16 اکتوبر اپوزیشن کا جلسئہ گوجرانوالہ*

نواز شریف اس ملک کا ایک خوش قسمت سیاستدان ھے جو اپنی کھلی کرپشن کی وجہ سے عوام میں بہت تیزی سے غیر مقبول ھو رھا تھا لیکن ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے پہلے تو اسے ملک سے باھر بھیجا اور پھر “غدار” قرار دیکر ملک اور خصوصا پنجاب کا پاپولر لیڈر بنا دیا اب یہ ضدی طبعیت کا جلاوطن مغل بادشاہ ملک سے باھر بیٹھ کر انتہائی خطرناک کھیل کھیلنے کی تیاری کر رھا ھے دراصل نواز شریف نے ھمیشہ سے مطلق العنان حکمراں بننے کی کوشش کی ھے اور 1999 میں اس کے برطرف کیئے جانے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کیونکہ جب جنرل جہانگیر کرامت نے یہ تجویذ پیش کی کہ ایک نیشل سیکورٹی کونسل بنائی جائے جس میں مسلح افواج کے نمائندے بھی شامل ھوں تو نواز شریف بہت بری طرح سے اکھڑ گیا اور جنرل کرامت سے انتہائی ھتک آمیز انداز سے استعیفی لکھوایا وہ انداز اتنا تحقیر آمیز تھا کہ اسے تحریر کرنا بھی مناسب نہیں ھے لیکن جنرل کرامت ایک شریف آدمی تھا لہذا وہ تو چلا گیا لیکن اس کے بعد تمام حاضر سروس جنرلز نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر نواز شریف نے دوبارہ اس قسم کی کوئی گھٹیا حرکت کی تو تمام جنرلز مل کر اسے سبق سکھائنگے اس میں کوئی شک نہیں کہ ھماری عسکری اسٹبلشمنٹ کے کھاتے میں بہت سی کوتاھیاں ھیں لیکن عسکری قیادت کا نواز شریف کو سبق سکھانے کا فیصلہ درست تھا ھمارے ملک کے کئی نام نہاد جمہوریت پسند اسے فوج کی زیادتی سے تعبیر کرتے ھیں لیکن اگر جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ اور اپنی بادشاھت قائم کرنے کیلیئے اپنے ملک کی فوج کو غیر مستحکم کیا جائے تو کسی ذی شعور شخص کو اسے جمہوریت نہیں کہنا چاھیئے نواز شریف کا انداز حکمرانی ھمیشہ سے آمرانہ رھا ھے اس نے اپنی پارٹی میں بھی کبھی جمہوری روایات کو پنپنے نہیں دیا نواز شریف اپنے منشی رفیق تاررڑ کو صدر اور ضیائوالدین بٹ جیسے شریف جنرل کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانا چاھتا تھا جو اسکی برادری کا بھی ھے لیکن اس شخص کو ایک تو یہ Advantage ھے کہ اسکی شکل ” “گونگلو” جیسی ھے جسکی وجہ سے عام آدمی اسے معصوم سمجھتا ھے اور دوسرے خود حکمرانوں نے مہنگائی بیروز گاری اور لوگوں کے کاروبار تباہ کر کے عوام کو نواز شریف کو یاد کرنے پر مجبور کیا ھے اور اب وہ جلسے کرنے کا اعلان کر چکا ھے ویسے تو ملک میں اپوزیشن کے جلسے جلوس کوئی انہونی بات نہیں ھے لیکن اس احتجاج کی ابتدا گوجرانوالہ جیسے چھوٹے شہر سے کرنا نواز شریف کے عزائم کا اشارہ دے رھی ھے کیونکہ پہلوانوں کے اس شہر کے سیاسی جلسے جلوسوں میں تشدد اور انتہا پسندی کا رحجان بہت زیادہ ھے حالانکہ اس شہر کے سب سے معروف اور پرانے سیاستدان غلام دستگیر خان صاحب اور انکے بیٹے انجینیئر خرم دستگیر دونوں باپ بیٹا انتہائی شریف النفس انسان ھیں لیکن جب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح مد مقابل تھے تو یہ غلام دستگیر خان ھی تھے جن کےجلوس میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا نام ایک کتیا پر لکھ کر اس کتیا کو سارے شہر میں گھمایا گیا اسکے علاوہ 1977 کے الیکشن میں بھٹو صاحب کلین سوئیپ کر گئے تھے جس پر ملک بھر میں دھاندلی کا شور مچ گیا تھا لیکن جی ٹی روڈ کی پٹی پر لاھور سے راولپنڈی تک قومی اتحاد کا صرف ایک ایم این اے جیتا تھا اور وہ غلام دستگیر خان تھا کیونکہ ان کے کارکنوں نے ڈنڈے سوٹوں کیساتھ ھر پولنگ اسٹیشن پر رات بھر پہرا دیا اور کسی کی جرائت نہیں تھی کہ کوئی گڑ بڑ کر جائے بعد میں غلام دستگیر صاحب ضیائوالحق کی کابینہ کے انتہائی طاقتور وزیر بنے اس دور میں ھماری اسٹبلشمنٹ نے انکی طاقت کو انجوائے کیا اور آج تاریخ کا پیہہ الٹا گھوم گیا ھے اور اب یہی ” ماجھے ساجھے ” اور” کن ٹتے پہلوان ” احتجاجی سیاسی کارکن بنکر اسٹبلشمنٹ سے ٹکرانے جا رھے ھیں کیونکہ نواز شریف یہ واضع طور پر کہہ چکا ھے کہ میرا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ انہیں لانے والوں سے ھے انہیں جلسہ کرنے دیا جائے یا نہ دیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ اپنا کام کر جائینگے اور خوف یہ ھے کہ پنجاب کے قلب میں ھونے والے اس جلسے سے جو نعرے لگنے جا رھے ھیں پنجاب کی سرزمین ایسے نعروں سے ناآشنا ھے اور اس جلسے کا ماسٹر مائنڈ وطن کی محبت سے ناآشنا ھے وہ کوتاہ ذھن شخص اپنے مفاد کیلیئے کچھ بھی کر سکتا ھے دوسری طرف حکمرانوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ ناعاقبت اندیش ھے
اجمل ملک
ایڈیٹر نوشتئہ دیوار