کیپٹن ر صفدر و آئی جی سندھ کا معاملہ ، تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی گئی

مسلم لیگ ن کے رہنام کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری اور آئی جی سندھ مشتاق مہر کے مبینہ اغواء کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سندھ حکومت نے کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس حوالے سے موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس کمیٹی میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی ، وزیر اطلاعات سندھ ناصرحسین شاہ ، اور ترجمان سندھ حکومت مرتضی وہاب شامل ہیں۔


بتایا گیا ہے کہ کمیٹی اس سارے واقعے کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو پیش کرے گی۔ یاد رہے کہ کراچی میں مزار قائد کے تقدس کو پامال کرنے کے کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ر صفدر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ، جب کہ اس دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر کے مبینہ اغواء کی خبریں بھی زیر گردش رہیں ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈال دیا، اور دعویٰ کیا کہ محمد صفدر کی گرفتاری میں ایک وفاقی وزیر ملوث ہے،مقدمے کے لیے پولیس پر دباؤ ڈالا گیا ،دباؤ کے باوجود پولیس پریشر میں نہیں آئی ، تحریک انصاف کے 2 ایم پی ایز ایف آئی آر کے لیے تھانے آئے ، ایک وفاقی وزیر نے ایف آئی آر کے لیے الٹی میٹم بھی دیا ، ایم پی ایز کو سمجھایا گیا کہ ایسے مقدمہ نہیں ہوتا، مزار قائد سے متعلق درخوست پولیس کے پاس نہیں مجسٹریٹ کے پاس درج کی جاتی ہے، تاہم پی ٹی آئی نے وفاص نامی شخص سے درخواست دلوائی گئی کہ اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی،وقاص وہاں کس مقصد سے کیا گیا؟ کیا وہ پلاننگ کر کے گیا تھا وہاں؟ ندیم چانڈیو ، وقاص اور بگٹی نے اس حوالے سے ایک میٹنگ بھی کی،جھوٹ نہیں چھپتا،سچ سب کے سامنے آ جاتا ہے ،کیپٹن (ر) صفدر کی کل ضمانت ہو گئی جس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ ایک جھوٹا کیس تھا ،اب انکوائری ہو گی ایسے نہیں چھوڑیں گے، یہ لوگ سازش میں شامل ہیں،ان کے خلاف مکمل کاروائی کی جائے گی۔


جس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ کراچی میں کیپٹن ر صفدر گرفتاری کا ڈراپ سین ہوگیا ،انہوں نے کہا کہ صاف ظاہر ہو گیا کہ یہ گرفتاری سندھ حکومت کی طرف سے کروائی گئی ، اب اس کا مقصد مریم کو سیاسی فائدہ پہنچانا تھا یا پی ڈی ایم نامی گروہ کا خاتمہ، اس سوال کا جواب تو وزیراعلیٰ سندھ کے پاس ہونا تھا لیکن وہ جواب دیے بغیر ہی بھاگ گئے۔