خوراک کا عالمی دن, اور ہماری ذمہ داری


Oct 17, 2020
—————-

خوراک کا عالمی دن, اور ہماری ذمہ داری
————–
خوراک کا عالمی دن ہر سال سولہ اکتوبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے. یہ دن خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم کے قیام کی یاد میں منایا جاتا ہے.Food and Agriculture Organization اقوام متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے جو دنیا میں خوراک اور زراعت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔یہ ادارہ 1945 میں قائم ہوا.اس دن کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک مناتے ہیں.خوراک کا عالمی دن پاکستان میں بھی ہر سال جوش و خروش سے قومی سطح پر منایا جاتا ہے.جس کا مقصد عوام میں میں شعور اور آگہی بیدار کرنا ہے۔اس دن تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار افراد اور حکومت دنیا سے اور بالخصوص پاکستان سے بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں.اس لیے اس دن کو دنیا بھر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور روز افزوں مہنگائی میں پاکستان میں غذائیت کی کمی کا شکار افراد کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہے. خوراک کے عالمی پیمانے کے حساب سے پاکستان 119 ممالک کی فہرست میں سے 106 نمبر پر ہے.بھوک کا یہ پیمانہ بہت خطرناک ہے۔کیوں کہ پاکستان خطے میں موجود پسماندہ ملک افغانستان کے برابر ہے۔ جبکہ کہ پڑوسی ممالک میں بنگلہ دیش88 ویں نمبر پر اور بھارت 100نمبر پر ہے۔اس مسئلے کی شدت کا احساس کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں ہی اس مسئلے پر روشنی ڈالی کہ کس طرح پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد متاثرہ بڑھوتری کا شکار ہے۔اچھی خوراک کی کمی اور عدم دستیابی ذہنی اور جسمانی بڑھوتری کو بری طرح متاثرکرتی ہے۔اس مسئلے کی نوعیت کا احساس کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے اپنے مستقبل کے پروگرام میں اس غذائی مسئلے کا تدارک کرنے کو اولین ترجیحات میں شامل کیا۔خوراک کا تحفظ غربت ختم کرنے کی جدوجہد کا بنیادی اور لازمی جزو ہے اور یہ براہ راست آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔جب غذائیت بخش محفوظ اور متنوع خوراک ایک فرد اور خاندان کو میسر نہ ہو تو اس کو خوراک کا عدم تحفظ گردانہ جاتا ہے۔خوراک کی عدم تحفظ سے متاثرہ بڑھوتری اور خوراک کے ضروری عناصر کی کمی پیدا ہوتی ہے .غذائی معلومات اور اچھی عادت کو فروغ دے کے غذائی عدم تحفظ پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جامع اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے.وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب وزیر اعلی عثمان بزدارکی قیادت میں عوام کی خوراک کی بنیادی ضرورت کو موثر انداز میں پورا کرنے کے لئے شبانہ روز مصروف عمل ہے۔بالخصوص پنجاب فوڈ اتھارٹی پنجاب میں خوراک سے جڑے معاملات میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کھیت سے پلیٹ تک ہمارے عوام کی رہنمائی اور تحفظ کرتی ہے۔ خوراک کا عدم تحفظ اور موٹاپا بھی غذا کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کا براہ راست تعلق خوراک کی قیمت سے ہے توانائی بخش اور تازہ خوراک عمومی طور پر مہنگی ہوتی ہے۔اس لیے لوگ عموما سستی خوراک جو کیلوریز میں زیادہ اور غذائیت میں کم ہوتی ہے اس کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خوراک کے عدم تحفظ کا منفی اثرخوراک کے معیار کو متاثر کرتا ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی سستی،معیاری اور غذائیت بخش خوراک کے انتخاب پر اپنی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان نواز میمن ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کی موثر اور دانشمندانہ قیادت میں عوام کی رہنمائی کے لیے اپنے پبلک ریلیشن ونگ کے ذریعے عوام کیساتھ براہ راست رابطے میں ہیںاور یہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا خوراک کا میگزین ہو یا غذائی ماہرین کے ساتھ سماجی رابطوں کے نیٹ ورک جیسا کہ فیس بک اور یوٹیوب پر غذائی رہنمائی کے پروگرام نشر کرنا۔ان سب کا سہرا پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سر ہے تو ایسے میں کیا کیا جائے کہ اس خوراک اور غذائیت کی قلت پر قابو پایا جاسکے ۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔جس کا جواب یہ ہے کہ ملک کی پیداواری صلاحیتوں کو فروغ دے کر ،غذائیت سے بھرپور خوراک کے حصول کو سستا اور باآسانی میسر ہونا ممکن بنا کر کیا جا سکتا ہے۔غذائی قلت سے متاثرہ نسل کمزور اور لاغر بچوں کو جنم دے کر آئندہ نسلوں کو بھی پیدائشی طور پر کمزور بنا دیتی ہے۔جس سے ملک و قوم کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے اور ملک کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے کیونکہ ملک کا سب سے بڑا اثاثہ صحت مند عوام ہوتے ہیں۔ بھوک کو ختم کرنے اور اس پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے سکول میں کھانا فراہم کرنے اور گھروں میں کچن گارڈننگ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔جس کے لیے اچھی کوالٹی کے بیج جدید اور آبپاشی کے نظام کو متعارف کروانا اور پروسیسنگ کی سہولت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اسی طرح پسماندہ علاقوں میں غذائی سپلیمنٹ اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔اس طرح مکمل اور جامع حکمت عملی سے ہی اس مسئلہ کا موثر حل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ہم انفرادی طور پر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں یہ سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے.اس کے لئے ہمیں اپنی روزانہ کی خوراک کو چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم پاکستان میں غذا کی ضروریات کے پیمانے کے مطابق استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا اور پاکستان سے بھوک کے خاتمے کے لئے ہمیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اور اپنے گھروں میں کتنی خوراک اور پانی ضائع کرتے ہیں۔ ہمیں اس زیاں کو روکنا ہے تاکہ ہم آئندہ نسلوں کو خوراک کا تحفظ فراہم کرنے میں اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری بخوبی سر انجام دے سکیں۔