ہم کبھی کبھی نہیں مانتے اخلاق کے ضابطے

نظام قدرت ہے جو کہا، سنا اور کیا جاتا ہے وہ زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ 2014 سے 2018 کے دوران کی گئیں کارروائیاں کسی نہ کسی صورت میں سامنے تو آئیں گی، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔

سید طلعت حسین تجزیہ کار @TalatHussain12
————————————————————–


اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے شہریوں اور علما کے لیے مذہبی اور دینی معاملات پر ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا ہے جس کے دس نکات پیغام پاکستان کے نام پر روشن خیالی اور تحمل مزاجی کا عظیم پرچار کرتے ہیں۔

یوں تو اس میں بہت کچھ ہے اور بعض نکات تو ایسے ہیں کہ جن پر عمل درآمد ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا۔ مثلا ضابطہ اخلاق آغاز ہی میں شہریوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تسلیم کرنے کے فرض کی تاکید کرتا ہے۔ یہ وہی دستور ہے جس کو روزانہ طاقتور طبقے ٹھڈے مارتے ہیں۔

لیکن بعض حصے قابل غور اور سبق آموز ہیں۔ چوتھا نقطہ اسلام کے نام پر جبر، تشدد، انتشار وغیرہ کی تمام صورتوں کو بغاوت قرار دیتا ہے اور بتلاتا ہے کہ کسی فرد کوحکومتی، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے افراد کو کافر قرار دینے کا کوئی حق نہیں۔

ساتواں نقطہ فرقہ وارانہ نفرت اور جبرا نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے عمل کو فساد فی الارض کے طور پر بیان کرتا ہے اور شہریوں کو نفرت انگیز اور تشدد کو فروغ دینے والی سرگرمیوں سے اجتناب کے بارے میں ہدایت بھی کرتا ہے۔

آخر میں یہ ضابطہ اخلاق کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ چودہ علما کے دستخطوں کے ساتھ اس ضابطہ اخلاق کو بنانے کے لیے اس ریاست کے اداروں نے بہت محنت کی جس کے بغیر یہ دستاویز اس صورت میں قوم کے سامنے نہ آتی۔

مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر یہ سب کچھ آج سے چند سال پہلے ملک کے دارالخلافہ میں پھیلائے جانے والے فساد پر لاگو کیا گیا ہوتا۔ کمزور حافظے والوں کی یاد دہانی کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ کس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دارالخلافہ جس میں موجود اسلامی نظریاتی کونسل اب ضابطہ اخلاق جیسی روشن خیال دستاویزات جاری کر رہی ہے، عملا پرتشدد نفرت سے بھرپور، مکمل طور پر سہولت یافتہ، ڈنڈوں سے لیس جتھوں کے قبضے میں دے دیا گیا تھا۔

تمام ٹیلی وژن کمیروں کی کوریج کے ذریعے اس کے پیغام کو عام کیا گیا اور اس اہتمام کو کسی ادارے نے چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ جب ان کے سامنے پولیس کی دوڑیں لگ رہی تھیں تو دانت نکوسے جا رہے تھے کہ کیسے اس لشکر نے حکومت وقت کی بنیادیں ہلا دیں۔ وزیر قانون سمیت کابینہ کے دوسرے وزرا کو سرعام پھانسی دینے کے مطالبات کو نیم رضامندی کے ساتھ غیر موثر سرزنش کرتے ہوئے ’حالات کے تقاضے‘ کے طور پر ماننے کی باتیں کی جا رہی تھیں۔

کسی کو یہ خیال نہیں تھا کہ دنیا بھر میں بننے والی تصاویر پاکستان کے امیج پر کیا تیزاب انڈیل رہی ہیں، اور پھر آخر میں جس محبت اور مروت کے ساتھ ریاست نے اسلام آباد کو محصور کرنے والوں کو رخصت کیا وہ بھی ایک بےنظیر داستاں ہے۔ بتایا گیا ہم اور آپ تو ایک ہی ہیں۔ یہ لیجیے زاد راہ کا بندوبست۔ جائیے آرام اور عزت کے ساتھ اپنے بچوں کے ساتھ خوش رہیے۔

معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے اس تمام ’تحریک‘ کو الیکشن میں باقاعدہ جماعت کے طور پر شامل ہونے کی اجازت دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں ان کے دفاتر کھل گئے۔ وسائل اور سہولت کی ایسی رحمتیں برسیں کہ برسوں سے جہدوجہد کرنے والے سیاسی حلقے بھی ششدر رہ گئے۔ اسلام آباد پر پرتشدد حملہ اور کھلے عام نفرت کی تشہیر کر کے فتوے جاری کرنے والی اس فیکٹری کو قانونی آئینی اور سیاسی تحفظ فراہم کر کے یہ ثابت کر دیا گیا کہ یہاں پر ہر ضابطہ اخلاق پامالی کے لیے ہی بنا ہے۔

الیکشن کوریج کے دوران میری درجنوں ایسے امیدواروں سے ملاقات ہوئی جن کے گھروں پر یہ پیغامات بھجوائے گئے کہ اگر انہوں نے ن لیگ کا پلیٹ فارم نہ چھوڑا تو محلے کی مسجدوں سے ان کے اور ان کے گھر والوں کے خلاف اسلام بدری کے احکامات جاری ہو سکتے ہیں۔ بہت سوں نے اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیا اور پارٹی بدل لی۔ کچھ نے سیاست چھوڑ دی۔ وفاقی کابینہ کے وہ وزرا جن کے بارے میں فیض آباد سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے گردن زنی کے مطالبات کیے گئے اپنے بچوں کو ملک سے باہر بیجنے پر مجبور ہو گئے۔

منافرت کے اس پھیلاؤ کو پنجاب میں ممکنہ طور پر جیتنے والے امیدواروں کے ووٹ توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہر اہم حلقے کی یونین کونسل میں مذہبی ووٹ کے باقاعدہ نقشے بنائے گئے اور پھر اس کو تحریک انصاف کے مقابلے میں کھڑے سیاست دانوں سے علیحدہ کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں ایک سائنسی انداز سے نفرت کو ازہان سے نکال کر نظام کے اندر پیوست کر دیا گیا۔

مزید پڑھیے

لاڑکانہ کا میلہ اور مولانا کا دھرنا

مولانا کا دھرنا، صد بسم اللہ

مولانا کی دھرنا تحریک اور حکومت کی آئینی مدت

مہنگائی کے خلاف احتجاج: پوائنٹ سکورنگ یا عوامی نمائندگی؟
اس وقت نہ کسی کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کا خیال تھا نہ قوانین پاکستان کے تحفظ کا لحاظ۔ نہ کوئی اس جتھا بندی کو بغاوت کہتا تھا اور نہ ہی اس کے فروغ پر ملکی سالمیت کو لاحق خطرات کے حوالے سے میڈیا کو لیکچر دیا کرتا تھا۔ ان لشکریوں کے کھانے، پینے اور سیاست میں سر اٹھانے کے تمام عمل کو ہفتوں نہیں مہینوں باقاعدہ سرپرستی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا۔

اس سے پہلے طاہر القادری کے ’سافٹ تشدد‘ کو بھی ایسی ہی سرپرستی دی گئی۔ لٹکا دو، گرا دو، جلا دو، جہنم واصل کر دو، مارچ کرو، گریبان سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹو، چوک پر لٹکاؤ یہ سب نعرے مہینوں ایک غلام میڈیا کے ذریعے نشر کروائے جاتے رہے۔

سپریم کورٹ کے ججوں کے راستے بند ہوئے تو وہ خاموشی سے پچھلے دروازے سے اپنی مقدس بلڈنگ میں جا کر اپنے مقدس فریضے سر انجام دیتے رہے۔ چوں تک نہیں کی۔ چینی صدر کو دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ سب محافظوں نے ہنستے ہنستے قبول کر لیا۔ حکومت کے خلاف اس جہدوجہد کو عظیم جہاد کا نام دیا گیا۔

ان کا ہاتھ روکنے کی بجائے اس وقت کے وزیر اعظم سے استعفی طلب کر کے خود سے لگائی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی تجویز دی گئی۔ عمران خان اور طاہر القادری بھائی بھائی بن کر صف بند رہے۔ پارلیمان کے اکھڑتے ہوئے جنگلے اور پاکستان ٹیلی وژن کی راہداریوں میں چلاتے ہوئے گروہ خود بتا رہے تھے کہ ملک پاکستان میں تشدد کے فروغ کی کتنی گنجائش موجود ہے۔

تب نہ جانے کیوں علمائے کرام پر شرعی احکامات کے وہ تمام پہلو جو اس ضابطہ اخلاق میں موجود ہیں ظاہر نہیں ہو رہے تھے۔ کسی کو نور و دانش کی ایسی بیٹھک کرنے کا خیال نہیں آیا جو اس مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کروائی۔ تب فرقہ واریت، نظریات کا جبر، فساد فی العرض، انتہا پسندی کی تبلیغ، تعزیری و انتظامی اقدامات کی زد میں نہ آ سکی۔ تمام مکاتب فکر خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ بہت سے مکاتب فکر نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا اور پھر سینہ چوڑا کر کے قوم کو بتایا کہ انہوں نے اسلام کی کتنی خدمت کی ہے۔

اب یہ حالیہ تاریخ اسلامی نظریاتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کے مدمقابل ہے۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا نیا نہیں ہے مگر بہت کم مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں پر ممالک نے خود ہی اپنے شہریوں کے خلاف مذہب کے نام پر تشدد کو ایسے فروغ دیا ہو جیسے ہم نے دیکھا۔

لہذا اب امن اور بھائی چارے کا یہ پرچار لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ نظام قدرت ہے جو کہا، سنا اور کیا جاتا ہے وہ زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ 2014 سے 2018 کے دوران کی گئیں کارروائیاں کسی نہ کسی صورت میں سامنے تو آئیں گی، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ الزام تو لگیں گے، فتوے تو آئیں گے۔
———–IndependentUrdu————–