پرتگیز ایمپائر سے ملک ریاض ایمپائر تک

عزیز سنگھور
———————————-
روزنامہ آزادی، کوئٹہ—–
—–

دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف ایمپائرز (سلطنتوں) نے دنیا میں راج کیا۔ جن میں رومی، منگول، یونان، پرتگیز، برٹش وغیرہ شامل ہیں۔ ان سلطنت کے سلطانوں نے دنیا میں اپنی حاکمیت قائم کی ہوئی تھی۔ سلطنت کے اندر بہت سے عہدے ہوتے ہیں جن میں بادشاہ، ملکہ، وزیراعظم، وزیردفاع، خزانہ، وزیر افواج، وزیرتعلیم ، باندھی، سپاہی اور دیگر بے شمار عہدے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا عہدہ بادشاہ کا ہوتا ہے۔
ہمارے خطے میں پرتگیز اور برطانوی راج تھا۔ پرتگیز دنیا کی تاریخ کی پہلی عالمی سلطنت تھی۔ جو جنوبی امریکا، افریقا، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا تک کے مختلف علاقوں پر قابض تھی۔ یہ جدید یورپی نو آبادیاتی سلطنتوں میں سب سے زیادہ عرصے تک قائم رہی۔اس کا عہد تقریباً سات صدیوں پر محیط ہے
پرتگیزیوں کو صرف بلوچ سرزمین پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پرتگیزیوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران پر قبضے کے لئے حملہ کیا جہاں میرحمل کلمتی حاکم تھا جو اپنی بہادری،ذہانت اور اپنے قوم وسرزمین سے محبت و وفا کی وجہ سے گرانقدر شخصیت کے مالک تھے۔پرتگیزی جنوبی امریکہ، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشاء پر قابض ہونے کے بعد جب بلوچستان کے اس ساحل پر حملہ آور ہوئے تو میرحمل کلمتی نے اس حملے کو پسپا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکران کے حکمران ہوت تھے۔ ان کا ہیڈکوارٹر کیچ تھا۔ تاہم میر حمل کلمتی نے پرتگیز حملہ آوروں سے مکران کو بچانے کے لئے ہیڈ کوارٹر ساحلی بستی کلمت منتقل کردیا۔ جب ہوت کلمت آئے تو انہوں نے اپنے نام کے سامنے علاقے کا لقب لگانا شروع کردیا۔ اس طرح وہ کلمتی کہلانے لگیں۔ ہوت بلوچوں نے پرتگیز سامراج سے نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ کے ساحلی علاقوں کو بھی بچایا۔ ہوت بلوچ کی مختلف ذیلی شاخ ہیں۔ جن میں جت، زرداری، زھرانی، کلمتی اور دیگر شامل ہیں۔ کھیرتر ریاست کے حکمران برفتوں نے ہوت بلوچوں سے سندھ میں آنے کی درخواست کی تھی۔ تاکہ وہ پرتگیزوں سے سندھ کے ساحل کو بچاسکیں۔ اس طرح ہوت قبائل کے لوگ پورے سندھ میں پھیل گئے۔ جن میں ملیر،گڈاپ، لٹھ بستی، گھارو، ٹھٹہ، بدین، نواب شاہ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ آج بھی ہوت قبیلے کی تاریخی مقبرے اور قبرستان ان علاقوں میں ملیں گے۔ جن میں چوکنڈی کا قبرستان سر فہرست ہے۔ یہ کلمتی اور جوکھیوں کا مشترکہ قبرستان ہے۔ چوکنڈی کے تمام مقبرے زیادہ ترپیلے اور ریتیلے پتھر کی سلوں سے تعمیر کئے گئےہیں۔ جب ہم ان مقابر کی تعمیراتی ترتیب اور اس کے طرز تعمیر پر غور کرتے ہیں تو ان کے معماروں کی کاری گری اور ہنرمندی کو بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے ۔
ضلع لسبیلہ کے علاقے بھوانی، بالا، پھور اور کراچی کے علاقے منگھوپیر سمیت مبارک ولیج روڈ پر سون لکی کے مقام پر چوکنڈی طرز کی قبریں باقی بچی ہیں جو کلمتی، جت، لاشاری اور برفت قبیلے کے لوگوں کی ہیں۔ جب کہ محکمہ قدیم آثارکی لاپروائی کے سبب یہ خستہ حالت کا شکار ہیں۔ اور بعض قبضے بھی ہو چکے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ہوت سنگتراشی کے ماہر تھے۔ بعض بلوچ کلمتی کے قبیلے کے لوگوں کو بہادری کے ساتھ ساتھ سنگتراش کا بھی لقب دیتے ہیں۔ کھیرتر ریاست موجودہ کراچی کے علاقے ملیر، ابراہیم حیدری، لٹھ بستی سمیت کراچی کے دیگر علاقوں کے علاوہ موجودہ ضلع جامشورو ضلع دادو اور ضلع لسبیلہ کے بعض کے علاقے شامل تھے۔ ان علاقوں کے اصل باسی برفت، جوکھیہ، پالاری، گبول، بھوتانی، جاموٹ اور میر بحر کے کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ کراچی کا موجودہ ایئرپورٹ کی جگہ گبول خاندان کی زرعی اراضی تھی۔
ضلع ملیر میں زیر تعمیر بحریہ ٹاؤن نے ان قدیم آبادیوں کا جینا حرام کردیا۔ ان کو گھروں سے بے گھر کیاگیا۔ سندھ پولیس کی معاونت سے گاؤں کے رہائشیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے گئے۔جبکہ گاؤں کی خواتین سے سامنا ہونے پر بھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ بحریہ ٹاؤن کراچی، سرکاری افسران، صنعتکار اور اس غیر قانونی منصوبے میں شامل تمام افراد مقامی افراد کے روزگار، اراضی، کاشت کاری اور چراگاہوں کے تحفظ، ماحولیاتی، جنگلی حیات اور ثقافتی ورثوں کے حقوق سے متعلق بہت سے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ایک اندازے کے چوکنڈی طرز کے تین قبرستان ہاؤسنگ اسکیم کے زد میں آگئے۔ جو صدیوں پرانی قبریں ہیں جو کلمتی، گبول، برفت اور لاشاری کے قبیلے کے لوگوں کی ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ و بانی ملک ریاض ہیں۔ انہیں ایشیا کا بل گیٹس بھی کہا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک کلرک ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ کھرب پتی بن چکے ہیں اور ان کا دولت کمانے کا سفر جاری ہے۔ انہوں نے اپنے بزنس کے ذریعے ایک ایمپائر قائم کی ہے۔ ضلع ملیر کے متاثرین کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کا بزنس پارٹنر ایک ہوت بلوچ ہیں۔ جو ہوت قبیلے کے ذیلی شاخ زرداری قبیلہ کے سردار اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کی سندھ میں حکومت بھی قائم ہے۔ اس کے حکم پر ملیر کے سابق ایس ایس پی جو جعلی پولیس مقابلوں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ کو تعنیات کیاگیا۔ انہوں نے نقیب اللہ قتل کیس میں عالمی شہرت بھی حاصل کی۔ انہوں نے مقامی لوگوں دھونس اور دھمکیاں دی اور جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ اور اراضی پر قبضہ کرواتا گیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اتنی بڑی مافیا ہے جس کے خلاف سندھ کے ایک سابق وزیر نے آواز اٹھائی تو ان کے بیٹے کو اغوا کیا گیا۔ بلاآخر سندھ کے سابق وزیر نے خاموشی اختیار کرگیا۔ وزیر کا تعلق ضلع ملیر سے تھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔
سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی ہاؤسنگ اسکیم کو اونے پونے داموں میں الاٹ کی گئی۔ جس کی مالیت 460 ارب روپے بنتے تھے۔ جس پر عدالت اعظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کو دی جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی تھی۔ جس پر بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے واپس کرنے پر آمدگی ظاہر کردی تھی۔ اور رقوم کی واپسی کا عمل تاحال جاری ہے۔
میرے قابل احترام دوست اور سیاسی رہنما خلیل قریشی اس زرداری ہوت بلوچ کو پارٹی کا شریک چیئرمین بنانے کی تجویز دی۔ یہ تجویز شہید رانی کی ایک وصیت کی بنیاد پردی گئی۔ مخالفین اس وصیت نامے کو جھوٹا قراد دیتے ہیں۔ دراصل خلیل قریشی کےشہید رانی سے قریبی سیاسی تعلقات تھے۔ اور وہ شہید رانی کے چیف سیکیورٹی انچارج کی حیثیت سے بھی ذمہ داری سرانجام دیتے رہے ہیں۔ میرے دوست کے پاس سےوصیت نامہ برآمد ہوا۔ لیکن میرے دوست کے ساتھ جوہاتھ کیاگیا۔ وہ حیران کن ہے۔ جب سینیٹ کے انتخابات ہورہے تھے تو خلیل قریشی نے سینیٹ کے ٹکٹ کے لئے رجوع کیا جو انہیں نہیں دیاگیا۔ اور اپنے من پسند لوگوں کو ٹکٹ سے نوازا گیا۔ آج کل خلیل قریشی صاحب ہم جیسے بے روزگار سے ملنے شام کو چکر لگاتا ہے۔ اور اپنے دل کا زنگ اتارتا رہتا ہے۔
ہوت بلوچوں کی تاریخ جہاں بہادری سے بھری پڑی ہے وہاں بے وفائی کی کہانیاں بھی کچھ کم نہیں۔ ماضی میں بھی بے وفائی کا قصے مشہور ہیں۔ بحریہ ٹاؤن سپرہائی وے پر قائم ہے۔ جبکہ سندھ کے تاریخی شہر بمبور نیشنل ہائی وے پر قائم ہے۔ جس کا فاصلہ سپرہائی وے سےچندکلومیٹر پر ہیں۔ بمبور میں بھی میر پنو ہوت نے ایک سندھ کی بیٹی سسی سے بے وفائی کی۔
بلوچ داستان کے مطابق میر پنو ہوت کو ان کے بھائیوں نے نشے کی حالت میں کیچ مکران لے کر آئے تھے۔ جبکہ سندھی داستان بلوچ داستان کے برعکس ہے۔ سندھیوں کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں بمبور سے کیچ کا سفر طے کرنے کے لئے پندرہ سے بیس دن لگتے تھے۔کیونکہ اس زمانے میں لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے۔ اور کوئی بھی انسان بیس دن بے ہوشی کی حالت میں زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ میر پنو اپنے بھائیوں کے بہکاوے میں آکر سسی کو چھوڑ کر ان کے ساتھ کیچ مکران چلے گئے تھے۔
سسی ایک وفادار بیوی تھی وہ اپنے بے وفا شوہر میر پنو ہوت کے پیچھے کیچ مکران کی جانب روانہ ہوگئی۔ اس سفر میں انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس بے وفائی کا طعنہ آج بھی سندھی، بلوچوں کو دیتے ہیں۔ آج ان ہوت بلوچوں میں ایک اور میر پنو زرداری پیدا ہوگیا ہے۔ کیا بلوچ ایک اور پنو کا متحمل ہوسکتے ہیں؟۔