جنسی تشدد کے واقعات، حکومت کی ذمہ داری

syed zia abbas

سیّد ضیاء عباس
————————-

اسلام اور دو قومی نظریہ پر قائم ہونے والے ہمارے ملک پاکستان میں پچھلے 30برسوں سے معصوم بچوں، بچیوں کو اغوا کرنے اور اُن کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کرنے کا بھیانک اور افسوس ناک، نہ رُکنے والا سلسلہ اب طوالت اختیار کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ خواتین کے ساتھ بھی اجتماعی اور انفرادی زیادتی کے واقعات بڑی شدت سے سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ واقعات تو رپورٹ ہو جاتے ہیں مگر اکثر تو اپنے خاندان کی عزت و وقار کی خاطر ایف آئی تک بھی درج نہیں کراتے ہیں۔ درندگی کا شکار ہونے والی نوجوان لڑکیاں اور خواتین خودکشی کرکے اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں، ایسے واقعات نے خواتین کو خوفزدہ کردیا ہے۔ غریب اور پوش فیملی کی خواتین کو ملازمت کے بہانے بلا کر اُن کی عزت تار تار کی جارہی ہے مگر ہر طرف صرف بات بیان بازی، مجرموں کی جلد گرفتاری کی تسلی تک محدود ہے۔ اولاد دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، اس کے ساتھ بدفعلی اور بچیوں کے ساتھ زیادتی پھر اس کا قتل جہاں بہت بڑا قومی جرم ہے وہیں اُن والدین کے احساسات اور جذبات کا اندازہ کون لگائے گا۔ اُس ماں کو کون تسلی دے گا جس نے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر اولاد کو جنم دیا، اُس کی پرورش کی مگر ظالم درندوں نے ایک ماں سے اُس کا لختِ جگر چھین لیا، والد کا پھول بن کھلے مرجھا گیا۔ ایسے واقعات سے دوچار ہونے

والے خاندان کو گھن لگ جاتا ہے، وہ زندگی بھر اِس روگ کو لئے جیتے جی مردہ زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ اِس سے زیادہ دکھ کی بات یہ کہ بچے اور بچیوں کو اغوا کرکے دوسرے ملکوں میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اِن دنوں اِس قسم کے واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اُس سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں ایسے مجرموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سزا دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مغرب کے دبائو میں آئے بغیر سعودی عرب، ایران اور دیگر اسلامی ملکوں کی طرح ایسے درندوں کو سرعام پھانسی دے کر نشانِ عبرت بنانا ہوگا، ورنہ ہمارا حشر بھی قومِ لوط جیسا ہو جائے گا۔ ہماری اور مغرب کی تہذیب میں بہت فرق ہے۔ پاکستان میں پچھلے 15برسوں کے دوران زنیب، مروہ، چند روز قبل چارسدہ کے علاقہ شیخ کلی سے اغوا ہونے والی ڈھائی سالہ بچی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور بہیمانہ قتل اور نہ جانے کس قدر کیسز سامنے آئے ہیں مگر ان کے مجرموں کو عبرت ناک سزا نہیں دی گئی۔ کچھ دن میڈیا پر شور رہا، حکومتی حکام بھی ہلے جلے، مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور موٹروے زیادتی کیس میں خاتون کو انصاف مل سکے گا یا نہیں، جس کے بچے بھی اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے اس جرم کے خوف کا شکار ہیں۔ ہماری کس قدر بدنصیبی ہے کہ اسپتالوں سے نومولود بچے اغوا ہورہے ہیں، تعلیمی اداروں میں بچیوں کی عزت اور آبرو محفوظ نہیں، اجتماعی زیادتی کے واقعات کی وڈیو بھی بنائی جارہی۔ حکومتیں عوام کے جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت کرنے میں مکمل ناکام ہیں بڑھتے ہوئے جرائم اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو نہ روکنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بڑی ناکامی ہے جب تک جرم و سزا کا تصور عملی طور پر قائم نہیں ہوگا، ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ عدالتوں میں پولیس کی کمزور تفتیش، عدالتوں میں وکلاء اور کبھی ملزمان کی عدم موجودگی کے باعث سماعتیں ملتوی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے پولیس کے نظام میں تبدیلی لانا ہوگی، جس تھانے کی حدود میں واقعہ رونما ہو اُس کے تھانے دار کو بھی سزا دی جائے تو کچھ بہتری آئے گی کیونکہ تھانہ کے عملے کو اپنے علاقے میں چور سے لے کر منشیات فروش اور جنسی درندوں کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے۔ ہمارا دین مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں ہر جرم کی اسلامی سزا موجود ہے، ہمیں ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اِن سزائوں کو عملی شکل دینا ہوگی۔ مغرب کی ناراضی کے بجائے اللہ کی ناراضی کو اہمیت دینا ہوگی۔ ملکی قوانین میں کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ انٹر نیٹ سے فحش مواد کو لازمی نکالنا ہوگا، اِس کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی، ڈراموں میں لباس کا استعمال درست کرنا ہوگا، سوشل میڈیا کو اِس حوالے سے کنٹرول کرنا پڑے گا، وزارتِ اطلاعات کے ساتھ وزارتِ صحت کو بھی فعال ہونا ہوگا، میڈیا پر جنسی تشدد کو روکنے لئے خصوصی پیکجز چلانا ہوں گے، پرنٹ میڈیا میں اشتہارات کا سہارا لینا ہوگا، وزارتِ صحت کو جنسی طاقت کو بڑھانے والی ادویات کی سرعام فروخت پر پابندی لگانا ہوگی، وزارتِ قانون کو ایسا قانون بنانا ہوگا کہ کوئی بھی شخص ملازمت کے لئے کسی دوسرے شہر جائے تو اُسے اپنے گھر کی ایک خاتون کو بیوی، بہن اور بیٹی میں سے کسی کو بھی ساتھ رکھنا ہوگا، حکومت کو بھی ایسے اقدامات کرنا چاہئے کہ ہر شخص کو اس کے اپنے شہر میں ہی ملازمت کے مواقع مل سکیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک بھر میں خواتین اور بچوں سے زیادتی اور تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر سندھ پولیس میں اینٹی ہراسمنٹ یونٹ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے سخت ترین قانون سازی کی جائے تاکہ مجرموں کو نشانِ عبرت بنادیا جائے۔ ایسے جرم میں ملوث لوگوں کو جب تک جنسی کشش کے احساسات سے محروم نہیں کیا جائے گا ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔ (نوٹ: راقم الحروف کے پچھلے مضمون ’’صدارتی نظام کی باز گشت‘‘ میں سہواً برطانیہ میں پارلیمانی نظام 650سال کے بجائے 150سال شائع ہو گیا تھا