خواتین افسران کا ڈیٹا فحش ویب سائٹ پر

کچھ دن پہلے فائزہ (فرضی نام) کو نامعلوم نمبر سے نامناسب پیغامات موصول ہوئے۔ فائزہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ سوچ کر توجہ نہ دی کہ شاید پھر ان کا وزیٹنگ کارڈ کسی غیر متعلقہ شخص کے ہاتھ لگ گیا ہے، ’ویسے بھی پاکستان میں کسی ورکنگ وومن کو ایسے پیغامات موصول ہونا معمول کی بات ہے۔‘
تاہم اگلے دن دفتر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ 25 خواتین افسران کو ملتے جلتے نمبروں سے فحش تصاویر، ویڈیوز اور پیغامات موصول ہوئے، پتہ یہ چلا کہ ان خواتین کے نمبرز کسی نے پورن ویب سائٹس پر اپلوڈ کر دیے ہیں۔
یہ تمام خواتین حکومتِ سندھ کے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں اور مختلف شعبہ جات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدوں پر تعینات ہیں۔

لیکن فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر مطابق کہ یہ معمول کا کیس ہے اور ڈیٹا لیکس کے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور اس میں کوئی خاص بات نہیں۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں ان خواتین کی بھرتی آفیسر کیڈر میں 2016 میں ہوئی تھی، ان کے بیچ میں کل 60 افسران تھے جن میں سے 25 خواتین تھیں۔
جب 2017 میں ڈیپارٹمنٹ میں نچلے گریڈ کے ملازمین کو آفیسرز گریڈ میں ترقی دی گئی تو ان افسران نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اس حوالے سے ’آوٹ آف ٹرن پروموشن‘ کا کیس بنا کر ضابطے کی کارروائی کے لیے عدالت میں درخواست جمع کروائی۔

تین سال سے یہ کیس سروس عدالت میں زیر التوا ہے اور عدالت نے اس پروموشن کے خلاف سٹے آرڈر دے رکھا ہے۔
یہ درخواست 2016 میں بھرتی ہونے والے افسران کی جانب سے جمع کروائی گئی تھی، جس میں یہ 25 خواتین بھی شامل تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کیس دائر کروانے کے بعد سے ہی انہیں مختلف طریقوں سے دھمکیاں ملنے اور ہراساں کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، اور ان پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
’تاہم اب تو حد ہی ہوگئی، کسی نے ہم 25 خواتین کا ڈیٹا فحش ویب سائٹس اور چیٹ گروپس میں اپلوڈ کر دیا ہے، اور ہمارے نام اور نمبرز کال گرلز کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ جس کے بعد سے ہمیں دنیا بھر کے نمبروں سے فحش پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز موصول ہو رہی ہیں۔‘
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی خواتین افسران کا کہنا ہے کہ صرف انہی افسران کا ڈیٹا لیک کیا گیا ہے جو اس کیس میں درخواست گزار تھیں، لہٰذا انہیں یقین ہے کہ جنسی ہراسانی کی یہ گھناؤنی حرکت ان لوگوں کی ہے جو کیس واپس لینے کے حوالے سے دباؤ ڈلوا رہے ہیں۔
اس حوالے سے تمام متعلقہ اداروں کو کمپلینٹ دائر کردی گئی ہیں، جس میں وفاقی محتسب، وومن کمیشن اور فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) شامل ہیں۔ تاہم متاثرہ خواتین افسران کا کہنا ہے کہ اس کمپلینٹ کو ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود کوئی خاطر خواہ پیش رفت یا کارروائی نہیں کی گئی نہ ہی ذمہ داران کا تعین کیا گیا ہے۔

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے متاثرہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ انہیں اب بھی فحش پیغامات موصول ہو رہے ہیں جو صرف پاکستان سے نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے نمبروں سے آرہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ادارے کے اعلیٰ افسران اور سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو بھی آگاہ کیا ہے اور باضابطہ کمپلینٹ جمع کروائی گئی ہے مگر ابھی تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، بیشتر افسران کا رویہ یہ ہے کہ وہ الٹا خواتین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ ’ہم نے سستی شہرت کے لیے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔‘
حالیہ اقدام کے بعد خواتین افسران نہایت پریشان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دفتر میں کام کا ماحول نہایت گھٹن والا ہو رہا ہے اور انہیں دیگر مرد افسران کے ساتھ کام کرتے بھی جھجک محسوس ہو رہی ہیں کیوں کہ اس بارے میں پورے دفتر کو خبر ہو چکی ہے کہ ہمیں لوگ فحش پیغامات بھیج رہے ہیں۔ کچھ افسران کا تو یہ تک کہنا ہے کہ اب انہیں گھر والوں کی جانب سے نوکری چھوڑنے کا بھی کہا جا رہا ہے، ’کیوں کہ ان کے نزدیک یہ آئے دن کی بدنامی وہ نہیں برداشت کر سکتے۔‘
اردو نیوز نے ایف آئے اے سے رابطہ کیا تو ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو نے بتایا کہ انہیں چند دن پہلے ہی اس حوالے سے شکایت موصول ہوئی تھی جسے اب باقاعدہ انکوائری میں تبدیل کرکے تمام متاثرہ خواتین کے بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی تحقیقات کا مینڈیٹ انہیں تین ماہ تک انکوائری مکمل کرنے کی رعایت دیتا ہے، اس سے پہلے وہ حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
فیض اللہ کوریجو کا اصرار تھا کہ اس واقعے کو محض ایک عام ہراسانی کے واقعے کی طرح دیکھا جائے جس میں کسی ملزم نے خواتین کی معلومات فحش ویب سائٹس پر اپلوڈ کر دیں۔

ان کا پہلے بیان تھا کہ اس واقعے کا اس عدالتی کیس سے کوئی تعلق نہیں ’جس کے بارے میں انہیں باقاعدہ طور پر تو کوئی معلومات نہیں البتہ انہوں نے سن رکھا ہے۔‘
جب انہیں باور کروایا گیا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جن 25 خواتین افسران کو ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا وہ سب وہی ہیں جو اس کیس میں درخواست گزار ہیں، اور جب ابھی تحقیقات شروع بھی نہیں ہوئی تو کیسے وہ حتمی طور پر کہہ سکتے کہ وہ کیس وجہ نہیں ہو سکتی اس ہراسانی کی، تو فیض اللہ کوریجو نے کہا کہ کیس میں تمام وجوہات کو زیرِ تفتیش لایا جائے گا۔‘
تاہم انہوں نے ایک اور وضاحت پیش کی کہ اگر اس ہراسانی کا تعلق سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے کے افسران کی مبینہ غیر قانونی تقرری کے حوالے سے دائر کیس سے ہوتا ’تو پھر تو تمام 60 افسران کا ڈیٹا لیک ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ مرد افراد کے ساتھ بھی تو فحش حرکات کی جاتی ہیں اور اس کی بھی تو مانگ موجود ہے، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ صرف خواتین کا ڈیٹا لیک ہوا اور مردوں کا نہیں۔‘
ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کردی ہیں اور ابھی متاثرہ افسران کے بیانات بھی قلمبند کیے جا رہے ہیں جس کے بعد ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل کی ہے البتہ متاثرہ افسران کا کہنا ہے کہ انہیں اس کمیٹی کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں، اور یہ صرف خانہ پوری کے لیے بنائی گئی ہے۔
—————-توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی————–