اپوزیشن کاجلسہ، حکومتی حکمت عملی پر اٹھتے سوال

پچھلے دس برس میں بطور صحافی تحریک انصاف کے بہت سے جلسے کور کرنے کا موقع ملا ۔ اکتوبر 2011ء لاہور،دسمبر 2011ء کراچی اور
پھر 2014ء کے دھرنے کے بعد پاکستان بھر میں ہونے والے جلسے باقاعدگی سے کور کرتا رہا۔ جلسہ گاہ کے باہر اکثر کنٹینرز لگائے جاتے تھے جس کا مقصد صرف داخلی راستوں کو محفوظ بنانا، خواتین اور مردوں کے داخلی راستوں کو الگ الگ رکھنا اور سٹیج پر جانے والے راستوں کو باقی جلسہ گاہ سے الگ رکھنے جیسے اقدامات شامل ہوتے ۔ کوئی انجان اگر غلط طرف سے داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اسے بتایا جاتا کہ داخلی راستہ یہاں نہیں فلاں جگہ پر ہے ۔ یوں جلسہ گاہ بڑی ہونے کی وجہ سے کارکنوں کو صحیح راستے تک پہنچنے کے لیے ایک دو کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتا۔پھر یہ کارکن جب ٹی وی چینلز کے مائیک پر پہنچتے تو غوغا کرتے کہ حکومت نے ہر طرف سے راستے بند کر رکھے ہیں۔ بطور صحافی میں کارکنوں کی اس شکایت کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرتا اور اکثر اس نتیجے پر پہنچتا کہ جن کنٹینرزکی موجودگی کو راستے بند کرنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے وہ کنٹینرزجلسہ گاہ کے اطراف صرف حفاظتی اور انتظامی ضرورت کے تحت رکھے گئے ہیںجبکہ جلسہ گاہ تک آنے والی تمام سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہتی۔ ہاں لاک ڈائون وغیرہ کے موقع پربنی گالہ جانے والے راستے اورموٹرویز بلاک کر دی گئی تھیں ، وہ کہانی الگ ہے ۔ کرپشن کے خلاف مختلف شہروں میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسوںکے مناظر کم و بیش ایسے ہی ہوتے ۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے راستے بند ہونے کا شکوہ کیا جاتارہا۔ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کے ایک اور پیٹرن کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے ۔ اگر آپ غور سے دیکھیںتو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ تحریک انصاف کی اُن سیاسی سرگرمیوں کا زیادہ امپیکٹ ہوا تھا جس میں حکومت کی طرف سے رکاوٹ ڈالی گئی تھی۔اسلام آباد لاک ڈائون جو حکومتی رکاوٹوں کے باعث ہو ہی نہیں پایا تھا ، پرویز خٹک کو کارکنوں سمیت موٹروے پر روک کر شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا ،وزیر اعلیٰ کو واپس جانا پڑاتھااور لاک ڈائون کا منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا تھالیکن تحریک انصاف کی سرگرمی وقوع پذیر ہوئے بغیر بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ جبکہ وہ جلسے جو با آسانی ہونے دیے گئے وہ اُتنے پُر اثر ثابت نہیں ہوئے ۔ تحریک انصاف نے اپنی غیر دانشمندی کے باعث پی ڈی ایم کے جلسے کو منعقد ہونے سے پہلے ہی فری مارکیٹنگ کے ذریعے مشہور کر دیا۔ قصور اور لالہ موسی جیسے شہروں میں ڈیڑھ ڈیڑھ ، دو دو سو افراد کے اجتماع کو الٹ کرپیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کی پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں ورک فورس نہ ہونے کے برابر ہے ، اگر ان کا ڈیڑھ سو افراد کا اجتماع الٹا نہ جائے تو قیامت نہیں آ جائیگی۔ لیکن اپنی کمزور حکمت عملی کے باعث حکومت نے چودھری منظور اور قمر زمان کائرہ کو پولیٹیکل پوائینٹ سکورنگ کو موقع فراہم کیا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ قمر زمان کائرہ کے باورچی کو گرفتار کرنا کہاں کی دانشمندی تھی؟ حکومت کی جانب سے دوسری غیر دانشمندی کا مظاہرہ جگہ جگہ سے راستے روک کر کیا گیا۔ رائیونڈ روڈ پر کئی مقامات کو کنٹینرز کھڑے کر کے بند کر دیا گیا، رنگ روڈ کوبھی کئی مقامات پر کنٹینرز کھڑے کر کے بلاک کر دیا گیا۔ ایسا کرنے سے ریلی کے شرکاء کو تو روکا جا نہیں سکتا تھا البتہ سڑکوںپر خوار ہونے والے عوام گوجرانوالہ میں ہونے والے جلسے کے اثرات کو لاہور تک محسوس کرتے رہے ۔ پہلے ن لیگ کے کارکنوں اور قائدین پر بغاوت کے مقدمے درج ہوئے ، پھر کارکنوں کی گرفتاریاںہوئیں ، پھر بینرز پھاڑ دیے گئے اور اب راستوں کو کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا۔ کیا آج تک ایسے طریقوں سے اپوزیشن کے جلسوں کو روکا جا سکاہے؟ وہ جو گھر سے جلسے میں جانے کا سوچ کر نکل آیا ہے وہ راستے میں کنٹینر آ جانے کے بعدکیا واپس گھر چلا جائے گا؟کیا وہ متبادل راستہ نہیں لے گا؟کیا حکومت نہیں جانتی کہ ایسا کرنے سے تحریکوں میں جان پڑ جاتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے تیسری غیردانشمندانہ حرکت پی ڈی ایم کے جلسے کے موضوع پر تسلسل سے پریس کانفرنسز کا انعقاد کرنا تھا۔ ہر آدھے گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی حکومتی شخصیت ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتی نظر آئی۔ فواد چودھری جا رہے ہیں تو فیاض الحسن چلے آ رہے ہیں، شبلی فراز نے پریس کانفرنس ختم کی ہے تو بیرسٹر شہزاد اکبر کی شروع ہو رہی ہے ۔ شیخ رشید دھاڑ کے گئے ہیں تو فیاض الحسن چوہان دوبارہ نظر آ رہے ہیں ۔ شہباز گل نے ٹویٹر کا محاذ سنبھال رکھا ہے تو ڈاکٹر عامر لیاقت کوگھٹیا اور اخلاق سے گرے ہوئے لطیفے سوجھ رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا پی ٹی آئی کے وزراء نے اپوزیشن کے جلسے کی پروموشن اور مارکیٹنگ کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ حکومت کو خوف کس بات کا ہے؟ پارلیمنٹ میں ان کی پاس تعداد پوری ہے، اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد لانے کی کوئی صورت موجود نہیں۔ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل معاونت اور اعتماد حاصل ہے ۔ چند روز قبل جنرل قمر باجوہ نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہہ دیا کہ آئین و قانون کی پاسداری اولین ترجیح ہے اور اس دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کی مدد کرتے رہیں گے۔حکومت کو گھر بھیجنے کے حوالے سے اپوزیشن میں شدید اختلاف موجود ہے۔ خود پیپلز پارٹی قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی۔ ن لیگی منتخب ایم این ایز بھی دوبارہ انتخابات کے حق میں نہیں۔ پھر خوف حکومت کو کس چیز کا ہے؟ اپوزیشن ہمیشہ جلسے کیا کرتی ہے ، انہیں بلا روک ٹوک جلسہ کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے، جلسہ ہو گا تو کیا ہو جائے گا؟ حکومت گھر تو نہیں چلی جائے گی۔ لہٰذا غیر ضروری افراتفری پھیلانے کی حکومت کو قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ آنے والے دنوں میں دیگر شہروں میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسوں کے لیے پی ٹی آئی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے، یہی بات اپوزیشن کی تحریک کے مستقبل کا تعین کرے

Written by Asad ullah khan

Courtesy 92 Roznama