مولانا عادلؒ(شہید)۔ سچے عاشق رسول تھے

۔
مولانا عادل جانؒ سے محض دو ملاقاتیں رہیں لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ انتہائی نرم مزاج، شیریں مسکراہٹ آنکھوں میں، دل تک پہنچنے والی روشنی، مصافحے میں نا قابل بیان
ارادت، لہجے میں پرانی خانقاہوں کی ٹھنڈک تو میں اسی عالم فاضل کا نام لونگا جو ہم میں نہیں رہے۔ ان کی شہادت پر نہ جانے کتنی آنکھیں نم ہوئیں،اس بد بخت کو کیا معلوم کہ اس نے کس شخص کی جان لی۔ جس کی محفل میں بیٹھنے والا کوئی شخص گمراہ نہیں ہو سکتا، حالات کے سمندر میں ڈوب نہیں سکتا، برائی کے صحرا میں بھٹک نہیں سکتا۔ بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں کی محفلوں میں حاضری دینا کالج اور یونیورسٹی کے دور سے میرا معمول رہا ہے۔ کیونکہ میرا یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں کے سائے بھی بڑے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ پہلی بار سچ پوچھیں تو میں شیخ الحدیث حضرت سلیم اللہ خان کے صاحبزادے سے ملنے کی خواہش لیکر آیا تھا اور مولانا عادل ؒکی نرم گوئی اور لہجے کی حلاوت دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہ بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھانے والے اور مایوسیوں کو امید دلانے والے اپنے والد حضرت سلیم اللہ خان

کے حقیقی جان نشین اور علمی مرتبے اور خزینے کے وارث ہیں۔ یہ غالباً 7محرم الحرام کی بات ہے جب مجھے مولانا عادلؒ سے ملنے کا موقع ملا،فرمانے لگے کہ حضرت امام حسین ؓ ایک جدو جہد کا نام ہیں اور وہ ایمان جہاد اور جرائت کی عملی شکل ہیں۔ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ سمجھا ہوں کہ اگر دنیا میں حضرت امام حسین ؓنہ ہوتے اور اگر وہ کربلا میں اپنے خاندان کی یہ قربانی نہ دیتے تو شاید دنیا میں کوئی شخص برائی کے خلاف اکیلا کھڑا ہونے کی جرائت نہ کرتا۔ مولانا عادلؒ تو ہر پلیٹ فارم پر فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اوراتحاد بین المسلین کے بہت بڑے داعی تھے۔انکے علمی مرتبے کا اندازہ کرنا ہے تو ان سے چند منٹ کی گفتگو کرکے بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ میں تو ان کی شخصیت کا مختصرااحاطہ کرنے سے قاصر ہوں بس یہی کہ سکتا ہوں ان کی ذات میں عجز بھرا ہوا تھا اوروہ دھیمے، بردبار، متین اور کمپلیکس فری شخص تھے۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس بلند مرتبہ شخصیت سے اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین
—-Sohail-Danish—-