہم مغربی پاکستانیوں کے خیال میں مشرقی پاکستان میں زیادہ بچے پیدا ہوتے تھے۔بہرحال آزادی کے بعد مشرقی پاکستان نے فوری طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو میں لانے کی منصوبہ بندی کی۔انہیں اندازہ تھا کہ ایوب خان کے دورِ حکومت میں بچوں کی پیدائش پر کنٹرول اس لئے نہ ہو سکا کہ مولانا حضرات برتھ کنٹرول کے حق میں نہ تھے ۔ (جاری)
———–from—-nawaiwaqt—–pages—-