بشیر میمن: غیر قانونی احکامات کے خلاف مزاحمت کی علامت


عمر چیمہ
—————————————

(ملک کے معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کی درج ذیل رپورٹ 3 دسمبر، 2019 کو روز نامہ جنگ اور دی نیوز میں شائع ہوئی تھی۔)

بشیر احمد میمن اور حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اول الذکر کو ڈی جی ایف آئی اے عہدے سے ہٹائے جانے کے دن ہی ان کے استعفے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ بظاہر یہ اس بات پر ناخوشگواری کا اظہار ہے کہ جعلی کیسز کے ذریعے اہم اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کرنے کے غیر قانونی احکامات کیوں نہیں مانے جا رہے تھے۔

سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو لکھے گئے خط میں بشیر میمن نے لکھا ہے کہ عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے قریب کسی بھی افسر کو عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا۔ میرے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا اور میری رائے میں یہ اقدام میری جانب ناخوشگوار رویہ کے اظہار ہے۔ مذکورہ بالا صورتحال کی روشنی میں، میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔

جمعہ کو ان کی جگہ پر پانامہ پیپرز کی جے آئی ٹی سے شہرت پانے والے واجد ضیا کو مقرر کیا گیا، وہ قبل ازیں آئی جی ریلوے کے عہدے پر تھے۔ بشیر میمن 22 گریڈ کے جرأتمند اور اچھے کردار کے حامل پولیس افسر ہیں اور ان کا پورا کیریئر طاقتور لوگوں کے سامنے ڈٹ جانے سے بھرا ہوا ہے۔ چونکہ ہر بات کی ایک قیمت ہوتی ہے اس لئے انہوں نے وہ قیمت چکائی لیکن اچھائی اور قانون کا راستہ نہ چھوڑا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس وقت کے صدر آصف زرداری ان سے ناراض ہوگئے تھے اور انہیں ڈی آئی جی حیدرآباد کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ دونوں کا تعلق نہ صرف اسی علاقے سے ہے بلکہ دونوں کیڈٹ کالج پیٹارو سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ زرداری ان کے سینئر تھے۔ لیکن اس کے باوجود بشیر میمن نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا؛ اس وقت بھی نہیں جب زرداری کے سوتیلے بھائی اویس مظفر ٹپی کے خلاف انہیں تحقیقات پر مامور کیا گیا تھا۔

جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل کی وجہ سے زرداری جیل گئے اور یہ کیس بھی بشیر میمن کی نگرانی میں ایف آئی اے نے کھود کر نکالا تھا۔ جب وہ ڈی جی ایف آئی اے تعینات ہوئے تو ان کیلئے ایک اور کیس تیار تھا۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا تھا اور حکومت چاہتی تھی کہ ایف آئی اے انہیں نوٹس جاری نہ کرے۔ شاہد خاقان عباسی اس وقت وزیراعظم تھے۔ ایک دن انہوں نے شبشیر میمن کو طلب کیا؛ وہ پہلے ہی سیکریٹری داخلہ کو اس معاملے پر انکار کر چکے تھے۔

شاہد خاقان عباسی نے میمن سے کہا، ’’ہمیں ایوان چلانا ہے۔ براہِ مہربانی ہماری مدد کریں (کیس کو آگے نہ بڑھا کر)۔ بشیر میمن نے انہیں جواب دیا تھا کہ جناب ایوان چلانا آپ کی ذمہ داری ہے اور قانون کا نفاذ میری۔ توقعات کے برعکس، شاہد خاقان عباسی کو نہ صرف ان کا دوٹوک جواب پسند آیا بلکہ بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ انہیں ان کے جیسے ہی دیانت دار افسران کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر عباسی نے ان سے سوال کیا کہ ایف آئی اے میں بہتری کے لیے وہ کیا مدد کر سکتے ہیں، اور بشیر میمن کے مطالبے کے مطابق فنڈز مختص کیے۔ جیسے ہی پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئی تو وزارت داخلہ نے بریفنگ کا اہتمام کیا۔ بشیر میمن نے اس وقت یہ سمجھ بیٹھے کہ سیاسی دباؤ کا وقت شاید اب ختم ہوگیا۔

اس کے بعد پیش آنے والے واقعات ان کے لیے سخت دھچکوں سے کم نہیں تھے۔ وزارت داخلہ میں ایف آئی اے کی زیر تفتیش معاملات کے حوالے سے اپنی پہلی بریفنگ میں کے الیکٹرک سر فہرست تھی جو سوئی سدرن گیس کو واجبات ادا نہیں کر رہی تھی جو ایک ایسا سرکاری ادارہ تھا جس میں 60 فیصد شیئرز حکومت کے تھے۔

بشیر میمن سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ کے الیکٹرک کس کی ملکیت ہے۔ ان کا جواب تھا، جی ہاں۔ اس کے بعد ان سے ایک اور سوال پوچھا گیا: کیا آپ کو کچھ اور پتہ ہے۔ انہوں نے انکار کیا۔ بشیر میمن کو بتایا گیا کہ کے الیکٹرک نے الیکشن میں پی ٹی آئی کی فنڈنگ کی تھی۔ اس بارے میں معلومات رکھنے والے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ اس کے بعد، بشیر میمن پر دبائو ڈالا جاتا رہا کہ وہ کیس بند کر دیں لیکن وہ انکار کرتے رہے۔

دوسری طرف ان پر اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف من گھڑت مقدمات درج کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ جب ایک سرکاری عہدیدار سے پوچھا گیا کہ حکومت کس کے خلاف مقدمات درج کرانا چاہتی تھی تو ان کا کہنا تھا آپ چاہے جس کا نام لے لیں، اس کے خلاف۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق نون لیگ سے تھا لیکن کچھ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی نظر میں تھے۔ شریف فیملی سر فہرست تھی۔

حکومت اس وقت ناراض ہوئی جب ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں بیان جمع کرایا کہ انہیں نواز شریف اور دیگر کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔ ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بشیر میمن سے کہا کہ آپ یہ معاملہ لٹکا بھی تو سکتے تھے چاہے شواہد ہوں یا نہ ہوں۔ نواز شریف کے علاوہ، حکومت اصغر خان کیس کے سلسلے میں مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف بھی کارروائی کی خواہش مند تھی۔

اگلا ہدف شہباز شریف تھے۔ بشیر میمن نے ٹھوس شواہد کی موجودگی تک ان کے خلاف کارروائی سے انکار کر دیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ شہباز کے ماتحت کام کرنے والے بیوروکریٹس سے ملاقاتیں کر کے شواہد جمع کریں۔ ایک موقع پر انہیں اس مقصد کیلئے لاہور بھیجا گیا۔ جب ایف آئی اے سے شہباز شریف کی گرفتاری میں ناکامی ہوئی تو نیب کو شامل کیا گیا۔ شہباز کی گرفتاری کے ایک دن بعد، تعاون نہ کرنے پر ایف آئی اے کا مذاق اڑایا گیا جبکہ مستعد کارروائی پر نیب کی تعریف کی گئی۔

ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بشیر میمن سے کہا، دیکھا، میں سے صرف ایک فون کیا اور ان لوگوں نے شہباز کو اگلے ہی دن گرفتار کرلیا۔ چند روز بعد ایک اور ملاقات میں بشیر میمن کو بتایا کہ نیب نے اپوزیشن والوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ہے، جن کے نام ٹاک شوز میں نیب کے اگلے شکار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بشیر میمن کو یاد دہانی کرائی گئی، اسے ہی وفاداری کہتے ہیں۔

ایک افسر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے پر دبائو اس وقت کم ہونا شروع ہوگیا جب نیب والوں نے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ جس وقت شہباز شریف ضمانت پر رہا تھے اور مریم نواز نے احتساب عدالت کے جج کے اسکینڈل پر پریس کانفرنس کر دی تو ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے پر دباؤ بڑھ گیا کہ نون لیگ کے ان رہنمائوں کو گرفتار کیا جائے جو اس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ اس مرتبہ پہلا ہدف مریم نواز تھیں۔ بشیر میمن نے دلیل دی کہ صرف پریس کانفرنس کی بنیاد پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ پھر مایوس سرکاری عہدیدار نے مطالبہ کیا کہ مریم نہیں تو پرویز رشید کو گرفتار کر لو۔ لیکن قانون میں اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ کس قانون کے تحت؟ شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری شروع کرنا اگلا مطالبہ تھا۔ لیکن سوال کیا کہ وجہ کیا ہونی چاہئے؟

ان سے کہا گیا کہ ایئر بلیو میں کچھ تلاش کرو۔ علی جہانگیر صدیقی کی گرفتاری بھی حکومت کی خواہشات کی فہرست میں تھی۔ سوال کیا کہ کیسے کریں؟ تو انہیں کہا گیا کہ شاہد خاقان عباسی کےساتھ ایئر بلیو میں ان کی پارٹنرشپ میں کچھ تلاش کریں، یا پھر دیکھیں کہ انہوں نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے کوئی کام کیا ہو۔ اس موقع پر دفتر خارجہ نے یہ کہتے ہوئے مداخلت کی کہ وزارت خارجہ کو متنازع بنانا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور حکم نامہ آگیا۔ وزارت خارجہ کے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں جو علی جہانگیر صدیقی کو بچانا چاہتے ہیں۔

سوال کیا کہ ایسا کیسے کریں؟ تو جواب ملا کہ ان پر علی جہانگیر سے رشوت لینے کا الزام لگا دیں۔ خواجہ آصف بھی ہدف تھے اور اب بھی ہیں۔ حکومت انہیں ان کے متحدہ عرب امارات کے اقامے کی وجہ سے پھنسانا چاہتی تھی کہ وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے غیر ممالک کو قومی راز بیچتے تھے۔ شواہد کہاں سے لائیں؟ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ سپریم کورٹ نے انہیں کلیئر کر دیا ہے۔ پھر کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر ان سے کہا گیا کہ آپ ایک پریس ریلیز جاری کریں کہ ان کے خلاف غداری کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور الزام یہ ہے کہ انہوں نے غیر ممالک کو قومی راز دیے ہیں۔ میمن نے ایسا کرنے سے ا نکار کر دیا اور کہا کہ ایف آئی اے ایسا اعلان نہیں کر سکتی کیونکہ ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔

ایک گرما گرمی والی بحث میں بشیر میمن نے ایک سینئر بیوروکریٹ کو بتایا کہ اگر ایف آئی اے نے ایسے من گھڑت بنیادوں پر مقدمات درج کرنا شروع کیے تو وہ وقت بھی آئے گا جب وزیراعظم پر اپنے دو برطانوی شہری بیٹوں سے ملاقات کا الزام عائد کیا جائے گا۔

اے این ایف سے قبل، رانا ثناء اللّہ کی گرفتاری بھی ایف آئی اے سے کروانے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن ایجنسی نے ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کے باعث انکار کر دیا۔ اس واقعے کی معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ کم از کم چار مرتبہ بشیر میمن سے کہا گیا کہ وہ کسی بھی الزام میں رانا ثنا اللّہ کو اٹھا لیں۔ انجینئر امیر مقام بھی ہدف تھے۔

ایف آئی اے جب اس معاملے کو دیکھ رہی تھی تو جس کمپنی کے متعلق کیس سامنے آیا تھا وہ امیر مقام کے بیٹے کی تھی۔ اگرچہ امیر مقام کے بیٹے کو گرفتار کرلیا گیا لیکن حکومت امیر مقام کے گرفتار نہ ہونے پر ناخوش تھی۔ جب یہ کہا گیا کہ قانوناً امیر مقام کا اس کیس سے کوئی واسطہ نہیں تو ایف آئی اے سے کہا گیا کہ امیر مقام کی اہلیہ کو گرفتار کیا جائے کیونکہ کمپنی کے بورڈ میں وہ بھی شامل ہیں۔

حکومت نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان کو بھی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ کیسے گرفتار کریں؟ ایف آئی اے سے کہا گیا کہ ان کی ایک کمپنی ہے، بے ضابطگیاں تلاش کریں، ٹیکس معاملات کی چھان بین کریں۔ خرم دستگیر، جاوید لطیف، رانا مشہود اور خواجہ سعد رفیق بھی فہرست میں شامل تھے لیکن ایف آئی اے نے ٹھوس شواہد کے بغیر مقدمات درج کرنے سے انکار کر دیا۔ خورشید شاہ کو ایف آئی اے کے تعاون نہ کرنے پر نیب کے ہاتھوں گرفتار کرایا گیا۔

شیری رحمان، رحمان ملک، مصطفیٰ کھوکھر پیپلز پارٹی کے وہ رہنما تھے جنہیں ایف آئی اے سے گرفتار کرنے کو کہا گیا۔ سابق چیئرمین نیب قمر الزماں بھی ممکنہ ٹارگٹ کی فہرست میں تھے۔ احسن قبال اور مریم نواز بھی فہرست میں شامل ہیں۔ ان پر حکومت کے خلاف زیادہ بولنے کا الزام تھا۔

ایف آئی اے سے کہا گیا کہ یہ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر ہم پر تنقید کیسے کر سکتے ہیں؟ بشیر میمن کو ایک عرب حکمران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آپ میرے ساتھ عرب ملک چلیں، وہاں کی انتظامیہ دیکھیں، کوئی حکومت کے خلاف بول تک نہیں سکتا۔ ایف آئی اے کے پاس پی آئی اے کی ایک انکوائری موجود تھی جس میں موجودہ ایم ڈی کی جانب سے ایئر بس کمپنی سے واجبات ریکور کیے جانے کا معاملہ زیر بحث تھا۔ ایف آئی اے والوں سے کہا گیا کہ دیکھیں اس معاملے میں کہیں کوئی سیاست دان تو ملوث نہیں۔ جب جواب نفی میں آیا تو ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے ناراض ہوتے ہوئے کہا، ’’اپوزیشن والے سیاست دان بھونکتے ہوئے کتے ہیں، سب کو جیل میں ہونا چاہئے۔‘‘

تاہم، سینئر سرکاری عہدیدار کا رد عمل اس وقت تبدیل نظر آیا جب علیم خان کو نیب نے اٹھا لیا۔ ایف آئی اے والوں کے سامنے بات کرتے ہوئے سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ علیم خان کے خلاف کچھ نہیں ہے، نیب نے ہمارے لوگوں کو ہی پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ بشیر میمن کے استعفے پر بات چیت کرتے ہوئے مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ رخصت پر چلے گئے تھے، اب انہوں نے استعفیٰ دیدیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی ان پر اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کو بے بنیاد الزامات پر گرفتار کرنے کیلئے کوئی دباؤ تھا، تو انہوں نے اس بات کی تردید کی لیکن کہا کہ حکومت کا یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کوئی پالیسی اختیار کرے اور بیوروکریسی کو اس پر عمل کی ہدایت کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ایف آئی اے کا کیا لینا دینا ہے؟ یہ تو نیب کا کام ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ جن کیسز پر اب نیب کام کر رہا ہے وہ پہلے ایف آئی اے کو دیے گئے تھے، تو اس وقت فردوس عاشق کے ساتھ بات چیت منقطع ہوگئی؛ شاید انہیں کوئی اور فون کال آگئی تھی۔ جب دوبارہ کوشش کی گئی تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔

مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے صحافیوں کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ بشیر میمن سے موقف معلوم کرنے کیلئے رابطہ کیا گیا تو وہ بات چیت سے ہچکچا رہے تھے لیکن انہوں نے کوئی تردید کی اور نہ ہی کوئی تصدیق۔

حکومت کے ایک ذمہ دار کو جب یہ سب باتیں بتائی گئیں تو انہوں نے کہا کہ ہر افسر خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے یہ باتیں پھیلاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ ایماندار ہے۔ یہ تمام الزامات لغو اور جھوٹے ہیں اور من گھڑت ہیں، یہ سب لوگ مافیا ہیں، حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے۔

https://www.thenews.com.pk/print/577791-outgoing-dg-fia-leaves-behind-legacy-of-resistance-to-unlawful-orders